فلمی و ادبی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔قسط نمبر478

فلمی و ادبی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔قسط نمبر478
فلمی و ادبی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔قسط نمبر478

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

پاکستانی کی فلمی صنعت میں ایسی کوئی ماڈل (ہماری یاد داشت کے مطابق ) نہیں ہے نہ ممتاز ہیروئن کی بیٹی یا بیٹے نے فلموں میں اداکاری کی ہو اور کامیابی حاصل کی ہو۔ صرف اداکار لیلیٰ کی بیٹی سوئٹی نے اداکاری کی کوشش کی تھی مگر کامیابی حاصل نہ کر سکیں۔ اب لیلیٰ کی نواسی اور سوئٹی کی صاحب زادی جاناں کے نام سے ٹی وی ڈراموں اور اشتہاروں میں نظر آتی ہیں۔ جاناں ایک ایک خوبصورت شکل اور دلکش شخصیت کی مالک ہیں۔ خصوصاً ان کا کتابی چہرہ اور غلافی آنکھیں بہت نمایاں ہیں لیکن بدقسمتی سے وہ اداکاری کی صلاحیتوں سے محروم ہیں اس لیے کامیاب نہ ہوسکیں۔

فلمی و ادبی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔قسط نمبر477پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں


لیکن ایک ایسی مثال بھی موجود ہے جب ایک بہت بڑے اور نامور مصنف ، فلم ساز اور ہدایت کار اور ایک صف اول کی ہیروئن کے بیٹے نے پاکستانی فلموں میں نمایاں کامیابی حاصل کی۔ یہ اداکار و ہدایت کار شان ہیں۔ جیسا کہ سب جانتے ہیں کہ شان ممتاز مصنف و ہدایت کار ریاض شاید اور اور اداکار نیلو کے بڑے صاحبزادے ہیں۔ ان دونوں کی صاحبزادی ’’زرقا‘‘ کی نو عمری میں شادی کی گئی تھی اور وہ اب ایک کامیاب اور خوشگوار گھریلو زندگی بسر کر رہی ہیں۔ شان کو لگ بھگ دس گیارہ سال پہلے ہدایت کار جاوید فاضل نے اپنی فلم ’’بلندی‘‘ میں رومانی ہیرو کے طور پر پیش کیا تھا۔ اس فلم کی ہیروئن بھی بالکل نئی تھی۔ یہ ریما تھیں۔ جاوید فاضل اور فلم ساز اسلام بٹ نے دونوں کو بہت اچھے انداز میں متعارف کرایا تھا۔ فلم کا آغاز یا مہورت ایک فائیو اسٹار ہوٹل کی تقریب میں کیا گیا تھا جو کہ اس زمانے میں بالکل نیا تجربہ تھا۔ ’’بلندی ‘‘ کے مصنف سید نور تھے۔ یہ ہر اعتبار سے ایک معیاری فلم تھی جس میں نئی ہیروئن ریما نے ایک کلاسیکی رقص پیش کر کے دیکھنے والوں کو حیرت زدہ بلکہ سحر زدہ کر دیا تھا۔
’’بلندی ‘‘ ریما اور شان کے فلمی سفر کا آغاز تھا اس کے بعد بھی ان دونوں نے بلندیوں کی جانب اپنا سفر جاری رکھا۔ ریما نے تو بہت سمجھداری اور سوجھ بوجھ کا مظاہرہ کیا اور نہ صرف اچھے کرداروں اور ہدایت کاروں کو ترجیح دی بلکہ منتخب کردار ہی کیے۔ اس کے برعکس یہ کامیابی شان کے ناپختہ ذہن کے لیے بہت زیادہ ثابت ہوئی۔ انہوں نے ہر قسم کی فلموں میں ہر طرح کے کرداروں کے لیے معاہدے کر لیے ۔اس کے علاوہ اچانک مقبولیت نے ان کو غیر ذمے دار بھی بنا دیا تھا۔ کہتے ہیں کہ بری صحبت میں پڑ کر وہ بری عادتوں میں بھی مبتلا ہوگئے تھے۔ نتیجہ وہی برآمد ہوا جو کہ ایسے معاملات میں ہوتا ہے اور ہوتا رہا ہے۔ شان رفتہ رفتہ فلم سازوں اور ہدایت کاروں کے لیے ایک مسئلہ بن گئے اور اس کے نتیجے میں مقبولیت کی سیڑھی سے ایسے گرے کہ کچھ عرصہ فلمی دنیا سے غائب ہی رہے ۔ وہ امریکا چلے گئے ۔ جہاں شاید انہوں نے کافی غور و خوض کیا۔
چند سال بعد وہ دوبارہ فلموں میں نمودار ہوئے تو یہ ان کے لیے ایک نئے سفر کا آغاز تھا۔ بہرحال اپنی صلاحیتوں ، محنت اور لگن سے انہوں نے دوبارہ اپنا کھویاہوا مقام حاصل کرلیا۔ ایک بار پھروہ فلم سازوں کی ضرورت بن گئے۔ ہدایت کاری کی صلاحتیں انہیں باپ سے ورثے میں ملی تھیں اس لیے جب انہوں نے فلم گنیز اینڈ روزز (ایک جنون ) کی ہدایت کاری کا اعلان کیا تو سبھی نے اس کاخیر مقدم کیا لیکن یہ فلم تجربات کی نذر ہوگئی۔ انہوں نے کمرشل کے بدلے ایک علامتی آرٹ فلم بنا دی جسے کامیابی حاصل نہ ہوسکی۔ اس کے بعد بھی انہوں نے ہمت نہ ہاری اور دوسری فلم کی ہدایت کاری کے فرائض سر انجام دیئے۔ یہ ایک کامیاب فلم تھی اور معیاری بھی تھی لیکن اس اثنا میں شان پنجابی اور اردو فلموں کے مقبول ترین ہیرو بھی بن چکے تھے۔ فلم ساز ان کا گھیراؤ کر چکے تھے۔ اس طرح وہ نہ اداکاری کے لیے پورا وقت دے سکتے تھے ، نہ ہدایت کے لیے۔ اس پر مستزادیہ کہ انہوں نے بے شمار فلمیں سائن کرلیں۔ پنجابی فلم سازوں نے انہیں سلطان راہی کا انداز دے دیا۔ اس طرح کی فلمیں کامیاب ہوئیں تو وہ ایسے ہی کرداروں کے لیے مخصوص ہو کر رہ گئے۔ اب وہ پنجابی اور اردوفلموں کے سب سے زیادہ مقبول اور کامیاب اداکار ہیں لیکن شاید زیادہ عرصہ یہ مقام برقرار نہ رکھ سکیں کیونکہ کرداروں کی یکسانیت نے ان کی صلاحیتوں کو گہنا دیا ہے۔ وہ آج بھی مقبول ہیں لیکن اگر فلم سازوں سے تعاون نہ کرنے اور بلا سوچے سمجھے بے شمار فلمیں سائن کرنے کی روش برقرار رکھی تو شاید وہ زیادہ عرصے تک اس مقام پر فائز نہ رہ سکیں۔ انہیں اعتدال پسندی سے کام لے کر اچھے اور کم کردار قبول کرنے چاہئیں۔ ہدایت کاری کا شوق پورا کرنے کے لیے انہیں اگرچند فلموں کی قربانی بھی دینی پڑے تو اس سے گریز نہیں کرنا چاہیے مگر فی الحال تو وہ کامیابیوں کے جھولے جھول رہے ہیں اس لیے کھری بات اور صحیح مشورہ شاید انہیں پسند نہ آئے۔ اگر وہ خود کو سنبھال کر رکھیں تو طویل عرصے تک فلمی دنیا پر راج کر سکتے ہیں۔ انہیں اس سلسلے میں اپنے سینئر ندیم کے نقش قدم پر چلنا چاہیے۔ زیادہ کرداروں اور زیادہ پیسوں لا کالچ کسی بھی اچھے کردار کے لیے نقصان دہ ثابت ہوتا ہے۔ اس کے برعکس کام کرنے والے اداکار ہمیشہ کامیاب اور یادگار رہتے ہیں۔ بھارت میں دلیپ کمار اور پاکستان میں ندیم اس کی واضح مثالیں ہیں۔
شان کے چھوٹے بھائی اعجاز ریاض شاہد نے بھی ادکاری کے میدان میں قدم رکھا تھا۔ ان کا فلمی نام سروش تجویز کیا گیا۔ ان کی پہلی فلم ’’پیاری پیار ‘‘ تھی جس کے ہدایت کار اقبال کاشمیری تھے۔ اس فلم میں ان کا کردار زیادہ اہم اور نمایاں نہ تھا۔ سروش کو اس کے بعد ہدایت کار جاوید فاضل نے ’’دنیا دس نمبری ‘‘ میں موقع دیا مگروہ کامیاب نہ ہوسکے۔ اس کے بعد وہ فلمی دنیا سے غائب ہوگئے۔ اب شاید بہت کم لوگوں کو ان کا نام یاد ہوگا۔ یہ بھی قدرت کی عجیب ستم ظریفی ہے کہ ایک بھائی بلندیوں کی چوٹی پر ہے اور دوسرا نظروں سے اوجھل ہوچکا ہے۔ ان دنوں وہ امریکا میں کوئی کاروبار کرتے ہیں۔
بھارتی فلمی صنعت میں صورتِ حال اس سے قدرے بہتر ہے۔ سب سے پہلے تو نوتن کی مثال ہے جو اپنے زمانے کی معروف ہیروئن شوبھنا سمرتھ کی صاحب زادی تھیں اور بہت ممتاز ہیروئن رہ چکی ہیں۔ ان کی چھوٹی بہن تنوجہ سے بھی اداکاری کی تھی مگر زیادہ کامیاب نہ ہوسکیں۔
نر گس اور سنیل دت کے بیٹے سنجے دت نے بھارتی فلمی صنعت میں بہت کامیابیاں حاصل کیں مگر پھر بے اعتدالی کا شکار ہوگئے۔ وہ منشیات کے عادی ہوگئے تھے۔ کچھ اور مسائل بھی تھے جن کی وجہ سے وہ صفِ اول کے اداکاروں کی فہرست سے خارج ہو کر امریکا چلے گئے۔ فلمی دنیا میں ان کا دوسرا جنم بھی کامیاب تھا۔ وہ صحت مند ہو کر لوٹے تھے۔ چند اچھے کردار بھی انہیں مل گئے اور وہ ایک بار ھپر مقبول ہیرو بن گئے مگر پھر دہشت گردی کے قانون کے تحت جیل چلے گے ۔ کہا جاتا ہے کہ متعصب صوبائی حکومت ان کے مسلم دوست رویے کی وجہ سے ناراض تھی۔ بہر حال کافی عرصے تک وہ قیدی و بند کے صعوبتیں سہتے رہے۔ ان کے مخالف لابی اتنی طاقت ورتھی کہ سنیل دت ایک بار سوخ انسان اور ممبر پارلیمنٹ ہونے کے باوجود بیٹے کو نہ بچا سکے۔
جمیل پاکستانی اداکار تھا ۔ یہ امن‘‘ اور ’’غرناطہ‘‘ میں بھی کام کیاتھا۔ ’’سزا‘‘ میں تو وہ گزارا تھے لیکن ریاض شاہد جیسے مصنف و ہدایت کار بھی ان میں صلاحتیں اور لگن پیدا کرنے میں نا کام رہے۔ کچھ عرصے بعد (70کی دہائی کے آغاز میں) وہ ممبئی چلے گئے۔ وہاں ان کی ازدواجی تلخیوں کے باعث انہیں خاندان سے بے تعلق ہونا پڑا۔ جب ان کی بیٹی فرح نے ان کی مرضی اور ماں کی خواہش کے مطابق فلموں میں اداکاری کی تو وہ گھر والوں سے قطع تعلق کر کے حیدر آباد (دکن ) چلے گئے۔ وہاں انہوں نے دوسری شادی کرلی اور ایک دو دراز علاقے میں اپنے نئے خاندان کے ساتھ گمنام لیکن مطمئن زندگی بسر کر رہے ہیں۔
فرح نے اپنی بے باکی اور آزاد خیالی کے حوالے سے بھارتی فلمی دنیا میں کافی نام (یا بدنامی ) حاصل کی۔ ان کے اسکینڈلز عام تھے پھر وہ شادی کر کے فلمی دنیا کو خیر باد کہہ گئیں تو ان کی چھوٹی بہن ’’تبو ‘‘ نے اداکاری کا آغاز کردیا۔ تبو ایک خوش شکل اور بہت اچھی صلاحیتوں کی مالک اداکارہ ہیں انہوں نے چند فلموں میں یادگار کردار کیے ہیں جن میں مصنف ۔۔۔ گلزار کی فلم ’’ماچس‘‘ قابلِ ذکر ہے۔ تبو اسکینڈلز کے معاملے میں اپنی بڑی بہن سے کم ہیں لیکن ان کی اداکاری کے سب معترف ہیں ۔ اسکینڈلز کی طرح وہ پیسے کے لالچ کے معاملے میں بھی اپنی بڑی بہن سے پیچھے ہیں۔ وہ عموماً اچھی اور آرٹ فلموں ہی میں کام کرنے کو ترجیح دیتی ہیں۔
دلیپ کمار صاحب اولاد نہیں ہیں مگر ان کے بھائی ناصر خاں اور اداکارہ بھاوج بیگم پارہ کے بیٹے ایوب خاں فلموں میں کام کر رہے ہیں۔ ایوب خاں نے کوئی خاص کار کردگی نہیں دکھائی ہے۔ بیگم پارہ کو شکایت ہے کہ دلیپ کمار نے اپنے بھتیجے کے لیے کچھ نہیں کیا ورنہ وہ بہت بلند مقام حاصل کر لیتے ۔ دلیپ کمار اس بارے میں حسبِ عادت خاموش ہیں۔
دلیپ کمار کے ہم عصر راج کپور اور دیو آنند تھے۔ راج کپور کے بیٹے کپور کو انہوں نے اپنی فلم ’’بوبی‘‘ میں تہلکہ آمیز انداز میں پیش کیا تھا اور رشی کپور درمیانہ عمر میں بھی آج تک اداکاری کر رہے ہین۔ اگرچہ ان کا مقام گھٹ گیا ہے۔ راج کپور کے دوسرے بیٹے دندھیر کپور نے چند فلموں میں کام کیا مگر کوئی مقام حاصل نہ کر سکے۔ اس لیے ریٹائرڈ ہوگئے۔ ان کی اداکارہ بیوی ببیتاکو ’’ کپور خاندان‘‘ کی روایات کے مطابق اداکاری سے کنارہ کش ہونا پڑا تھا۔ جس طرح رشی کپور کی اداکارہ بیگم نیتو سنگھ نے بھی شادی کے بعد اداکاری کو خیرباد کہہ دیا تھا۔ راج کپور کے بھائی ششی کپور بہت عرصے تک کامیاب اداکار رہے پھر انہوں ے فلم سازی میں نام پیدا کیا۔ ان کی صاحبزادی سجاتا کو اداکاری سے دلچسپی نہ تھی۔ ویسے بھی راج کپور اور پرتھوی راج کے خاندان میں عورتوں کو شمعِ محفل کی بجائے چراغِ خانہ بنانے کا رواج تھا۔
(جاری ہے۔۔۔ اگلی قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں)