تلاش ایک ملک صاحب کی!

تلاش ایک ملک صاحب کی!
تلاش ایک ملک صاحب کی!

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

”منکہ مسمی ایک اچھا بھلا کالم نگار اور اینکر پرسن کی صلاحیت رکھنے والا فنکار ہوں۔ خیر سے مجھے اس شعبے میں جھک مارتے 30 سال ہونے کو آئے ہیں۔ ایک سے بڑھ کر ایک قصیدائی قسم کے کالم لکھ سکتا ہوں۔ اضافی خوبی یہ ہے کہ شاعر بھی ہوں اور کالموں میں شاعری کا تڑکا بھی لگا دیتا ہوں۔ جہاں تک اینکر والی خوبیوں کا تعلق ہے تو اللہ بخشے میرے مرحوم استاد کو وہ کہا کرتے تھے کہ تم اگر ڈریکولا جیسے دانتوں والی کو مونا لیزا کہہ دو تو سبھی مان جائیں گے، کیونکہ تم جس انداز سے جھوٹ بولتے ہو، وہ سچ کو بھی پیچھے چھوڑ دیتا ہے۔ مَیں ذاتی طور پر لالچی آدمی نہیں ہوں۔ بس جو مل جائے شکر کرتا ہوں ،مگر جب سے اینکر پرسن اور صحافیوں کے حوالے سے شور شرابہ شروع ہوا ہے اور کروڑوں روپے کی باتیں ہو رہی ہیں، میری اللہ لوک قسم کی زوجہ محترمہ بھی پھولن دیوی بن گئی ہے۔ ہر روز مجھے چمٹا دکھا کے کہتی ہے....” تم کیوں 30 سال سے گنڈیریاں بیچ رہے ہو، تمہیں کوئی ملک کیوں نہیں ملا؟ کم از کم ایک دو پلاٹ ہی مل جاتے تو اس موئے کرائے کے مکان سے جان چھوٹ جاتی۔ تمہارے زبان ہلانے سے اگر ہماری زندگی سنور سکتی ہے تو اسے ہلاتے کیوں نہیں، میرے سامنے تو بہت چلاتے ہو“۔ اب مَیں اسے کیسے سمجھاﺅں کہ یہ کوئی آسان کام نہیں۔ ملک صاحب جیسا بندہ کوئی ایسے ہی نہیں مل جاتا، وہ بھی کچھ دیکھ کر ہی گرتا ہے۔ مَیں نے 30 سال ضرور گزارے ہیں اس دشت کی سیاحی میں ،مگر مجھ میں وہ صلاحیت نہیں،جو ملک جیسے لوگوں کو رام کر لیتی ہے۔ نہ ہی مَیں کسی چینل کا اینکر پرسن ہوں کہ اپنی چرب بیانی سے کوے کو سفید ثابت کر سکوں، لیکن اس کے باوجود بیگم صاحبہ کا اصرار ہے کہ اب مجھے کچھ کر ہی لینا چاہیے، ورنہ وہ میرا حقہ پانی بند کر دے گی۔
کچھ کرنے کے بارے میں اب سنجیدگی سے سوچ تو رہا ہوں، لیکن یہ دیکھ کر حیرت ہو رہی ہے کہ میرے سوچنے سے پہلے ہی میڈیا کے احتساب کی باتیں شروع ہو گئی ہیں، یہ باتیں کوئی اور نہیں خود میڈیا والے کر رہے ہیں۔ ہر کوئی اپنی صفائیاں دے رہا ہے، قسمیں کھا رہا ہے، دوسرے پر لعنت بھیج رہا ہے۔ مجھے تو یہ دیکھ کر سخت حیرت ہو رہی ہے.... او بھئی کیا ہوا اگر تھوڑی سی گرد اڑ ہی گئی ہے، اپنے پیٹی بھائیوں پر کیچڑ تو نہ اچھالو۔ غلطی انسان سے ہی ہوتی ہے۔ ہو گئی ہے تو اس پر پردہ ڈالو باہر تو نہ لاﺅ۔ اپنے ہی پیروں پر کلہاڑی تو نہ مارو، راستے تو نہ بند کرو، اور کچھ نہیں تو مجھ جیسے لوگوں کا ہی کچھ خیال کرو، جنہوں نے بہت دیر کے بعد اپنی زندگی میں بھی کچھ جھنکار پیدا کرنے کے بارے میں سوچا ہے۔ ہم سینئرز کا ہی بھرم رہنے دو، لیکن صاحب کہاں، ہر طرف ہا ہا کار مچی ہوئی ہے ۔پوری قوم بھی ہمارے ہی پیچھے لٹھ لے کر پڑ گئی ہے۔ دو چار اینکرز اور کالم نگاروں کی وجہ سے پورے میڈیا کو برف پر لٹا کر چھترول شروع کر دی گئی ہے۔ بڑی زیادتی ہے اور کچھ نہیں تو مجھ جیسے مسکینوں کا ہی کچھ خیال رکھا جائے۔
کل مَیں نے اپنے ایک قریبی دوست سے مشورہ مانگا کہ مجھے ان حالات میں کیا کرنا چاہیے؟ وہ میری باتیں سن کر بہت دیر تک ہنستا رہا۔ مَیں نے اسے بہت روکا، ٹوکا ،مگر اس کی ہنسی تھی کہ رکنے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی۔ بڑی مشکل سے جب بریک لگی تو کہنے لگا: ”بڑے میاں اب بہت دیر ہو چکی ہے، بہتر ہے، ایسے خواب دیکھنا چھوڑ دو“۔ سچی بات ہے اس کی یہ ہرزہ سرائی مجھے ایک آنکھ نہیں بھائی تھی۔ مَیں نے ذرا درشت لہجے میں کہا تم یہ کیسی بات کر رہے ہو؟ کہنے لگا: ”دیکھو ملک جیسے لوگ روز روز پیدا نہیں ہوتے، پھر وہ ہر روز اپنا گھوڑا نہیں بدلتے کہ تم خود کو سواری کے لئے پیش کر دو، ویسے بھی اب بہت کچھ ننگا ہو گیا ہے، اس لئے پہلے والے گھوڑے بھی منہ چھپاتے پھر رہے ہیں“۔ اس کی یہ باتیں میری سمجھ سے تو بالاتر تھیں۔ مَیں نے کہا کھل کر کہو کیا کہنا چاہتے ہو ،تاکہ مَیں اپنی زوجہ محترمہ کو بھی کچھ سمجھا سکوں۔ میری اس پُر لجاجت بات پر اسے کچھ رحم آگیا۔ ترحم بھری نظروں سے دیکھتے ہوئے کہنے لگا: ”تم نے شادی وقت پر کیسے کر لی تھی“؟.... اس کی اس بات پر مَیں سٹ پٹا گیا، اس کا کیا موقع اور کیا دستور تھا، مجھے کچھ سمجھ نہ آیا.... ”یہ تم کیوں پوچھ رہے ہو“؟.... اس کی آنکھوں پر ایک شرارت سی ابھری اور کہنے لگا: ”یہ مَیں اس لئے پوچھ رہا ہوں کہ منیر نیازی کی طرح تم بھی ہر بات میں دیر کر دیتے ہو، تمہیں اپنی دنیا بدلنے کا خیال اب آیا ہے، جب ملک کا زوال شروع ہو چکا ہے، اس ملک میں ملک صاحب جیسے کردار ہی لوگوں کی دنیا بدلتے ہیں، حکومتیں نہیں بدلتیں“۔ ”مَیں نے کہا بھائی یہ تم کیسے کہہ سکتے ہو“؟

”مَیں یہ ایسے کہہ سکتا ہوں کہ نومن تیل ہو گا، نہ رادھا ناچے گی“۔ اس کی اس بات پر میرا دل چاہا کہ اینٹ اٹھاﺅں اور اس کے سر پر دے ماروں۔ ہر بات کو الٹے سیدھے انداز میں پیش کر رہا تھا۔ وہ میری اضطراری حالت بھانپ گیا اور کہنے لگا: ”ناراض ہونے کی ضرورت نہیں۔ دیکھ کئی چیزیں ملتی ہیں، تو ایسی صورت حال پیدا ہوتی ہے کہ لوگوں کے دن پھر سکیں، مثلاً آج کل لوڈشیڈنگ کی وجہ سے یو پی ایس اور بیڑیاں بیچنے والوں کے دن پھرے ہوئے ہیں، اب جتنی تمہاری زندگی باقی رہ گئی ہے، اس میں تو مجھے لگتا نہیں کہ کوئی ایسی صورت حال پیدا ہو گی کہ تمہاری بھی ملک صاحب جیسا کوئی دوسرا ملک سن لے“۔ اس کی باتیں مایوس کن تھیں، مگرمَیں تہہ تک پہنچنا چاہتا تھا۔ ”صورت حال سے تمہاری کیا مراد ہے“؟

”مثلاً یہ کہ تمہاری زندگی میں تو کوئی دوسرا افتخار محمد چودھری پیدا ہو نہیں سکتا ،جب وہ پیدا نہیں ہو گا تو ملک صاحب جیسے لوگوں کو بھی کوئی تکلیف نہیں ہو گی۔ جب انہیں تکلیف نہیں ہو گی تو وہ اپنا امیج بہتر بنانے کے لئے پانی کی طرح پیسہ بھی نہیں بہائیں گے۔جب وہ پیسہ ہی خرچ نہیں کریں گے تو تمہاری دال کیسے گلے گی“؟ مجھے یوں لگا ،جیسے وہ میری صلاحیتوں سے حسد کرتا ہے، اور مجھے روکنے کے لئے یہ سارا ڈرامہ کر رہا ہے۔ مَیں نے کہا تم سمجھ رہے ہو اس ملک میں صرف ایک دو ایسے کردار ہیں جو لوگوں کی زندگی بدل دیتے ہیں، حالانکہ یہ ملک تو سونے کی وہ کان ہے کہ جس کی ہر اینٹ کے نیچے ایسے کردار موجود ہیں، جنہوں نے اس ملک کو لوٹا ہے اور اب کلف لگے کپڑے پہن کر خود کو شرفاءمیں شامل رکھے ہوئے ہیں، یہ لوگ ہر جگہ موجود ہیں، انصاف کے ایوانوں میں بھی اور اقتدار کے محلات میں بھی، جرنیلوں میں بھی اور سیاستدانوں میں بھی، بزنس کی بہتی گنگا میں بھی اور کالے دھن کے انڈر گراﺅنڈ مافیا میں بھی۔ کسی ایک واقعہ سے یہ لوگ کیسے ختم ہو سکتے ہیں۔ انہوں نے تو وطن عزیز کی سیاست، اقتدار، طاقت کے مراکز اور اداروں میں بہت گہرے پنجے گاڑھ رکھے ہیں۔ کیا مَیں اتنا ہی گیا گزرا ہوں کہ اتنی بڑی مافیائی برادری میں سے اپنے لئے ایک ملک نہ تلاش کر سکوں۔ مَیں تلاش کر کے رہوں گا اور اپنی فیملی کے حالات بدل کر رہوں گا، تم جلد ہی دیکھو گے کہ میرا نام بھی کہاں کہاں گونج رہا ہے۔

میری اس طویل بقراطی کا اثر یہ ہوا کہ وہ سر پیٹتا ہوا چلا گیا، لیکن ایک بات ثابت ہو گئی کہ میرے سامنے کوئی ٹھہر نہیں سکتا۔ بس اپنی اسی صلاحیت کی وجہ سے مجھے یقین ہے کہ مَیں اپنی زوجہ محترمہ کی توقعات اور خواہشات پر پورا اتروں گا اور آخری عمر ہی میں سہی، کسی ایک ملک صاحب سے یاری لگا کر اپنی قلم اور زبان کو اس کے ہاں گروی رکھ دوں گا اور اس کے بدلے میں وہ سب کچھ حاصل کر لوں گا، جس کی زوجہ محترمہ نے خواہش ظاہر کی ہے۔ ضمیر کی طاقت کو آزما کے توبس عزت کی دال روٹی ہی کمائی ہے، اب بے ضمیری کو اپنا کر زندگی میں کوئی بڑا کام بھی کر لینا چاہیے، سو مَیں اس مشن پر لگا ہوا ہوں، حالات کی گردش کا شکار کسی ملک صاحب کا مجھے شدت سے انتظار ہے، امید ہے جلد ہی کروڑوں روپے خرچ کر کے بلیک میلنگ کا شکار ہونے والا کوئی ملک مجھے بھی مل جائے گا اور پھر مَیں اسے معصوم اور فرشتہ ثابت کرنے میں ایڑی چوٹی کا زور لگا دوں گا۔ زوجہ محترمہ تو پچھلے کئی دنوں سے مصلے پر بیٹھی یہی دعا مانگ رہی ہیں، آپ بھی دعا کریں کہ کسی ارسلان کے ہاتھوں بلیک ہونے والے ارب پتی ملک صاحب میرے آنگن کو بھی رونق بخشیں پھر دیکھیں میری پھرتیاں“۔ ٭
 

مزید :

کالم -