کرتارپور سے تھوڑا آگے بھی دیا جلادیں ....!!!
سکھ دھرم کے بانی بابا گورو نانک کی بستی کرتار پور سےشکرگڑھ کی طرف جاتےہوئےصرف ساڑھے3کلو میٹر کےفاصلے پر سیدھے ہاتھ منڈی خیل نامی سٹاپ ہے....یہاں سے صرف 1500میٹر کی مسافت پر کوٹلی بارے خان کا قبرستان ہے....اس چھوٹے سے "شہر خموشاں "میں ختم نبوتﷺ کے ایک فقیر جناب مولانا محمد حیاتؒ آسودہ خاک ہیں...اپنے وقت کے اتنے بڑے مبلغ کہ اکابرین نے انہیں "فاتح قادیان "کا خطاب دیا....لیکن ہماری بے حسی دیکھئیے کہ12جولائی کو اس اللہ والے کی 40ویں برسی بھی خاموشی سے گذر گئی مگر پاکستان کی ایک بڑی تحصیل شکرگڑھ کے" دنیا داروں "کو تو چھوڑیں... بڑے بڑے" دیندار "بھی گہری نیند سوتے رہ گئے...........افسوس صد افسوس!!!!
کوئی آٹھ نو سال پہلے کی بات ہے کہ شکرگڑھ کی جامعہ رشیدیہ میں رات ختم نبوتﷺ کانفرنس کے بعد بادل خوب گرجے برسے.....صبح بارش مزید تیز ہوگئی لیکن اس وقت کویت اور اب مدینہ منورہ میں مقیم عالمی اسلامی سکالر اور انٹر نیشنل ختم نبوت ﷺموومنٹ کے مرکزی سیکرٹری جنرل ڈاکٹر احمد علی سراج مصر تھے کہ کچھ بھی ہو اس دھرتی پر ابدی نیند سوئے اس مرد درویش کے مرقد پر حاضری ضروری ہے ...میں نے اپنے صحافی دوست جناب یاسین چودھری سے گذاراش کی ہمیں مولانا حیاتؒ کی قبر پر لے جائیں.....انہوں نے اپنی گاڑی آگے لگائی اور ہمارے "گائیڈ" بن گئے....آدھے گھنٹے میں ہم منڈی خیل سٹاپ پہنچ گئے.....
موسلا دھار بارش اور کچا راستہ ...ہمیں قبرستان کے بجائے سڑک کنارے کھڑے ہو کر ہی دعا کرنا پڑی...ایک دن پہلے لاہور سےشکرگڑھ جاتے ہوئے بھی ڈاکٹر صاحب نے مولانا حیاتؒ کی ختم نبوتﷺ کے لئے خدمات پر اُنہیں خوب خراج عقیدت پیش کیا تو عقیدت بڑھ گئی ...سچی بات ہے میرا بھی اُن سے یہ پہلا تعارف تھا...ندامت بھی ہوئی کہ اس سرزمین پر اتنے سال گذار دیے.... اتنا بڑا بندہ ادھر سو رہا ہے اور ہمیں خبر ہی نہیں ......شکرگڑھ آتے جاتے ایک دفعہ پھر اُن کی قبر پر حاضری کا موقع ملا تو میں نے وہاں سے ہی مرشد مولانا عبدالحفیظ مکیؒ کو مکہ مکرمہ فون کر کے دعا کرائی اور دعائیں لیں .. . ....
پچھلے دنوں شکرگڑھ کے جنیوئن عالم دین اور مولانا حیاتؒ کے شاگرد مولانا عبدالرحیمؒ کے صاحبزادے مولانا متین نے نبوت کے جھوٹے مدعی بارے چند سطور سوشل میڈیا پر شئیر کیں تو میں نے جان کی امان پاتے ہوئے "کمنٹس" میں لکھا کہ اس "ناقابل ذکر "کا تذکرہ کرنے سے بہتر تھاکہ اپنی دھرتی پر آرام فرما ناقابل فراموش مولانا حیاتؒ کی حیات پر کچھ لکھتے تو یہاں کے بے خبر لوگوں کو خبر بھی ہوجاتی کہ کیسا گوہر نایاب ان کے پاس پڑا ہے اور وہ ادھر ادھر "ٹامک ٹوئیاں" مارہے ہیں؟؟؟پھر میں نے منڈی خیل کے قریبی قصبے منظور پورہ پلاٹ میں اپنے دوست جناب اعجاز خان کو فون کیا ....ہم کافی دیر مولانا حیاتؒ بارے محبت بھری باتیں کرتے رہے .......چہرے پر داڑھی سجائے....ہنستے مسکراتے اعجاز خان بھی حضرت کے عقیدت مندوں میں سے ہیں......انہوں نے مجھے کافی معلومات دیں.......
انٹرنیشنل ختم نبوتﷺ کے نائب امیر بزرگوارم جناب افتخار اللہ شاکر کے اسلامیات میں ایم فل فرزند ارجمند جناب امداد اللہ طیب کا شکریہ بھی کہ انہوں نے بھی ہمیں مولانا حیاتؒ سے متعلق خوب صورت معلومات بھیجیں........ شاکر صاحب بھی برسوں سے اپنے چھوٹے سے گائوں اونچہ کلاں میں ختم نبوتﷺ کا چراغ جلائے ہوئے ہیں جس کی روشنی سے اب کئی شہر روشن ہو رہے ہیں...شاکر صاحب نے بھی بتایا کہ ایک دفعہ مولانا چنیوٹیؒ مجھے اپنے استادگرامی کی قبر پر لے گئے اور اپنی جیب سے کچھ پیسے دیے کہ مولانا حیاتؒ کے نام کی تختی بناؤ..... میں نے چاردیواری کرائی اور ان کا اسم گرامی بھی لکھوایا....انہوں نے بتایا کہ جماعت کے موجودہ امیر ڈاکٹر سعید عنایت اللہ نے بھی دورہ پاکستان کے دوران میرے ساتھ قبر پر حاضری دی.......
مولانا حیاتؒ کون تھے؟؟؟؟شاہین ختم نبوت مولانا اللہ وسایا نے اپنی کتاب "چمنستان ختم نبوت کے گل ہائے رنگا رنگ"میں بڑا خوب صورت تعارف کرایا ہے جس کی تلخیص پیش خدمت ہے: مولانا حیات رح علامہ انور شاہ کشمیریؒ کے شاگرد رشید مولانا محمد چراغؒ کے شاگرد ..... مولانا منظور چنیوٹیؒ....مولانا یوسف لدھیانویؒ سمیت ہزاروں علما کے استاد ....عالمی مجلس ختم نبوتﷺ کے بانی رکن اور پہلے مبلغ تھے.....سید عطااللہ شاہ بخاریؒ کے خط پر ملتان پہنچے اور مدینتہ الاولیا میں بسیرا کرلیا....پھر چناب نگر جا بیٹھے.....کئی بار جیل گئے....1953کی تحریک ختم نبوتﷺ میں بہت سے کارہائے نمایاں اور گراں قدر خدمات ہیں جس کا تذکرہ جسٹس منیر انکوائری رپورٹ میں ملتا ہے......عالم اسلام کے ممتاز سکالر جناب ابوالحسن علی ندویؒ نے قادیانیت نامی شہرہ آفاق کتاب لکھی جس میں تمام حوالہ جات مولانا حیاتؒ کے فراہم کردہ ہیں.. . . .انہوں نے کتاب کے عربی ایڈیشن میں مولانا حیات کو چلتا پھرتا کتب خانہ قرار دیا ہے.........کتابوں کے رسیا تھے . ...کتاب سرہانے ہوتی...بڑھاپے میں بھی 100 سے زیادہ صفحات پڑھتے.....مولانا محمد علی جالندھریؒ سے اختلاف بھی کرتے اور پیار بھی بہت تھا.....ان کی وفات دھاڑیں مار مار کر روئے.....
مجلس احرار اسلام کے محقق ترجمان جناب ڈاکٹر عمر فاروق احرار نے رہنمائی فرمائی کہ 1934 میں مجلس احرار اسلام نے قادیان میں فاتحانہ قدم رکھا اور وہاں احرار کا دفتر ،مسجد اور مدرسہ قائم کیا اور مولانا عنایت اللہ چشتی رحمہ اللہ کو اپنے پہلے مبلغ کی حیثیت سے قادیان میں تعینات کیا۔ جب تحفظ ختم نبوتﷺ کے کام کا پھیلاؤ ہوا تو مزید رجال کار کی ضرورت محسوس ہوئی تو اکابر احرار نے نوجوان عالم دین مولانا محمد حیاتؒ کو 1935 میں قادیان بھیج دیا۔جہاں انہوں نے 1947 تک پہرہ دیا ۔مولانا یوسف لدھیانویؒ نے بھی اپنے" تعزیت نامہ"میں کچھ ایسی باتیں لکھیں:
مولانا حیاتؒ امیر شریعت سید عطا اللہ شاہ بخاریؒ کے قافلہ حریت کے رکن رکین تھے... سارقین نبوت کیخلاف مجلس احرار کے شعبہ تبلیغ کے نگران جبکہ مشن قادیان کے انچارج تھے....قیام پاکستان کے بعد مجلس تحفظ ختم نبوتﷺ بنی تو زندگی اسی جماعت کے لئے وقف کردی......اب اپنے تئیں" روشن خیال" دوستوں کی "تشفی "کے لئے چند سطور کہ کہیں "کرتار پور سے کچھ آگے"کی بات کرنے پر ہمیں" انتہا پسند "ہی قرار نہ دے دیں.....تو پھر تھوڑا پیچھے چلتے ہیں ....یہ ڈاکٹر سراج کے ساتھ اسی سفر کی بات ہے ...تب کرتار پور راہداری کسی کے حاشیہ خیال میں بھی نہیں تھی.....نارووال میں دوپہر کا کھانا کھاتے ہوئے میں نے ڈاکٹر صاحب سے کہا کہ آپ عالمی سکالر اور بین المذاہب مکالمے کے حامی ہیں تو کیوں نا جاتے جاتے بابا گورونانک کی جائے وفات سے ہوتے جائیں کہ بابا جی بھی ایک اللہ کی بات کرتے تھے.....میں نے ادھر ہی نارووال کے معتبر اخبار نویس بزرگوارم جناب سعید الحق ملک صاحب کو فون کیا کہ وہاں کسی کو کہہ دیں.......انہوں نے تھوڑی دیر بعد کال کر کے کہا کہ آپ جائیں آپ کا انتظار ہو رہا ہے...... وہاں پہنچے تو سکھ میزبان نے ہمارا پرتپاک استقبال کیا اور ہمیں پھل،چائے اور بسکٹ پیش کئے.....گوردوارہ کاوزٹ کرایا......میں نے میزبان سے کہا کہ اتنی بڑی سکھ کمیونٹی ہونے کے باوجود یہاں کی ویرانی دیکھ کر دکھ ہوا....انہوں نے آہ بھری اور بولے کہ بات تو سچ ہے .....ڈاکٹر صاحب نے بابا جی کے فلسفہ توحید کی تعریف کی اور اپنے مخصوص مٹھاس بھرے لہجے میں اسلام کی بات بھی کردی. . . . ..اسے ہی انٹر فیتھ ڈائیلاگ کہتے ہیں......
خیر بات ہورہی تھی مولانا حیاتؒ کی........ختم نبوتﷺ کے یہ پہریدار بیمار ہونے پر چناب نگر سے لاہور اور پھر شکرگڑھ میں اپنے آبائی گاؤں پہنچے....مختصر علالت کے بعد کم و بیش سو سال کی عمرمیں 12جولائی 1980کو دار فانی سے کوچ کر گئے . .......شکرگڑھ کے مدرسہ رحیمیہ کے مہتمم مولانا عبدالرحیم نے نماز جنازہ پڑھائی اور کوٹلی بارے خان کے قبرستان میں تدفین ہوئی.......
سوچتا ہوں کہ ہم بھی کیا عجب لوگ ہیں دو سال سے بابا نانک کے گورودوارہ کی چکا چوند سے چندھیائے ہوئے ہیں مگر چند کلو میٹر پر ابدی نیند سوئے اپنے پیارے رسول ﷺ کی ختم نبوت کے اتنے بڑے چوکیدار کی خبر ہی نہیں.......اسے بدنصیبی ہی کہا جا سکتا ہے..... اربوں روپے راہداری اور گورودوارہ پر لگانے پر کسی کو اعتراض نہیں کہ یہ سکھ برادری کا حق ہے کہ ان کے مقدس مقام کو عزت دی جائے مگر کاش ہمارے ارباب اختیار اسی علاقے میں اتنے بڑے اللہ کے ولی کے مرقد کے لئے بھی چند لاکھ مختص کر دیتے کہ اقتدار....عہدے اور منصب عارضی چیزیں ہیں....آج نہیں تو کل اللہ اور اللہ کے آخری رسول ﷺ کے سامنے بھی پیش ہونا ہے...دلچسپ امر ہے کہ یہ دینی پس منظر کے حامل رکن قومی اسمبلی جناب احسن اقبال کا حلقہ ہے کہ جن کی والدہ ماجدہ محترمہ آپا نثار فاطمہ ناموس رسالت ﷺ قانون کی روح رواں ہیں... .ان کے نیک نام صاحبزادے احمد اقبال بھی چئیرمین ضلع کونسل نارروال رہے..... احسن اقبال کے کزن لیگی ایم پی اے اور ہمارے دوست جناب رانا عبدالمنان بھی اسی حلقےسے دوسری مرتبہ منتخب ہوئے ہیں...ہوسکتا ہے کہ انہیں اس باباجی کا علم ہی نہ ہو ورنہ ان کے لئے قبرستان کو جانے والی ایک "پگڈنڈی" کی تعمیر تو کوئی مسئلہ نہیں...اتنے پیسے تو وہ اپنی جیب سے بھی خرچ کر سکتے ہیں.....
اسی علاقے سے متصل حلقے سے چوتھی مرتبہ رکن پنجاب اسمبلی منتخب ہونے والے ہمارے بزرگ دوست اور پنجاب اسمبلی میں ختم نبوتﷺ محاذ پر مولانا منظور چنیوٹیؒ اور اب ان کے صاحبزادے الیاس چنیوٹی کے ساتھی جناب مولانا غیاث الدین سے تو شکوہ بنتا ہے کہ وہ" ایم پی اے شپ" کے "بکھیڑوں" میں ایسے الجھ گئے کہ انہیں بھی ختم نبوتﷺ کے اس پہریدار کی خبر نہ ہوئی حالانکہ وہ تو پیروں فقیروں سے محبت کرنے والے آدمی ہیں.........میں نے اپنی گنہگار آنکھو ں سے دیکھا کہ بزرگوں کی باتیں سن کر ان کی آنکھیں چھلک پڑتی ہیں....چلتے چلتے ایک بات آن ریکارڈ عرض کرنا چایتا ہوں کہ میں نے سات سال میں عزت مآب مولانا غیاث الدین کو ایک بھی ذاتی کام نہیں کہا........ان سے گذارش ہے کہ جناب نے اپنے حلقے پر تو اربوں کے فنڈز لگا دیے...... دو چار لاکھ اس اللہ والے لئے بھی مانگ لیں.......صرف اور صرف 1500فٹ راستے اور ماڈل قبرستان کا مسئلہ ہے.....
وفاقی وزیر مذہبی امور جناب نورالحق قادری تک تو ہماری آواز شاید نہ پہنچ سکے کہ پیر صاحب شہر اقتدار کے باسی ہیں.....یاد آیا کہ پنجاب کے وزیر اوقاف سید سعید الحسن شاہ کا تعلق بھی ضلع نارووال سے ہے....پیر صاحب بارگاہ نبوی ﷺ میں اس خوب صورت انداز میں گلہائے عقیدت پیش کرتےہیں کہ مدینہ یاد آجاتا ہے...شاہ جی! کوٹلی بارے خان کے قبرستان میں سوئے یہ بابا جی بھی ساری زندگی تاجدار مدینہﷺ کی ختم نبوت کا پرچم لہراتے اور نغمے گنگناتے رہے......آپ ہی ان کی درگاہ پر دیا جلادیں......... !!!!
پس تحریر:مولانا حیاتؒ کی نایاب تصویر فراہم کرنے پر مجلس احرار اسلام پاکستان کے ترجمان جناب ڈاکٹر عمر فاروق احرار کا شکریہ۔
نوٹ:یہ بلاگر کا ذاتی نقطعہ نظر ہے،ادارے کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔