شیرنی نے شیر کی ’کوکھ‘اجاڑ دی

شیرنی نے شیر کی ’کوکھ‘اجاڑ دی
شیرنی نے شیر کی ’کوکھ‘اجاڑ دی

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

گلوبل پِنڈ( محمد نواز طاہر )گمراہی مجھے بار بار پکڑلیتی ہے اور پھر ’پکڑ‘بھی ہوجاتی ہے ۔یہ شائد میرے ساتھ ہی نہیں ان گنت انسانوں کے ساتھ ہوتا ہوگا ۔ ان کے ساتھ بھی جو وقتی طور پر بہک جاتے ہیں یااس علت کے بعد معافی کا عذر رکھتے ہیں ۔
 چار دہائی پہلے جب کبڈی ، بانٹے ، اخروٹ اور پھر کرکٹ جیسے کھیلوں کی علت پڑی تو وقت ضائع ہونے پر ٹھکائی کے وقت ہمیشہ عذر پیش کیا کہ مجھے تو فلاں فلاںنے گمراہ کیا تھا۔ یہ عذر کبھی قبول نہ ہوا کہ جب آپ مسجد کی جانب گئے ہی نہیں کیسے مانا جائے کہ شیطان نے راستے میں روک لیا تھا اور شراب خانے میں دھکیل دیا تھا ؟کھیت ، کھلیان ،پگڈنڈیاں، بہتا ہوا گہرا کھلا پانی سب اپنے گناہوں اور سماجی پابندیوں سے بغاوت کا آئینہ دکھاتی تھیں ۔بڑے شہر کی بڑی باتیں اور پھر لاہور تو لاہور ہے ۔ اس کی گلیاں محلے، بازار، تھڑے ،چوراہے اور میدان تو ویسے ہی اپنی مثال رکھتے ہیں ، وقت کے ساتھ نہ سہی آگے پیچھے ہی سہی زراآگے بڑھے تو ایم آرڈی ۔۔سڑکیں ریاستی مشینری ۔ ۔۔۔ہر بار بغاوت کیلئے عذر موجود رہا ۔
عورت اور خوبصورت عورت کی طرف نظر اٹھنا فطری بات ہے ۔اسی فطری عذر کی بنا پر ایک غیر ملکی کمپنی کی بس کی ہوسٹس کی طرف دیکھا تو کچھ زیادہ ہی دیکھ لیا ۔ اس وقت بیوی والا تھا ، بیوی نے اس سے کہیں زیادہ مجھے دیکھا بلکہ گھوراجتنا میں نے ہوسٹس کی طرف نہیں دیکھا ہوگا ۔ معلوم نہیں کیوں وہ سب کچھ ’پی‘ گئی ۔میں بھی اس عورت کو کسی خاص نظر سے یعنی صحافتی علت کی وجہ سے دیکھ رہا تھا ۔ ایک دوست بھی مجھے تاڑ رہا تھا لیکن میں سب سے بے پرواہ تھا۔میرے اندرکچھ کچھ ہورہا تھا،کوئی کہانی بن رہی تھی ، ٹوٹ رہی تھی ۔ رہا نہ گیا اور میں نے دل و دماغ سے مجبور ہوکر اس سے پوچھ لیا تو اس نے صرف یہی جواب دیا ”نہیں کوئی بات نہیں کچھ تھکاوٹ ہے“۔جو مجھے’ تاڑ‘ رہے تھے وہ سمجھے’بات‘ ہوگئی ہے ۔لیکن ’لفٹ‘ نہیں ملی لیکن بار بار میری بات ماننے اور بچوں کا خیال رکھنے پر وہ تذبذب کا شکار ضرور تھے ۔
کچھ گھنٹوں بعد بیوی کی رنگت بدلی ہوئی ملی بڑا شفیق اور نورانی چہرہ زبان پر شیرینی ۔ ۔۔قریب تھا کہ اس حالت پر دورہ پڑ جاتا ، اس سے پہلے ہی بولی ۔ بڑے صحافی بنے پھرتے ہیں ۔۔ ۔میں ’کولڈ وار‘ کے اگلے زوردار حملے کی تیاری رہا تھا تو نرمی سے گویا ہوئی کہ اس بیچاری کو دیکھو ؟ جواب دیا بڑی مرتبہ ، بہت غور سے دیکھ چکا ہوں۔ تمہاری عمر کی نہیں البتہ خوبصورت کہیں زیادہ ہے، اچھی بھی اور محنتی بھی ۔خاتون نے خلافِ توقع برا نہ منایا تو لگا جیسے پہاڑ ٹوٹ گرے گا لیکن ایسا نہیں ہوا جواب ملا ۔ دیکھو اس کا حال بیچاری فیصل آباد سے لاہور وہاں سے پنڈی اب ہمارے ساتھ اسی گاڑی پر مری اور وہاں سے ایبٹ آباد جائے گی ۔تمام سفر میں ریسٹ نہیں ملے گی ۔ کتنا ظلم کرتے ہیں کمپنی والے ؟ ان کیخلاف زبان اور قلم کیوں نہیں چلاتے ؟اب میری زبان بند ہوگئی ۔ کیا بتاتا کہ بھئی ملٹی نیشنل کمپنیوں کے بارے میں بولنا منع ہے ۔ یہ تو تاریخی طور پر ہمیں عادت ہی نہیں ، بھلا ایسٹ انڈیا کمپنی کیخلاف کوئی اس طرح بولا تھا جیسے خاتون مجھ سے تقاضا کر رہی تھی؟میں کیسے بول سکتا تھا جبکہ کمپنی نے پریس کلب کو بس بھی خاص رعایت کے ساتھ دی تھی ؟مروت برطرف کرتے ہوئے میں نے ایک پرانے نیم صحافی دوست اور اس ملٹی نیشنل کمپنی کے افسر کو فون کیا اور جھٹ سے صحافتی حریت پسندی دکھائی تو جواب میں اس نے بھی میرے جیسا طریقہ استعمال کیا ۔’بولا ویسے تو میں آپ کی بڑی عزت کرتا ہوں کہ کیونکہ بڑے بھائی کے دوست اور اسی وجہ سے مرے بھی دوست ہیں لیکن رعایت لیتے وقت یہ نہیں سوچا اگرخودگڑ کھایا ہوتو اس سے دوسرے کو منع نہیں کرتے؟ میرے چہرے کے تاثرات دیکھ کر اس ہوسٹس نے ہاتھ جوڑ دیئے کہ میرا نام نہ آجائے ورنہ نوکری سے نکال دیں گے ؟ جس بندے کو نوکری سے نکلنے کا وسیع تجربہ ہو وہ اس بات کو بخوبی جانتا ہے ۔ میں اس کا نام کیونکر لینے والا تھا ؟ یہ ہاتھ مجھے قریب قریب اڑھائی انچ کے لگے جو میری بیٹی کے ہاتھوں کا سائز تھا اور کچھ دیر پہلے ہی ان نے اپنے ننھے ننھے ہاتھوں سے عینک کا کریا کرم کیا تھا جس پر غصے کے بجائے پیار آیا تھا ۔مجھے اس ہوسٹس کا نام یاد نہیں ۔وقت کے ساتھ ساتھ ہر چیز بھول گئی ۔ اچانک بریکنگ نیوز چلی کہ شیر پارٹی (مسلم لیگ ن ) کی ایم پی اے نگہت شیخ جو پچھلی اسمبلی کی آدھی مدت تک بال بچوں والی نگہت ناصر شیخ تھیں، نے پانی ملنے میں تاخیر پر بس کی ہوسٹس اقراءنواز کے منہ پر تھپڑماردیا ۔ یہ تھپڑایک عورت کا دوسری عورت کے منہ پر نہیں بلکہ محنت کو عظمت سمجھنے والی بیٹی کے منہ پر طمانچہ تھا، معلوم نہیں نگہت شیخ کو اس وقت اپنی بیٹی یاد کیوں نہ آئی لیکن کیسے آتی ؟ اگر اسے اپنی بیٹی اور اس سے شفقت و محبت کا احساس ہوتا تو وہ نگہت ناصر شیخ ہی رہتی ، نگہت شیخ تو نہ بنتی؟پر اسے تو تھپڑ پر بھی سکون نہ ملا ۔۔شیرنی تو تھی ہی پھرتی دکھائی پولیس کو فون کیا اور بس اقتدار کے زور پر تھانے لے گئی جہاں انسانیت اور ماں کے جیسی ریاست کے سامنے حکومت غالب آگئی اور مقدمہ بھی درج ہوگیا ۔۔۔
 مجھے وہی ہوسٹس یاد آئی جس نے ہاتھ باندھ کر کہا تھا کہ میں تھکاوٹ اور طویل مسافت سے چُور مر رہی ہوں لیکن معاشی موت قبول نہیں ۔ نگہت شیخ نے اس ہوسٹس کے منہ پر تھپڑ مار کر حکمران جماعت کے منشور،سوچ اور مستقبل کے فلاحی منصوبوں پر طمانچہ مارا یا نہیں یہ تو اس جماعت کے سربراہ بہتر فیصلہ کریں گے جن کا نام اقراءنواز کے نام کا حصہ ہے لیکن ایک طمانچہ اس سوچ کے منہ پر ہے جو یہ کہتے ہیں کہ اسمبلیوں میں خواتین کی حقیقی نمائندگی موجود ہے ۔ اگر یہی نمائندگی ہے تو مجھے دورِ جاہلیت کی عورت قبول ہے جو تھپڑ کا درد محسوس کرنے سے پہلے زندہ دفن کردی جاتی تھی ۔ جس طرح اقراءنواز کی انا اور گھر سے باہر باعزت روزگار کی سوچ نگہت شیخ نے زندہ دفن کردی۔

مزید :

بلاگ -