راستہ
جو حالت بجلی کے معاملے میں عوام کی کر دی گئی ہے لگتا ہے اب اس سے آگے کا عالم کچھ یوں ہو گا کہ بجلی کے میٹر پر چلتے ہوئے یونٹ کے ہندسے جب مختلف مخصوص ہندسوں تک پہنچیں گے تو ان ہندسوں کی دفعات بنا کر لگا دی جائیں گی مثال کے طور پر 506 جس میٹر کے چلتے ہوئے یونٹ کے آخر پر آ گیا اس پر 506 کا مقدمہ درج کر دیا جائے گا۔
کسی میٹر پر 452 کے ہندسے آ گئے تو اس پر یہ دفعہ لگا دی جائے گی مختلف ہندسوں کے ساتھ جو دفعات منسوب ہوں گی وہ لگا دی جائیں گی، لیکن اس میں آپ کو کچھ فکر کی ضرورت نہیں کہ حکومت نے ان دفعات سے بچنے کے لئے ایک راستہ کھلا رکھا ہوگا اور وہ راستہ یہ ہو گا کہ جس کے میٹر پر بھی قانونی دفعات سے ملتے ہندسے آگئے ان پر وہ دفعہ لگ جائے گی یا پھر ان دفعات سے بچنے کے لیے ان ہندسوں کے مطابق اتنے ہزار کا جرمانہ اپنے بلوں کے ساتھ ادا کرنا ہو گا جرم صرف اتنا ہو گا کہ آپ کے میٹر پر وہ ہندسے آئے کیوں۔ان جرمانوں کی ادائیگی سے بچنے کی ایک صورت ہو گی بصورت دیگر آپ کو مقدمات کا سامنا کرنا پڑے گا اور یہ عمل بعید القیاس بھی نہیں کہ جتنے غیر ضروری اور غیر متعلقہ ٹیکس بلوں میں شامل کر دئیے گئے ہیں تو یہ بات باطل بھی نہ ہو گی بجلی کے یونٹس کی قیمت میں جو اضافے کر دیئے گئے ہیں ان اضافوں پہ یقینا دنیا میں بسنے والے دیگر خطوں کے لوگ حیران تو ہوتے ہوں گے جہاں تک پاکستانیوں کا تعلق ہے تو پاکستانی اپنے جسم اور روح پر حکمرانوں کی طرف سے ڈھائے جانے والے مظالم سہہ سہہ کر جاں بلب ہیں عوام حکمرانوں کے ہاتھوں جتنا لٹ چکے ہیں اب ان پر چند ایک اور ظلم کیجیے تو یہ بے جان ہو جائیں گے اب تو اپنے ہی گھروں میں جانے والے افراد گھروں کے باہر کی دیواروں پر لگے ہوئے بجلی کے میٹر کے سامنے سے گزرتے ہوئے بھی ڈرتے ہیں کہ کہیں بجلی کے میٹر ان افراد کی تصویریں کھینچ کر ان سے ان کے پیسے وصول کرنا شروع نہ کر دیں اور اس خدشے کے پیش نظر شہریوں نے اپنے گھروں کو جانے کے متبادل راستے اختیار کرنا شروع کر دئیے ہیں بچپن میں پچھلے زمانوں کی کہانیاں سنتے تھے کہ فلاں گاؤں کو جانے والے کچے راستے کے بیچ کہیں کوئی کالا ناگ بیٹھتا ہے تو لوگ اس راستے سے جانے سے گریز کرتے کہانیوں میں لوگ سنتے کہ فلاں گاؤں کے راستے میں پڑنے والے جنگل یا ندی میں بھوتوں اور چڑیلوں کا بسیراہے تو لوگ ان جنگلوں۔ندیوں کی طرف سے نہ جاتے اور متبادل راستوں پر چلتے یہ کہانیاں اگرچہ کہانیاں ہی ہوتی تھیں یا کہیں ان میں کچھ حقیقت بھی ہو گی، لیکن آج ترقی کے اس دور میں بجلی کے میٹرز نے انسانوں کا وہ حال کر دیا ہے کہ لوگ اب اپنے ہی گھروں کی دیواروں پر لگے میٹرز کی طرف دیکھنا بھی گوارا نہیں کرتے یا وہاں سے گزرنا بھی پسند نہیں کرتے۔بجلی کا بل آجانے پر لوگ اسے دیکھنے سے پہلے آنکھیں بند کئے کئی کئی دعائیں مانگ کر ٓاہستہ آہستہ آنکھیں کھول کر اسے دیکھتے ہیں اور بجلی کے بلوں پر مرقوم قیمت دیکھ کر عوام کی جو حالت ہوتی ہے کاش اس کیفیت سے کوئی لمحہ حکمران بھی گزرے ہوتے کہ اپنی حیثیت سے زائد بوجھ کیسے اٹھایا جاتا ہے لوگوں نے تو بجلی کا استعمال اس قدر کم کر دیا ہے کہ وہ بجلی کے نام سے بھی گھبرانے لگے ہیں،بجلی کے بل اب ایک مخالف فریق کی طرف سے آنے والا لیگل نوٹس لگتا ہے ایسا لیگل نوٹس کہ جس کا اگر جواب نہ دیا تو قانونی کارروائی کا اندیشہ ہو گا حکومت وقت کی طرف سے اپنے عوام کو دیئے گئے ایک نوٹس کی طرح بجلی کے بل خوف کی علامت بن چکے ہیں کہ اگر اس نوٹس کا جواب نہ دیا گیا تو آپ پر قانونی کاروائی بھی ہو سکتی ہے اور وہ قانونی کاروائی بل کی ادائیگی کے علاوہ ہوگی بل کی ادائیگی تو اپنی جگہ موجود ہے ایک رکشہ والے نے اپنے رکشہ پر برائے فروخت کا پوسٹر آویزاں کر رکھا تھا دریافت کرنے پر معلوم ہوا کہ بجلی کے بلوں پر لیا ہوا قرض لوٹانا ہے بچوں کی روٹی کے لیے تو وہ مزدوری کے دوسرے طریقوں کو بھی اپنا سکتا ہے، لیکن قرض لوٹانے کے لیے قسطوں پر لیے ہوئے رکشہ کو بیچنا ضروری ہو گیا ہے جب عوام کی حالت ایسی ہو جائے کہ وہ اپنی چیزوں کو بیچ کر بجلی کے بل ادا کریں گے تو حکمرانوں کے لیے یہ سوچنے کی بات تو ہے ،حکمران بھی آخر کس لئے بلند و بانگ دعوے کرتے ہیں انتخاب کے ایام میں دو حکمران جماعتوں نے تو دو سے 300 فری یونٹ بجلی دینے کی بات کی تھی بجلی کے بلوں میں بے حد تخفیف کا کہا تھا اور منتخب ہوتے ہی وہ اپنے ہی وعدوں اور باتوں سے پھر جاتے ہیں حکمرانوں کی یہ ادا سمجھ سے باہر ہے ایک بات تو سمجھ میں آتی ہے کہ حکمران اقتدار کے لیے ہر حربہ اختیار کرتے ہیں، لیکن اقتدار حاصل کیوں کرتے ہیں اس سوال کا جواب نہ حکمران دے سکتے ہیں نہ عام آدمی اس پہیلی کو بوجھ پاتا ہے بات تو سیدھی ہے کہ اقتدار کرپشن اور لوٹ مار کا ایک آسان ذریعہ ہے (اگرچہ تمام سیاستدان ایسے نہیں)تو کرپشن اور لوٹ مار کے ساتھ حکمرانوں نے عوام کو بھی شامل کر لیا ہے کہ عوام کے گھروں کو لوٹیئے، عوام کو گریبانوں سے پکڑ کر عوام سے پیسے نکلوائیے، بجلی کے بل جب آتے ہیں تو یہ عوام کو گریبانوں سے پکڑنا ہی تو ہے، جب بجلی کے بل آتے ہیں تو عوام کو اپنے گھر کی چیزیں بیچ کر قرض لے کر یا کسی بھی طرح سے اسے ادا تو کرنا پڑتا ہے اور جب کسی کے ہاتھ گریبانوں تک پہنچ جائیں تو اس کا مطلب ہے وہ آپ کی عزتوں کا پاسدار نہیں وہ آپ کا نگہبان نہیں آپ کا محافظ نہیں عوام تو ووٹ کی دولت سے حکمرانوں کو اپنا نگہبان مقرر کرتے ہیں اور ایک نیک دِل حکمران پر یہ فرض ہوتا ہے کہ وہ اپنی رعایا کا خیال رکھے، اس کے کاروبار اس کے جان مال کا تحفظ کرے، اسے انصاف فراہم کرے، آسانیاں پیدا کرے اور اس کی ضروریات زندگی کا خیال رکھے تاکہ معاشرہ امن کا گہوارہ ہو وگرنہ معاشرے میں بدامنی افراتفری پھیلتی ہے جیسے کہ آج ہمارا معاشرہ منتشر ہے، ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے ایسے معاشرے کی خوشحالی کی بات کرنی کتنی مضحکہ خیز معلوم ہوتی ہے کہ ایک بجلی کے بلوں نے ہی عوام کی حالت ایسی کردی ہے اس پر پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں بھی اضافہ کردیا گیا تو پھر عوام کے لئے کون سا راستہ بچتا ہے اس کا جواب حکمران ہی دے دیں۔