بنگلہ دیش میں سیاسی انتقام اور اہل حق کا امتحان

بنگلہ دیش میں سیاسی انتقام اور اہل حق کا امتحان
بنگلہ دیش میں سیاسی انتقام اور اہل حق کا امتحان

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


بنگلہ دیش میں حسینہ واجد کی بھارت نواز عوامی لیگ کی حکومت نے2009ءمیں جماعت اسلامی بنگلہ دیش کے سابق امیر، بزرگ رہنما پروفیسر غلام اعظم، موجودہ امیر جناب مطیع الرحمان نظامی اور دیگر مرکزی رہنماو¿ں، مولانادلاور حسین سعیدی،علی احسن محمد مجاہد،قمرالزمان اور عبدالقادر ملاّ کے خلاف جنگی جرائم کے جھوٹے مقدمات قائم کرکے، یکے بعد دیگرے انہیں حوالہءزنداں کر دیا۔نام نہاد ٹریبونل جو قائم کیا گیا ،عالمی اداروں،تنظیموں اور وکلاءوقانون دان طبقات نے اسے ایک ڈھونگ اور جنگی جرائم کے معیار سے بعید تر قرار دیا ہے۔ بنگلہ دیشی حکومت بھارت کی آشیر باد سے ان اسلام پسند سیاسی رہنماو¿ں اور سابق ارکان پارلیمان کو تختہ دار پر چڑھانے پر تلی بیٹھی ہے۔
مولانا دلاور حسین سعیدی کی عمر 72 سال ہے۔وہ شوگر کے مریض ہیں۔اس ناروا اور ظالمانہ نظر بندی کے دوران اکتوبر 2011ءکو ان کی والدہ کا انتقال ہوا۔ مولانا پیرول پر محض اپنی والدہ مرحومہ کے جنازے میں شرکت کر سکے اور وہیں سے واپس ،انہیں زنداں کی کال کوٹھڑی میں لے جایا گیا۔مولانا پر اس وقت فردِ جرم عائد کردی گئی ہے اور گزشتہ مہینے(23مئی) سے جنگی ٹریبونل نمبر1میں کارروائی کا ڈرامہ جاری ہے۔کتنی ستم ظریفی کی بات ہے کہ ایک پاک دل وپاک باز مسلمان،جامعہ بنوریہ کراچی کے فارغ التحصیل عالم دین اور دین حق کے بے لوث مبلّغ پر جھوٹے الزامات کے تحت قتل، آبروریزی، آتش زنی اور لوٹ مار کے مقدمات بنائے گئے ہیں۔میڈیا پر وہ افراد ،جن کے بطور گواہ، استغاثہ نے نام دئیے ہیں، کہہ چکے ہیں کہ انہوں نے سعیدی صاحب کو کوئی جرم کرتے نہیں دیکھا، مگر مدعی بھی نہایت ڈھٹائی سے الزامات کی تکرار کر رہے ہیں اور منصف بھی منہ میں گھنگھنیاں ڈالے مقدمے کی کارروائی چلارہے ہیں.... (تفصیلات کے لئے دیکھئے وکی پیڈیا عنوان دلاور حسین سعیدی)

مولانا سعیدی دو مرتبہ پارلیمان کے رکن منتخب ہوئے۔ وہ 1996ءسے لے کر2008ءتک بنگلہ دیش کی مجلس قانون ساز کے سب سے زیادہ متحرک اور بیدار مغز رکن کے طور پر معروف ہوئے۔مولانا کو 13جون 2012ءبروز بدھ کو ایک بہت بڑے صدمے سے دوچار ہونا پڑا۔ مولانا ٹریبونل میں پیش تھے اور ان کے خلاف استغاثہ کے گواہوں پر ان کے وکلاءجرح کر رہے تھے اور عدالت میں موجود ان کے تین بیٹے رفیق،مسعود اور نسیم بھی کارروائی سن رہے تھے کہ ان میں سے بڑے بیٹے رفیق بن سعید (عمر 43 سال) کو دل کا شدید دورہ پڑا۔ مولانا سعیدی کو بتائے بغیر ان کے بیٹے ،اپنے بھائی کو خاموشی سے ہسپتال لے گئے۔امراض قلب کے ہسپتال کے رجسٹرارڈاکٹر سید داو¿د محمد تیمور کے مطابق رفیق سعیدی کو عملہ ہسپتال نے ہر طرح سے ریلیف دینے کی کوشش کی، مگر دورہ اتنا شدید تھا کہ انسانی کاوشیں کار گر نہ ہو سکیںاور مریض اللہ کو پیارا ہوگیا۔مرحوم رفیق سعیدی جماعت اسلامی کے مرحوم رہنما خرم مراد کی بھانجی کے خاوند تھے۔ انہوں نے اپنے پیچھے تین بچے اور بیوہ چھوڑی ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے۔
مولانا دلاور سعیدی صاحب کے وکلاءنے تین رکنی ٹریبونل کے ارکان سے استدعا کی کہ وہ انہیں چند منٹ کے لئے اپنے چیمبر میں سن لیں ،مگر انہوں نے سختی سے یہ استدعا جھٹک دی۔جب وکیل دفاع میزان الاسلام اورتاج الاسلام نے باربار کہا کہ معاملہ نہایت سنگین اور نازک ہے تو ٹریبونل کے سربراہ نے ان کو چیمبر میں آنے کی اجازت دی۔وہ اس موقع پر مولانا دلاور سعیدی صاحب کو یہ اطلاع اچانک نہیں دینا چاہتے تھے ،کیونکہ ان کی شوگر ان دنوں بہت ہائی ہے اور وہ خود بھی عارضہ¿ قلب کے مریض ہیں۔ وکلا نے جب پیرول پر مولانا کی رہائی کی درخواست پیش کی تو وزارتِ داخلہ کی طرف سے جواب ملا کہ آج دفتری وقت ختم ہو چکا ہے،کل رابطہ کیجیے ۔ اس دوران مولانا کو شک گزرا کہ کچھ ناگہانی واقعہ ہو گیا ہے، مگر انہیں جیل بھیج دیا گیا اور فوری طور پر یہ اطلاع نہ دی گئی۔
مولانا سعیدی کے والد مولانا محمد یوسف سعیدی ایک بہت بڑے عالم دین تھے، جن کا تعلق دیوبندی مکتبِ فکر سے تھا۔ انہوں نے اپنے گاﺅں (ضلع باریسال) میں اپنا دینی مدرسہ قائم کیا تھا، جہاں سے ہزاروں طلباءفیض یاب ہوئے اور بنگلہ دیش اور بیرون ملک دینی تعلیمات میں گراں قدر خدمات سرانجام دیں۔ دلاور حسین سعیدی صاحب نے بھی اپنی تعلیم کا اسی مدرسے سے آغاز کیا۔ مدرسے میں دینی تعلیم کے ساتھ مروجہ جدید نصاب بھی پڑھایا جاتا تھا۔ 1962ء میں دلاور حسین سعیدی صاحب نے سر سینہ مدرسہ عالیہ سے سند فراغت حاصل کی۔ پھر کھلنا کے مدرسہ عالیہ میں بھی پڑھا اور آخر میں جامعہ بنوریہ کراچی سے دورہ¿ حدیث مکمل کیا۔ مولانا عربی، اردو، بنگالی کے علاوہ پنجابی زبان بھی بول سکتے ہیں۔ اسلام کے عظیم خطیب ہیں،جنہوں نے بنگلہ دیش سے باہر یورپ، امریکہ، کینیڈا، افریقہ، عرب ممالک اور مشرق بعید میں ہزاروں ایمان افروز لیکچر اور دروس دے کر لوگوں کے دلوں کو نور ایمانی سے منور کیا۔ ان کے دروس میں بلا مبالغہ لاکھوں لوگ کھلے میدانوں اور پارکوں میں شریک ہوتے تھے۔
دور طالبِ علمی میں کراچی میں قیام کے دوران مولانا دلاور سعیدی مولانا مودودیؒ کی فکر اور تحریروں سے متعارف ہوئے اور واپس جا کر جماعت میں شامل ہوگئے۔1996ءمیں پارلیمان میں اپنے ایک خطاب کے دوران مولانا نے اپنے علمی اور سیاسی سفر کا تذکرہ فرمایا تھا اور کہا تھا کہ وہ محض ایک سیاستدان نہیں، بلکہ ایک نظریاتی مسلمان ہیں، جس کے نزدیک پیمانہ¿ خیر و شر اسلام اور حرام و حلال کا معیار صرف اور صرف قرآن و سنت ہیں۔ انہوں نے کہا کہ 1973ءمیں وہ جماعت میں شامل ہوئے تو کشتیاں جلا دیں اور اس کے بعد کبھی مڑ کر پیچھے نہیں دیکھا۔ حسینہ واجد حکومت کی طرف سے ان پر قائم مقدمات اس دور کے ہیں، جب وہ عملی سیاست میں داخل بھی نہیں ہوئے تھے۔ بنگلہ دیش میں عوامی لیگ نے حسینہ واجد ہی کی قیادت میں حزب اختلاف میں رہتے ہوئے جنرل حسین محمد ارشاد اور پھر خالدہ ضیاءکی بی این پی حکومت کے خلاف جو احتجاجی تحریک چلائی تھی، اس میں جماعت اسلامی اور دیگر چھوٹی چھوٹی دینی و سیکولر جماعتوں کے ساتھ اتحاد کیا تھا۔ اگرچہ یہ اتحاد کبھی بھی انتخابی اتحاد میں نہیں ڈھلا، مگر وہ باقاعدہ سیاسی اور احتجاجی اتحاد تھا۔ بنگلہ دیش میں ہر آدمی یہ سوال کرتا ہے کہ اگر ان لوگوں نے قیام بنگلہ دیش سے قبل واقعی یہ جرائم کئے تھے تو اس زمانے میں ان سے عوامی لیگ کا اتحاد چہ معنی دارد؟ عوامی لیگ کے پاس ان جھوٹے مقدمات کے لئے کوئی اخلاقی و قانونی دلیل و جواز نہیں، مگر محض اندھی قوت کے بل بوتے پر وہ بنیادی انسانی حقوق کا گلا گھونٹنے پر تلی بیٹھی ہے۔
مولانا دلاور حسین سعیدی کے جواں سال بیٹے کی وفات کی اطلاع مولانا کو جیل میں بتدریج دے دی گئی اور ان سطور کے لکھتے وقت بنگلہ دیش میں روابط سے معلوم ہوا ہے کہ مولانا کو صرف بیٹے کے جنازے میں شرکت کی حد تک پیرول پر رہائی دی گئی ہے۔ بعد کی اطلاعات کے مطابق بنگلہ دیش کے مقامی وقت کے مطابق موتی جھیل گورنمنٹ ہائی سکول کی وسیع و عریض گراﺅنڈ میں جمعرات چودہ جون کو ساڑھے پانچ بجے شام ایک لاکھ سے زائد افراد نے مرحوم کی نماز جنازہ میں شرکت کی۔ مولانا پیرول پر رہا کئے گئے اور انہوں نے خود نماز جنازہ پڑھائی۔ مولانا خود مریض ہیں، گرمی کی شدت بھی تھی اور غم کا پہاڑ بھی۔ مولانا جوں ہی جنازے سے فارغ ہوئے، سرکاری کارندے انہیں جیل لے جانے کے لئے جیپ میں بٹھا کر روانہ ہوگئے۔ اسی دوران مولانا کو دل کا دورہ پڑا، انہیں ہسپتال لے جایا گیا، جہاں ان کا علاج ہو رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنے اس مجاہد بندے کو شفائے کاملہ وعاجلہ عطا فرمائے۔ مولانا کا حوصلہ اپنی مظلومیت، بیماری اور اس پہاڑ جیسے غم کے باوجود قابل داد ہے۔ اچانک ہارٹ اٹیک سے مولانا کے تمام عقیدت مند اور وابستگانِ جماعت سخت پریشان ہیں، مگر دعاﺅں کی ضرورت ہے۔ تمام معاملات اور فیصلے اللہ رب العزت کے ہاتھ میں ہیں۔ اللہ ان کے بیٹے کے درجات بلند فرمائے اورمولانا کو صبر و استقامت اور صحت و عافیت سے نوازے۔ ٭

مزید :

کالم -