میری ڈائری کے چند اوراق (9)
اس سلسلہ ء مضامین کی گزشتہ قسط (قسط نمبر8) میں ”ضربِ مومن“نامی آرمی ایکسرسائز کا تذکرہ تھا۔ یہ ایکسرسائز دسمبر1989ء میں اس دور میں بروئے عمل لائی گئی تھی جب اگست 1988ء میں جنرل ضیاء الحق ایک طیارے (C-130) کے حادثے میں جاں بحق ہو گئے تھے اور ان کے بعد جنرل مرزا اسلم بیگ نے پاک آرمی کی کمانڈ سنبھالی تھی۔
1980ء سے 1988ء تک ایران۔ عراق جنگ جاری رہی تھی اور اس کا کوئی حتمی فیصلہ نہیں ہوا تھا۔ امریکہ کا خیال تھا کہ وہ ایران کی نئی اسلامی حکومت کو گرا دے گا لیکن ایسا نہ ہو سکا۔ اسی دوران ایران نے پاکستان کے ساتھ عسکری روابط میں اضافہ کر دیا۔ بڑے تسلسل سے ایرانی عسکری وفود پاکستان میں آنے لگے اور مجھے ان کی ترجمانی پر مامور کیا جاتا رہا۔ میرے ریکارڈ سے 1989ء کے بعد کی ڈائری کہیں کھو گئی تھی اس لئے میں نے آٹھویں قسط کے بعد یہ سلسلہ ختم کر دیا تھا۔ یہ اس لئے لکھ رہا ہوں کہ بعض دوستوں نے تقاضا کیا کہ اس سلسلے کو ختم نہ کیا جائے۔ ازراہِ اتفاق گزشتہ دنوں 1990ء کی ڈائری مل گئی۔ اس سال ایک ایسا ایرانی ملٹری ڈیلی گیشن پاکستان آیا تھا جس نے پاکستان اور ایران کے مابین دو طرفہ عسکری تعلقات میں مزیداضافہ کر دیا۔ جنرل اسلم بیگ ویسے بھی ایران کے ساتھ گہرے تعلقات کے خواہاں تھے اور نئی ایرانی قیادت کے بارے میں نرم گوشہ رکھتے تھے۔
چنانچہ مئی 1990ء میں جو ایرانی وفد پاکستان آیا اس میں زیادہ تر ٹیکنیکل شعبوں کے آفیسرز شامل تھے۔ ایران اور افغانستان کی افواج کی تقریری اور تحریری زبان چونکہ فارسی ہے اور نئی ایرانی حکومت 1980ء کے عشرے میں عراق کے ساتھ جنگ میں الجھی رہی اس لئے ایران کی مسلح افواج کا سرمایہ ء علم و فن زیادہ تر وہی تھا جو شاہ کے زمانے کا تھا اور چونکہ شاہ کے دور کی افواج کے زیادہ تر آفیسرز اور جوان انقلابِ ایران کے بعد فوج سے ریٹائر کر دیئے گئے تھے اس لئے ایران کی نئی مسلح افواج کو تنظیم و تشکیل کے موضوعات، آپریشنل معاملات، جدید ساز و سامانِ جنگ جو شاہ کے زمانے میں ایران کے پاس وافر تعداد / مقدار میں موجود تھا، اس پر نئی افواج کو ٹریننگ دینے میں کچھ وقت لگا۔ ان برسوں میں جو ایرانی ملٹری وفود پاکستان کا دورہ کرتے رہے ان کو زیادہ تر ٹیکنیکل لڑاکا شعبوں مثلاً انجینئرنگ، آرمر، آرٹلری اور سگنلز وغیرہ میں پروفیشنل معلومات حاصل کرنے کی ضرورت تھی۔ خود ایران کا ملٹری انڈسٹریل سٹرکچر پاکستان سے کچھ زیادہ پیچھے نہیں تھا بلکہ بعض فیلڈز میں ہم سے بھی آگے تھا۔ امریکہ اور دوسرے مغربی ممالک نے شاہ رضا شاہ پہلوی کو اس خطے میں اپنا ”فرنٹ مین“ بنانے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا تھا۔ جیسا کہ آپ آگے چل کر اس ڈائری کے صفحات میں نئی ایرانی افواج کی کارکردگی دیکھیں گے اور ایرانی افسروں کی پروفیشنل سنجیدگی کو بھی نگاہ میں رکھیں گے تو آپ کو تسلیم کرنا پڑے گا کہ آئت اللہ خمینی کے انقلابِ ایران کی نئی اسلامی افواج بڑی تیزی سے جدید ملٹری معلومات اور ٹیکنالوجی کو گلے لگانے میں پیش پیش رہیں۔
ایران کی ملٹری زبان چونکہ فارسی تھی اس لئے جدید ملٹری اصطلاحات و تراکیب سیکھنے اور اپنانے میں اس نئی فوج یعنی سپاہِ پاسدارانِ انقلاب (IRGC)کو ایک عرصہ درکار تھا۔ لیکن ایرانیوں کا ذوق و شوق، ٹریننگ کی سخت جانی کی برداشت اور مشکلات پر قابو پا لینے کا جذبہ بے مثال تھا۔ جیسا کہ آپ آگے چل کر اس ایرانی عسکری وفد کے دورے کی تفصیلات ملاحظہ کریں گے اس کا سارا فوکس ٹینکوں، توپوں، طیاروں، ہیلی کاپٹروں اور بھاری ٹرانسپورٹ کے موضوعات پر دسترس پانے پر مرکوز رہا۔ میری خوش قسمتی تھی کہ مجھے پاک آرمی کے مختلف لڑاکا اور خدماتی شعبوں کو جاننے اور ان میں پوسٹ ہونے کے مواقع نصیب ہوئے۔ مجھے یہ دعویٰ کرنے میں کچھ باک نہیں کہ میں نے ایجوکیشن کور کا آفیسر ہوتے ہوئے ارادتاً آرمی کے ان حربی شعبوں کی چیدہ چیدہ معلومات کے حصول میں سخت محنت کی اور نہ صرف یہ کہ ان کی اساسی شد بد حاصل کی بلکہ اس تجربے کو فارسی زبان میں ترجمہ کرنے کا کوہِ گراں بھی سر کیا۔ ملٹری کی زبان اور اس کا روز مرہ، سویلین زبان اور اس کے روزمرہ سے کئی معنوں میں مختلف ہوتا ہے۔ جب تک آپ کو(بطور انٹرپریٹر) دونوں زبانوں کی پیشہ ورانہ اور تکنیکی تراکیب و اصطلاحات پر عبور حاصل نہ ہو آپ ترجمانی کا حق ادا نہیں کر سکتے۔ جس طرح ہماری روزمرہ کی بول چال اور مختلف سول شعبوں کی زبانوں کی لغت مختلف ہوتی ہے اسی طرح فوجی زبان کی اصطلاحات اور ٹیکنیکل مترادفات بھی مختلف ہوتے ہیں اور ان کا شعور حاصل کرنے کا تجربہ ایک دشوار چیلنج ہوتا ہے۔ خدا کا شکر ہے کہ اس نے مجھے ان عسکری مضامین و موضوعات کو سیکھنے اور پھر فارسی میں ترجمانی کرنے کا ادراک بخشا!…… اب ڈائری کے چند اوراق:
……………………
یکم مئی 1990ء
آج چھٹی کادن تھا۔ یومِ مزدوراں کے سلسلے میں عام تعطیل تھی۔ لیکن ایرانی بھائیوں کو کہیں نہ کہیں تو مصروف کرنا تھا۔ لہٰذا انہیں مری اور قرب و جوار کا علاقہ دکھانے کا پروگرام بنایا گیا۔ ہم صبح 9بج کر 20منٹ پر مری کے لئے روانہ ہوئے۔ ایرانی وفد کے تمام ممبران اور ایرانی سفارت خانے کا ایک آفیسر بھی ساتھ تھا۔ ہماری طرف سے بریگیڈیئر رؤف، لیزان آفیسر ہیوی ری بلڈ فیکٹری (HRF)، میجر ارشد (لاگ ایریا) اور جنرل جاوید ہاشمی ڈی جی الیکٹریکل اینڈ مکینیکل انجینئرنگ کور (EME) ساتھ تھے۔ ڈیڑھ گھنٹے بعد مری (بھوربن) پہنچ گئے۔ راستے میں آقائی سعیدی نے جھیکا گلی آکر قے کر دی۔ ان کے ساتھ ہی آقائے نجّار (Najjar)کی طبعیت بھی خراب ہو گئی۔ اور اس نے بھی قے کر دی۔ میں 1969ء میں اور پھر 1977ء میں دوبار اپر ٹوپہ میں سروس کر چکا تھا۔ ہم تقریباً ہر روز جھیکا گلی سے گزر کر مری آتے جاتے تھے۔ تقریباً سارے ہی دکاندار مجھے پہچان گئے۔ کوئی بھاگ کر 7up اٹھا لایا اور کسی نے کوک کی بوتلیں پیش کر دیں۔ میں نے ازراہِ مذاق سعیدی کو کہا کہ ہمارے ہاں بھی پہاڑی سفر کے دوران قے کرنے کا ”رواج“ عام ہے لیکن عموماً صنف نازک اس کا شکار ہوتی ہے۔ یہ سن کر سعیدی اور نجّار دونوں نے داڑھی کو بار بار سہلانا شروع کیا تو میں نے کہا: ”بخدا، شما مردانِ قوی و باریش ہستید، معذرت می خواہم!“
جنرل صفدر GOC 12ڈویژن (مری) نے بھوربن میں وفد کا استقبال کیا۔ مشروبات کے بعد گالف سے دو دو ہاتھ کئے۔ میں نے بھی کئی سٹروک کھیلے۔ میرے نزدیک یہ کوئی دلچسپ گیم نہیں۔البتہ بیکار، سن رسیدہ اور ثروت مند لوگوں کے لئے اچھا شغل ہے۔ کھلی اور فرحت بخش آب و ہوا میں واک ہو جاتی ہے لیکن اس سے مہنگی واک کہیں اور دیکھنے میں نہیں آتی۔ اس کا دلچسپ یا غیر دلچسپ ہونا ایک دوسری بات ہے۔
دھوپ چمک رہی تھی اور موسم بھی خوشگوار تھا۔ میں نے جنرل موسوی کو ساتھ لیا اور گردونواح کا نشیب و فراز دکھانے نکل کھڑا ہوا۔ میں نے گاڑی میں سے اپنے جوگر نکالے اور پہن لئے۔آقائے رجبی بھی ساتھ ہو لئے۔ ہم تقریباً گھنٹہ بھر اِدھر اُدھر گھومتے رہے۔ جنرل موسوی کا چہرہ دیکھ کر میں نے اندازہ لگایا کہ وہ اس ٹرپ کو انجوائے نہیں کر رہے۔ اس لئے ان کو کلب میں چھوڑا اور خود اکیلا ایک طرف کو نکل گیا۔ 15،20سال پہلے کی یادیں تازہ ہونے لگیں۔ بھوربن کافی ڈویلپ ہو چکا تھا۔ معاً کرنل ظریف (پنجاب رجمنٹ) نظر آئے۔ میں نے مصافحہ کیا تو کہنے لگے: ”میں آپ کو پہچان نہیں سکا۔ معذرت خواہ ہوں“۔
ستمبر 1969ء میں جب میری پہلی پوسٹنگ پنجاب رجمنٹ سنٹر (مردان) میں ہوئی تھی تو وہاں کرنل حسن محمود سنٹر کمانڈانٹ تھے۔ ان سے پہلے کرنل ظریف کمانڈانٹ تھے اور یہیں سے ریٹائر ہوئے تھے۔ میں نے ان کی دلیری اور بہادری کے بہت سے قصے سن رکھے تھے۔ دوسری جنگ عظیم میں ملایا میں تھے۔ وہاں کے واقعات سناتے رہے اور یہ بھی بتایا کہ ان کو کس ایکشن میں ملٹری کراس (MC) ملا۔ بعد میں میجر ارشاد بھی وہاں آ گئے۔ انہوں نے بھی دوسری جنگ عظیم میں جرمن جنرل مین سٹین (Manstein) کے تجربات کا ذکر شروع کر دیا اور بتایا کہ جرمن افواج کس طرح روس کے دو ڈویژنوں کی گھات سے بچ کر نکل آئی تھیں۔ ان کا مطلب یہ تھا کہ دلیری اپنی جگہ لیکن تجربے کا بھی ایک رول ہوتا ہے۔ میں نے جب 1943ء میں رشیا میں کرسک کے میدانِ جنگ میں ٹینکوں کی سب سے بڑی لڑائی میں اس طرح کی کئی گھاتوں (Ambushes) کا حوالہ دیا تو دونوں نے ملٹری ہسٹری میں میری دلچسپی کو سراہا۔
ہم تینوں کھڑے ابھی گپ شپ لگا رہے تھے کہ میس کا ایک ویٹر دوڑتا ہوا آیا اور مجھے کہا کہ کور کمانڈر (جنرل عمران) آ رہے ہیں۔ 1980-82ء میں جب میں جونیئر برن ہال سکول میں ایڈم آفیسر تھا تو جنرل عمران، PMA کے کمانڈانٹ تھے۔ ان کی بیٹی پانچویں کلاس میں اسی سکول کی طالبہ تھی۔ وہ کئی بار سکول آئے اور وہیں ان سے کئی ملاقاتیں ہوئیں۔ میرا بیٹا ان دنوں PMA میں تھا اور میں اس کو ملنے بھی وہاں آتا جاتا رہتا تھا۔جی چاہا کہ جنرل صاحب سے ملوں لیکن لیزان آفیسر کی خواہش تھی کہ ایرانیوں کو کورکمانڈر کے آنے سے پہلے واپس لے جانا چاہیے…… اس وقت دن کا ایک بج رہا تھا کہ ہم نے واپسی کا سفر شروع کیا۔
راستے میں آقائے کیانی کے ساتھ کافی گپ شپ ہوئی۔ پیشے کے اعتبار سے وہ مکینکل انجینئر ہیں لیکن تاریخ، عمرانیات اور بین الاقوامی امور کا گہرا ادراک رکھتے ہیں۔ میں نے ہمیشہ ایک بات محسوس کی ہے کہ ایران اگرچہ ہمارا برادر اسلامی ہمسایہ ملک ہے لیکن ایک نادیدہ اور ناگفتہ سی پروفیشنل رقابت پاکستانی اور ایرانی ملٹری آفیسرز کے درمیان پائی جاتی ہے، حالانکہ پاکستان اور ایران میں کبھی کوئی معمولی ملٹری جھڑپ بھی آج تک نہیں ہوئی۔
کیانی نے اچانک 1971ء کی پاک بھارت جنگ میں پاکستان آرمی کی کارکردگی پر تبصرہ کرنے کو کہا۔ میرا خیال ہے کہ گزشتہ برس (دسمبر 1989ء میں) جو ایرانین ملٹری وفد پاکستان کا دورہ کرکے واپس گیا تھا اور جس میں، میں نے ترجمانی (انٹرپریٹرشپ) کے فرائض انجام دیئے تھے اور”جوابِ جاہلاں باشد خموشی“ والا واقعہ پیش آیا تھا تو اس وفد نے واپس جا کر بالخصوص میرے بارے میں بریفنگ دی ہو گی اور کہا ہو گا کہ کرنل جیلانی ایران کی سویلین اور ملٹری تاریخ سے خاصی آگہی رکھتا ہے اس لئے اگر وہ آپ لوگوں کے ساتھ ہو تو اس سے سنبھل کر بات کرنا……وگرنہ میں نہیں سمجھتا کہ آقائے کیانی کو اس طرح اچانک 1971ء کی انڈو پاک وار پر میرا تبصرہ جاننے کی ضرورت کیوں پیش آئی۔ میں نے بے لاگ تبصرہ کر دیا۔ پاکستان آرمی کی وجوہاتِ شکست اور انڈین آرمی کی کامیابی کے اسباب پر بھی (بزعمِ خویش) سیرحاصل بات کی۔ لیکن میں نے محسوس کیا کہ کیانی کی تشفی نہیں ہو رہی…… میں نے تنگ آکر جب یہ کہا کہ آپ نے، عراق کے ساتھ جو ہشت سالہ جنگ کی ہے تو آپ کے پاس تیسری عالمی جنگ کے جدید ہتھیار موجودہ تھے۔ شاہ ایران نے اپنے ارتش (ریگولر ایرانین آرمی) کو جدید مغربی اسلحہ اور ساز و سامان سے لیس کر رکھا تھا لیکن اس جنگ کے طویل 8برسوں (1980ء تا1988ء) میں آپ کو سوائے تعطل (Stalemate) کے کچھ حاصل نہ ہوا تو یہ سن کر کیانی صاحب کا چہرہ اتر گیا…… دریں اثناء راولپنڈی کی مال روڈ پر جب گاڑی نے پرل کانٹینٹل کا گیٹ عبور کیا تو معلوم ہوا کہ ہم واپس پہنچ چکے ہیں۔شام فارغ تھی!
(باقی آئندہ)