سوشل اسٹیٹس اونچا ہونے کی کہانی

سوشل اسٹیٹس اونچا ہونے کی کہانی
سوشل اسٹیٹس اونچا ہونے کی کہانی
کیپشن: nazar ur rehman rana

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


ہماری سماجی زندگی کا ایک روگ سوشل اسٹیٹس کا غیر معمولی احساس و اظہار ہے۔ جونہی گریڈ اپ ہوتا ہے یا رہائش شہر کی تنگ گلیوں سے نکل کر اشرافیہ کی کسی پوش سکیم میں کی جاتی ہے تو فوراً رویئے میں نمایاں تبدیلی آ جاتی ہے۔ بولنے چالنے بلک ہنسنے مسکرانے تک کا انداز بدل جاتا ہے گفتگو کا ہر جملہ بین السطور یہی تاثر دے رہا ہوتا ہے، زندگی گزارنے کا بہترین قرینہ ہم ہی جانتے ہیں، باقی دنیا تو جاہل مطلق ہے۔
میرے ایک محلے دار ملک صاحب ہوتے تھے۔ لاہور میونسپل کارپوریشن میں ڈپٹی ٹیکسیشن آفیسر تھے۔ انہیں ترقی ملی تو وہ ٹیکسیشن آفیسر بن گئے۔ افسریت کا بھوت سر پر یوں سوار ہو گیا کہ اپنے تمام ہمسایوں کو ہاﺅس ٹیکسیشن کے بقایا جات کے نوٹس مع جرمانے کے بھیج دیئے ۔ایسے نوٹس عام طور پر اعصاب پر بجلی گرنے سے کم نہیںہوتے۔ ہمسائے بڑی امید اور مان کے ساتھ ملک صاحب سے ملے، اپنا دکھڑا سنایا اور چاہا کہ کچھ آسانی بہم پہنچ جائے، لیکن بے چاروں کو یہ خبر نہ تھی کہ افسریت میں ترقی ملنے کے بعد ملک صاحب وہ ملک صاحب نہیں رہے تھے۔ ”متاثرین“ کو جواب دیا، آپ ہماری عدالت میں پیش ہو کر اپیل دائر کریں، ہم اس پر غور کریں گے۔ یہ روکھا سا جواب سُن کر سب کے مُنہ لٹک گئے!معلوم نہیں پھر ان سائیلان نے کتنی پیشیاں بھگتیں، یا ملک صاحب نے ٹیکس کی رقوم میں ناواجب اضافہ کی کمی کرائی، مَیں نے بھی اُن کی باقاعدہ مدد کی، اُن کا رویہ دلوں پر اپنا ایک افسوس بھرا نقش مرتب کر گیا۔
اس واقعہ کے دو تین ماہ بعد ملک صاحب کی دُختر نیک اختر کی شادی طے پائی۔ انہوں نے اپنے رشتے داروں کے علاوہ ہمسایوں کو بھی دعوت نامے بھجوائے۔ ملک صاحب جس برادری سے تعلق رکھتے تھے اس میں اکثر اعزہ و اقربا میں مناقشتیں پروان چڑھتی رہتی ہیں۔ چنانچہ ملک صاحب کے سگے بھائی تک شادی میں شرکت پر آمادہ نہ تھے۔ ملک صاحب اپنے تئیں سمجھے بیٹھے تھے کہ چونکہ اُن کی افسریت میں جو ترقی ہوئی ہے اس سے ہر کوئی مرعوب و متاثر ہو گا، لیکن عین شادی کا دن آ گیا، استقبال بارات کی گھڑی سرپر آ گئی، لیکن دُور دُور تک نہ کوئی ہمسایہ نظر آ رہا تھا نہ اُن کا برادر گرامی! بیٹی کی شادی کا موقع اور گھر ویرانی کا ماحول پیش کر رہا تھا، بڑی تشویشناک بات تھی۔ اب ملک صاحب کے دل میں کھٹک سی پیدا ہوئی، فوراً اُٹھے اور میرے پاس چلے آئے۔ آتے ہی میرے پاﺅں پکڑ لئے کہ آپ ہمسایوں سے کہیں وہ مجھے معاف کر دیں۔ مَیں ایک لمحہ تاخیر کئے بغیر اُٹھا اور باری باری سب ہمسایوں کے ہاں گیا، اُن کی منت سماجت کی اور کہا بیٹیاں تو سب کی سانجھی ہوتی ہیں۔ آفرین ہے ان ہمسایوں پر کہ سارا گلہ بھلا کر شادی میں شرکت پر آمادہ ہو گئے۔ مَیں ملک صاحب کے سگے بھائی کو بھی مَنا کر لے آیا۔ خیر خیریت سے شادی کی تقریب انجام پا گئی اور ملک صاحب کی بیٹی رخصت ہو گئی۔
ملک صاحب کا سوشل اسٹیٹس مزید یوں اونچا ہوا کہ ان کے فرزند ِ ارجمند جو پونچھ ہاﺅس میں ڈپٹی ڈائریکٹر آف انڈسٹریز تھے، جائنٹ ڈائریکٹر آف انڈسٹریز مقرر ہو گئے۔ کوئی مہینہ بھر بعد ملک صاحب اپنی بہو کو ساتھ لے کر میرے دفتر آ گئے۔ مَیں اس وقت مقامی ٹاﺅن کمیٹی میں چیئرمین تھا۔ ملک صاحب نے کہا، ہم اس بہو کو طلاق دینا چاہتے ہیں۔ مَیں نے پوچھا آپ کو اس سے کیا شکایت ہے، اس کے تو آنسو نہیں تھم رہے۔ ملک صاحب کے جواب میں بہت رعونت تھی۔انہوں نے کہا ہمارا سوشل اسٹیٹس اونچا ہو گیا ہے۔ مَیں نے کہا، اگر اسٹیٹس نیچے ہو جاتا تو ! وہ ہونقوں کی طرح میرا مُنہ تکے جا رہے تھے۔ مَیں نے کہا، اس بے چاری نے شادی آپ سے کی تھی یا آپ کے بیٹے سے؟ آپ بیٹے سے کہیں وہ خود پیش ہو۔ اگلی پیشی پر وہ اپنے بیٹے کی طرف سے طلاق کا نوٹس لے کر آئے۔ مَیں نے چند پیشیوں میں ثالثی کونسل کا فیصلہ دے کر طلاق کا سرٹیفکیٹ جاری کر دیا۔
کوئی مہینہ بھر بعد اسی بیٹے کے لئے راولپنڈی کے کسی معزز خاندان کی بیٹی بیاہ لائے۔ اس خاتون کے بطن سے دو خوبصورت بچے پیدا ہوئے، دونوں سات آٹھ برس کی عمر میں تھے۔ ساس اور سسر کے روز روز کے مظالم سے تنگ آ کر ایک دن اپنے دونوں بچوں سمیت گاڑی کے سامنے کود گئی۔ دو ایک ماہ بعد ہی مَیں نے اخبار میں ملک صاحب کی طرف سے ایک چھوٹا سا اشتہار چھپا ہوا دیکھا، جس میں انہوں نے پھرکوئی چاند سی بہو لانے کا ارادہ ظاہر کیا تھا۔ اس دفعہ پھر کوئی خاتون ان کے دام تز ویر میں پھنس گئی، لیکن اب کے ان کے صاحبزادے نے والدین سے علیحدگی اختیار کر لی۔ شاید اب وہ والدین کے سوشل اسٹیٹس کے خبط کا شکار نہیں بننا چاہتا تھا۔ چنانچہ اس نے آبائی گھر چھوڑ کر گارڈن ٹاﺅن میں بسیرا کر لیا۔ پاکستان ٹائمز میں اردو پریس سروس کے خالد لطیف صاحب نے ملک صاحب کا مذکورہ بالا اشتہار دیکھ کر مفاد عامہ (Probonica Publica) میں سوشل اسٹیٹس کی ساری کہانی مراسلے کی صورت میں ”پاکستان ٹائمز“ میں چھپوا دی۔ پہلامراسلہ میری نظر سے گزرا، جس نے عوامی مفاد کی خاطر ملک صاحب کے سوشل اسٹیٹس کی ساری کہانی سپرد قلم کر دی تھی۔

مزید :

کالم -