ایدھی صاحب، دھرنا کزن اور بدنما داغ

ایدھی صاحب، دھرنا کزن اور بدنما داغ
ایدھی صاحب، دھرنا کزن اور بدنما داغ

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

کافی عرصے بعد روائتی خبروں، تبصروں اور پیش گوئیوں کے طوفان میں ایک بہت اچھی اور سچی خبر سننے کو ملی تو حد درجہ دلی سکون محسوس ہوا اور فطری انداز میں جی چاہا کہ کالم لکھا جائے۔ خبر یہ تھی کہ انسانیت کی بے لوث اور حقیقی خدمت کرنے کے حوالے سے عالمی سطح پر اپنی پہچان کرانے کا اعزاز حاصل کرنے والے عبدالستار ایدھی کی تشویشناک بیماری کا چرچا ہوا تو سابق وفاقی وزیر اور پیپلزپارٹی کے ’’متحرک‘‘ رہنما رحمان ملک اپنی تمام تر مسکراہٹوں کے ساتھ ایدھی صاحب کی عیادت کو پہنچے اور اپنے لیڈر آصف علی زرداری کا پیغام پہنچایا۔ خلاصہ یہ تھا کہ جس ملک میں بھی پسند کریں، ایدھی صاحب کا علاج کرایا جا سکتا ہے۔ ایدھی صاحب نے کئی بار یہ پیغام سنا اور خاموش رہے۔ رحمان ملک نے قدموں میں بیٹھ کر نہایت ادب اور اپنائیت کے ساتھ بچوں کے انداز میں پوچھا ’’ایدھی صاحب! بتایئے ناں۔۔۔ آپ کہاں اپنا علاج کرانا پسند کریں گے‘‘؟۔۔۔ بالآخرایدھی صاحب نے جواب دیا کہ میں اپنے ملک کے کسی سرکاری ہسپتال میں علاج کرانا پسند کروں گا۔ یہ کہہ کر انہوں نے رحمان ملک کو رخصت کی اجازت دی اور اپنی آنکھیں بند کرلیں۔


ایدھی صاحب کے اس انداز سے ہمیں وہ واقعہ یاد آ گیا۔ رات بھر بارش ہوتی رہی۔ اگلے روز بادل چھٹ گئے اور سورج نکل آیا تو بوڑھا درویش اپنی کٹیا سے باہر آکر دھوپ سے لطف اندوز ہونے لگا۔ اسی اثناء میں بادشاہ کی سواری اُدھر سے گزری بادشاہ نے اپنا گھوڑا درویش کے قریب روکتے ہوئے اپنا تعارف خود ہی کرا دیا اور پوچھا کہ میں آپ کی کیا خدمت کر سکتا ہوں؟ درویش نے جواب دیا ’’اپنا گھوڑا ذرا پرے کرلو۔ میں دھوپ سینکنا چاہتا ہوں‘‘۔ یہ کہہ کر اس نے رومال آنکھوں پر ڈالا اور ہاتھ کے اشارے سے بادشاہ کو جانے کا کہہ دیا۔


ایدھی صاحب کے علاج کا معاملہ رحمان ملک کی رخصتی کے ساتھ ہی ختم نہیں ہوا۔ اگلے روز آصف علی زرداری کی صاحبزادی آصفہ بھٹو زرداری نے ایدھی صاحب کے ہاں حاضری دی۔ آصفہ نے کہا ’’میں تو بیٹی کی حیثیت سے آئی ہوں۔ ایدھی صاحب ہمارے بزرگ ہیں۔ ان کی بیماری پر تشویش ہے‘‘۔ بعدازاں آصفہ نے بھی بادشاہ سلامت کی طرح پوچھا ’’آپ بتایئے، ہم آپ کی کیا خدمت کر سکتے ہیں؟‘‘ ضعیف اور بیماری سے نڈھال ایدھی صاحب نے فرمانبرداری اور خلوص کی تصویر بنی ہوئی آصفہ کی طرف دیکھا اور اپنے مخصوص لہجے میں کہا ’’ایدھی ہوم روزانہ لاوارث لاشیں دفن کرتا ہے۔ ہمارے پاس کوئی قبرستان نہیں۔ خدمت کرنا چاہتی ہو تو ہمیں قبرستان کے لئے جگہ دے دو‘‘۔ یہ سن کر معصوم بچی کی طرح آصفہ نے کہا ’’بابا آپ کا یہ کام ضرور ہوگا۔ آپ کو قبرستان کے لئے جگہ مل جائے گی‘‘۔ یہ کہہ کر وہ چلی گئی۔


ہمیں توقع تھی کہ ایدھی ہوم کے قبرستان کا مسئلہ حل کرنے کے لئے آصف زرداری اپنی جیب سے زمین مہیا کرنے کا اعلان کریں گے یا پھر وہ سندھ کے وزیراعلیٰ سائیں قائم علی شاہ کو خصوصی ہدایت جاری کریں گے۔ لیکن حیرت ہوئی کہ کچھ بھی نہ ہوا، البتہ کہانی، جو رحمان ملک کی ایدھی صاحب کی عیادت کے نام پر شروع ہوئی تھی ، وہ ختم ہوگئی۔ ہمیں تو یہ بھی توقع تھی کہ عالمی شہرت یافتہ عبدالستار ایدھی نے وطن عزیز ہی میں کسی سرکاری ہسپتال میں علاج کرانے اور ایدھی ہوم کے علیحدہ قبرستان کے لئے جو ’’فرمائش‘‘ کی ہے، اس پر ٹی وی چینلز خصوصی پروگرام کریں گے۔ اینکرز اپنے دانشوروں، ماہرین اور آل راؤنڈرز کی ٹیم کے ساتھ ایک دو روز اپنا کام ضرور کریں گے جبکہ اخبارات میں خصوصی تبصرے، ایڈیٹوریل نوٹ اور فالواپ کا کام ہوگا۔ صد افسوس، ایسا کچھ بھی نہیں ہوا۔ رات گئی بات گئی ! سچ کہاگیا کہ توقعات وابستہ کرنے سے دکھ کے سوا کچھ نہیں ملتا۔


ہمارے ٹی وی چینلز اور اخبارات کے اربابِ اختیار کو پولٹیکل ایکشن سیریز، اپنے خصوصی مذاکروں اور طے شدہ پروگراموں سے فرصت ہی نہیں۔ چنانچہ سیاسی بڑھکوں، من پسند پیش گوئیوں، ضروری تجزیوں اور ایجنڈے کی ضرورت کو پورا کرنے والے انکشافات کا شور برپا ہے اور عبدالستار ایدھی نے رحمان ملک اور آصفہ بھٹو زرداری سے جو تاریخی اور یادگار باتیں کیں، ان کے پاس کوئی پروگرام پیش کرنے کے لئے کوئی گنجائش نہیں۔ عمران خان سڑکوں پر دس فیصد عوام کو لانے کی دھمکی دیتے ہیں تو یہی بات سب سے اہم ہے۔ اپوزیشن پارٹیاں رسمی طور ’’متحد‘‘ ہیں تو اس پر حکومت کی تبدیلی سے لے کر سٹریٹ پاور کے دعوے انتہائی اہم موضوع ہیں۔ کرپشن کے خاتمے کے نام پر تحریک انصاف اور جماعت اسلامی کہیں آگے نہ نکل جائے، پیپلزپارٹی نے بھی حکومت کی بجائے اپوزیشن جماعتوں سے مفاہمت کی پالیسی کو اپنانے کا اعلان کیا ہے۔خورشید شاہ نے تو صاف کہہ دیا ہے کہ اب میاں نواز شریف نہیں بچ سکیں گے۔ شاہ صاحب کا انداز ایسا تھا، جیسے میاں صاحب کی حکومت کا حتمی فیصلہ انہوں نے کرنا ہے۔


اس شور شرابے میں حکومتی حلقوں سے قربت پانے والے کئی خوش نصیب دانشور، تجزیہ کار اور ماہرین، زیب داستاں کے لئے بہت دور کی کوڑی لا رہے ہیں۔ عمران خان کے پاس کچھ کرنے کو نہیں ہو گا تو سیاسی پوائنٹ سکورنگ بھی نہیں ہوگی۔ سپریم کورٹ جانے اور لوگوں کو سڑکوں پر لانے کی دھمکیاں دے کر وہ وقت گزای کر رہے ہیں۔ حسنِ اتفاق کہئے کہ سانحہ ماڈل ٹاؤن کو دو سال مکمل ہو گئے اور رمضان المبارک بھی انہی ایام میں آ گیا۔ اپنی روایت کے مطابق ڈاکٹر طاہر القادری سالانہ دورے پر لاہور آ گئے کہ سانحہ ماڈل ٹاؤن کے شہداء کے لواحقین اور زخمیوں سے یکجہتی کے اظہار کے لئے ان کی موجودگی ضروری تھی۔ رمضان المبارک میں عشرۂ اعتکاف میں بھی وہ شریک ہوا کرتے ہیں۔اس پر نادان دوستوں کی طرف سے شور مچایا جا رہا ہے کہ دھرنا کزن ایک بار پھر اکٹھے ہو رہے ہیں۔ گہری سازش تیار کی گئی ہے، حالانکہ ایسی کوئی بات نہیں کہ حکومت کے لئے بڑا خطرہ ہو۔ خواہ مخواہ شور مچایا جا رہا ہے۔ مال روڈ کے چیئرنگ کراس پر ایک رات کے چند گھنٹوں کا دھرنا بہت بڑا خطرہ بتایا جا رہا ہے۔ عوامی تحریک والوں کا کہنا ہے کہ اگر حکومت کو واقعی کوئی خطرہ محسوس ہو رہا ہے تو دو سال گزر گئے، مختلف حیلوں بہانوں سے انصاف کی راہ میں رکاوٹیں کیوں کھڑی کی گئیں۔ دن کے اجالے میں پولیس نے سیدھی گولیاں مار کر14افراد کی جان لی اور85لوگوں کو زخمی کر دیا۔ اس کی ہر ٹی وی چینل پر تفصیلی کوریج ہوئی۔ کسی ابہام اور مفروضے کے بغیر واضح ہوتا ہے کہ پولیس ایکشن کیسے ہوتا رہا۔ جسٹس نجفی رپورٹ کو حکومت نے دبا رکھا ہے۔ اب ہم احتجاج بھی نہ کریں۔ دہائی بھی نہ دیں۔ ہمارا احتجاج تو پُرامن رہا ہے اور آئندہ بھی پُرامن ہی ہو گا۔ حکومتی حلقوں کے اندر کا ڈر ہے کہ وہ عوامی تحریک کی قیادت اور کارکنوں کے روائتی احتجاج کو بہت بڑا خطرہ قرار دے کر شور مچا رہے ہیں۔


ڈاکٹر طاہر القادری اور ان کے ساتھیوں کو پچھلے دو سال میں انصاف مل جانا چاہئے تھا۔ انصاف میں غیر معمولی تاخیر، انصاف کے خون کی طرف اشارہ ہے۔یہی وجہ ہے کہ اس مقدمے کو عالمی سطح پر اٹھانے کا جائزہ لیا گیا ہے۔ قانونی ماہرین اور بعض غیر سرکاری اداروں کا تعاون بھی حاصل کیا جا رہا ہے۔ اس کے ساتھ ڈاکٹر طاہر القادری نے ایک بار پھر آرمی چیف جنرل راحیل شریف سے اس معاملے میں اپنا کردار ادا کرنے کی اپیل کی ہے۔ اب دیکھئے کہ آنے والے دِنوں میں ڈاکٹر طاہر القادری اپنا قیام بڑھاتے ہیں یا حسب سابق عید کے بعد وہ بیرون مُلک چلے جائیں گے۔ اگر عمران خان نے اپنی سڑکوں والی تحریک میں ڈاکٹر صاحب کے کارکنوں اور پیرو کاروں کو شامل کر کے فائدہ اٹھانے کا فیصلہ کیا تو پھر ڈاکٹر طاہر القادری کچھ عرصہ تک پاکستان میں رہ جائیں گے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ تاخیری حربوں کی شکایت کا خاتمہ کرنے کے بارے میں حکومتی حلقوں کو سوچنا چاہئے۔

مزید :

کالم -