”سپریم کورٹ کے جج سمیت چار جج صاحبان پریس کانفرنس کر کے بتانے والے ہیں کہ دباوکہاں سے آرہا ہے “بی بی سی کے معروف صحافی شفیع نقی جامی نے تہلکہ خیز دعویٰ کردیا

”سپریم کورٹ کے جج سمیت چار جج صاحبان پریس کانفرنس کر کے بتانے والے ہیں کہ ...
”سپریم کورٹ کے جج سمیت چار جج صاحبان پریس کانفرنس کر کے بتانے والے ہیں کہ دباوکہاں سے آرہا ہے “بی بی سی کے معروف صحافی شفیع نقی جامی نے تہلکہ خیز دعویٰ کردیا

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

لندن (ڈیلی پاکستان آن لائن )پاکستان میں آئندہ عام انتخابات کے انعقاد میں ایک ہفتہ باقی رہ گیا ہے اور اس وقت ملک میں سیاسی ہلچل جاری ہے ،ایک طرف عمران خان ملک بھر کے مختلف علاقوں میں جلسے کر رہے ہیں تو دوسری طرف سابق وزیر اعظم نواز شریف احتساب عدالت کے فیصلے پر جیل چلے گئے ہیں ،نواز شریف اپنے خلاف آنے والے تمام فیصلوں کو کسی دباﺅ کے نتیجے میں آنے والے فیصلے قرار دیتے ہیں ۔تاہم اب بی بی سی کے صحافی نے دعویٰ کیا ہے کہ آنے والے دنوں میں چندجج صاحبان دباو کے حوالے سے تہلکہ خیز انکشاف کرنے والے ہیں ۔
تفصیل کے مطابق بی بی سی کے معروف صحافی شفیع نقی جامی نے مائیکرو بلاگنگ ویب سائٹ ٹوئٹر پر دعویٰ کیا ہے کہ ”اندر کی اطلاعات کے مطابق :سپریم کورٹ کے ایک ،اسلام آباد ہائی کورٹ کے دو اور لاہور ہائی کورٹ کے ایک محترم جج صاحبان تنگ آمد بجنگ آمد کے مصداق بیک وقت تحریر ی بیان دے کر یا مشترکہ پریس کانفرنس کر کے پاکستان کو یہ بتانے والے ہیں کہ دباﺅ اور فیصلے کہاں سے آرہے ہیں ۔پھر اللہ خیر ۔“


اس پر رد عمل دیتے ہوئے معروف اینکر پرسن اور سینئر صحافی افتخار احمد نے کہا کہ بھارت میں سپریم کورٹ کے ججز کی چیف جسٹس آف انڈین سپریم کورٹ کے خلاف پریس کانفرنس ایک بڑی خبر تھی ۔اب ہم پاکستانی جج صاحبان کا انتظار کرتے ہیں ۔


واضح رہے کہ کچھ عرصہ قبل بھارت کی تاریخ میں پہلی مرتبہ عدالت عظمیٰ کے چارججوں نے اعلیٰ عدلیہ کے کام کاج کے طریقوں پر سنگین سوالات اٹھائے تھے اور کہا تھا کہ اگر سپریم کورٹ کو نہ بچایا گیا تو ملک سے جمہوریت ختم ہو جائے گی۔بھارتی سپریم کورٹ میں چیف جسٹس کے بعد سینئر ترین جسٹس جستی چاملیشور کے علاوہ جسٹس رنجن گوگوئی، جسٹس مدن بی لوکور اور جسٹس کورین جوسف نے ملک کی تاریخ میں پہلی مرتبہ پریس کانفرنس طلب کرکے یہ الزام لگایاتھا کہ ملک کی اعلیٰ ترین عدالت کے طریقہ کار میں انتظامی ضابطوں پر عمل نہیں ہو رہا ہے اور چیف جسٹس کے ذریعہ عدالتی بنچوں کو سماعت کے لیے مقدمات من مانے ڈھنگ سے الاٹ کرنے کی وجہ سے عدلیہ کے اعتبار پر سوالیہ نشان لگ رہے ہیں، جس کی وجہ سے انہیں میڈیا سے بات کرنے کے لیے مجبور ہونا پڑا۔

مزید :

اہم خبریں -قومی -