رویہ اور برتاؤ کیسا ہونا چاہیے؟
مولانا حافظ زبیر حسن
”حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم دوسروں کی دیکھا دیکھی کام کرنے والے نہ بنو کہ کہنے لگو اگر لوگ احسان کریں گے تو ہم بھی احسان کریں گے اور اگر دوسرے ظلم کا رویہ اختیار کریں گے تو ہم بھی ویسا ہی کریں گے بلکہ اپنے دلوں کو اس پر پکا کرو کہ اگر اور لوگ احسان کریں تب بھی تم احسان کرو اور اگر لوگ برا سلوک کریں تب بھی تم ظلم اور برائی کا رویہ اختیار نہ کرو۔ (بلکہ احسان ہی کرو)“ (ترمذی)
ارشاد باری تعالی ہے:
ترجمہ:-”جو لوگ اپنا مال اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں۔ پھر خرچ کرنے کے بعد نہ احسان جتاتے ہیں اور نہ اذیت پہنچاتے ہیں ان لوگوں کو ان کے اعمال کا ثواب ان کے پروردگار کے پاس ملے گا اور قیامت کے دن ان کو نہ کوئی خطرہ ہو گا اور نہ غمگین ہوں گے۔ بھلائی کی اور مناسب بات کہہ دینا اور درگزر کر دینا بہتر ہے اس صدقہ و خیرات سے جس کے بعد اذیت پہنچائی جائے۔ اور اللہ بے نیاز اور نہایت تحمل والا ہے۔“
ان آیات میں اللہ رب العزت نے انفاق فی سبیل اللہ کے آداب سکھائے ہیں۔انفاق فی سبیل اللہ کا مطلب ہے اللہ کی راہ میں خرچ کرنا۔ ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ بے نیاز ہے اسے ذاتی طور پر ہمارے صدقہ و خیرات کی ضرورت نہیں ہم جو کچھ خرچ کرتے ہیں اس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے بتایا کہ وہ بھی تم اپنے لیے ہی خرچ کرتے ہو۔
(وما تنفقوا من خیر فلانفسکم) (البقرہ آیت ۲۷۲)
اس لیے انفاق فی سبیل اللہ کا مطلب یہ ہے کہ انسان اپنا مال اللہ پاک کے بتائے ہوئے طریقوں کے مطابق خرچ کرے۔ وہ طریقے اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں بتائے ہیں۔ اپنی ذات پر خرچ کرنا‘ بیوی بچوں کے لیے‘ والدین کے لیے‘ عزیز و اقربا کے لیے‘ ہمسایوں کے لیے‘ دوسرے محتاج لوگوں کے لیے بیوہ، یتیم، قرض دار، مسافر اور مجاہدین کے لیے اور دین کا کام کرنے والوں کے لیے اور انسانی فلاح و بہبود کا کام کرنے کے لیے۔ غرض یہ کہ زندگی کے بہت سے پہلو ہیں جن میں اللہ تعالیٰ نے انسان کو خرچ کرنے کی تلقین فرمائی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں خرچ کرنے کے آداب بھی سکھائے اور خرچ کرنے کے بعد کے آداب بھی سکھائے۔
خرچ کرنے کے لیے پہلا ادب تو یہ سکھایا کہ اخلاص کے ساتھ خرچ کیا جائے یعنی صرف اور صرف اللہ کی رضا حاصل کرنے کے لیے خرچ کیا جائے۔ اس خرچ کرنے میں دکھاوا اور ریاکاری، نمود و نمائش نہ ہو ورنہ اخلاص نہیں رہے گا۔
اور ان آیات میں یہ ادب سکھایا کہ جس شخص کو اللہ کے لیے کچھ صدقہ و خیرات دی جائے اس پر نہ تو احسان جتایا جائے اور نہ اس کی کسی طرح دل آزاری کی جائے۔
بسا اوقات انسان کسی کی مالی مدد کرتا ہے تو پھر اس کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ شخص زندگی بھر اس کا احسان مند رہے۔ اور جب کبھی اس احسان مندی کے خلاف اس شخص کا کوئی عمل دیکھتے ہیں تو فوراً کہہ دیتے ہیں دیکھو میں نے فلاں وقت میں اس کی مدد کی تھی، اس کی یہ حالت تھی میں مدد کر کے اس کو آج اس حالت میں لایا ہوں لیکن یہ میرا کوئی کام نہیں کرتا یا میر اکہنا نہیں مانتا۔ پھر ایسا انسان دل آزاری اور طعنوں پر اتر آتا ہے۔ اور خاندان میں عزیز و اقارب میں یا دوست احباب میں اسے ذلت و رسوائی کے الفاظ سے یاد کرنے لگتا ہے۔ یہ کیفیات خرچ کرنے والے انسان میں جب آنے لگیں تو پھر اللہ تعالیٰ کا یہ حکم سامنے آتا ہے:
’اے ایمان والو! تم اپنے صدقات کو احسان جتلا کر اور اذیت پہنچا کر ضائع نہ کرو۔“
اس لیے کہ اللہ کی راہ میں خرچ کرنے پر ثواب اس شرط پر ملتا ہے کہ انسان اللہ کی راہ میں خرچ کر دے اور پھر اس کے بعد نہ احسان جتلائے اور نہ تکلیف پہنچائے۔ معاشرہ میں بسا اوقات اس معاملے میں الجھاؤ پیدا ہو جاتا ہے کہ جی ہم نے اپنے فلاں عزیز اور دوست کے ساتھ فلاں وقت میں اتنا اچھا سلوک کیا اور اس کی مالی مدد کی لیکن آج تک اس سے ہمیں کبھی کوئی فیض نہیں پہنچا لہٰذا معاشرے میں بسا اوقات یہ رواج بن جاتا ہے کہ انسان یہ دیکھتا ہے کہ کون سا رشتہ دار ہم سے میل جول رکھتا ہے اور کون سا شخص ہمارے کس کام آسکتا ہے بس اس کی مدد کرتے ہیں۔ یہ رویہ بھی اخلاص کے خلاف ہے۔ ایک مرتبہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم صحابہؓ کو یہی باتیں سکھا رہے تھے تو ایک صحابیؓ نے عرض کیا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کچھ دوست و احباب اور عزیز و اقارب ہمارے ساتھ اچھا سلوک نہیں کرتے کیا ہم پھر بھی ان کے ساتھ اچھا سلوک کریں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم لوگ خود غرض نہ بنو کہ اگر تمہارے ساتھ کوئی اچھا سلوک کرے تو تم بھی اس کے ساتھ اچھا سلوک کرو گے ورنہ نہیں پھر فرمایا احسان یہ نہیں کہ لوگ تمہارے ساتھ اچھا سلوک کریں تو تم بھی ان کے ساتھ اچھا سلوک کرو۔ یہ تو مکافات ہے بدلہ چکانا ہے‘ احسان تو یہ ہے کہ کوئی تمہارے ساتھ برا سلوک کرے لیکن تم اس کے ساتھ اچھا سلوک کرو۔
اس لیے دوسرے کے ردعمل کو دیکھ کر اللہ کی راہ میں خرچ کرنے سے ہاتھ نہیں روکنا چاہیے۔ اس طرح عموماً مالدار لوگوں کے اندر احسان برتری بڑھتا ہے دوسری طرف سائل کا لہجہ اپنی ضرورت کی وجہ سے نارمل نہیں ہوتا تو دینے والا غصہ میں بھڑک اٹھتا ہے اور نامناسب بات کہہ دیتا ہے۔
فرمایا ایک بھلی بات ایک میٹھا بول اور کسی ناگوار بات پر ذرا سی چشم پوشی اس میراث سے بہتر ہے جس کے بعد دکھ پہنچایا جائے۔
اللہ رب العزت ہم سب کو محتاجی سے محفوظ رکھے اور اگر اللہ تعالیٰ مال و دولت عطا فرمائے تو اس کو راہ خدا میں مکمل آداب کے ساتھ خرچ کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
٭٭٭