بے باک لیکن قابلِ احترام خواتین!
آج کل چونکہ کورونا وائرس کی وباء کے ہاتھوں خلقِ خدا بہت تنگ ہے اس لئے پڑھی لکھی اور سفید پوش آبادی کا ایک بڑا حصہ (Segment) خانہ نشینی پر مجبور ہو گیا ہے۔ اندرون خانہ کی یہ سرگرمی (اگر اس کو سرگرمی کا نام دیا جا سکے) مصروفیت کے مفہوم کی زیادہ اقسام پر محیط نہیں۔ کھانا پینا، مطالعہ،اخبار بینی، ٹی وی وغیرہ کے علاوہ ایک سرگرمی ایسی بھی ہے جو چند برس پہلے کوئی وجود نہیں رکھتی تھی لیکن جب سے سمارٹ فون اور وائی فائی کی سہولتیں عام ہوئی ہیں ”موبائل بینی“ بھی باقاعدہ ایک ناگزیر علّت بن کر رہ گئی۔ ہر ایک دو گھنٹے بعد موبائل کی طرف ہاتھ جاتا ہے کہ دیکھیں کوئی نئی خبر نہ آ گئی ہو……
علاوہ ازیں سوشل میڈیا کی چونکہ بھرمار ہے اس لئے سمارٹ موبائلوں پر جھوٹے یا سچے وڈیوز / آڈیوز آتے رہتے ہیں۔ ان کی تعداد اور گوناگونی آپ کے دوست احباب کی فکر و نظر کی غمازی کرتی ہے۔ واٹس آپ وغیرہ پر صرف وہی دوست آپ سے لنک رکھتے ہیں جن کی آراء کا قارورہ آپ سے مل جاتا ہے۔ کئی دفعہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ کسی ایسے دوست کا پیغام اچانک آکر آپ کو چونکا دیتا ہے جس کو آپ پہلے سے نہیں جانتے۔ لیکن وہ دوست آپ کو جانتا ہے۔ یہ گویا یک طرفہ محبت ہے جو صحافیانہ زندگی کی نامطلوب نعمتوں میں سے ایک ہے۔ واٹس آپ آپ کو بتاتا ہے کہ یہ دوست آپ کے واٹس آپ گروپ“ کا حصہ نہیں۔ چونکہ اس کا ٹیلی فون نمبر بھی ساتھ ہوتا ہے اس لئے آپ اگر چاہیں تو اس کو اپنے مستقبل احبابِ واٹس آپ میں شامل کر سکتے ہیں۔ کالم نویسی کا ایک فائدہ (یا نقصان) یہ بھی ہے کہ آپ اپنے قارئین کی اکثریت یا اقلیت سے ناآشنا ہوتے ہیں لیکن آپ کی تحریر کے توسط سے کئی لوگ آپ کی ”خودنوشت“ سے واقف ہوتے ہیں۔ کالم (Column) اور مضمون (Article) میں یہی فرق ہے کہ کالم میں آپ ذاتی حقائق (Subjective Facts) کو ضبطِ تحریر میں لے آتے ہیں جبکہ آرٹیکل میں حتی الوسع صفاتی یا معروضی (Objective) مسائل و معاملات ہی زیرِ بحث لاتے ہیں۔
کوئی قاری جب یہ دیکھتا ہے کہ آپ کی ذاتی پسند و ناپسند یا تجزیہ و تبصرہ اس کے اپنے تجزیات، تجربات یا حقائقِ زیست سے ملتا جلتا ہے تو وہ آپ کو واٹس آپ کے ذریعے اپنی ”بپتا“ سنانے پر مجبورہو جاتا ہے……میرے ساتھ دن میں کئی بار یہ ”وقوعہ“ پیش آتا ہے اور جی چاہتا ہے کہ اس کا جواب بھی دوں اور زیرِ بحث مسائل پر اپنا نقطہ ء نظر بھی اپنے دوست کے سامنے رکھوں لیکن سب سے زیادہ جو چیز رکاوٹ بنتی ہے وہ وقت کی کمی ہے…… آپ اپنے دوست کا پیغام پڑھتے ہیں اور ذہن کے کسی گوشے میں محفوظ کر لیتے ہیں اور اگر کالم نگار ہیں تو اپنے کسی کالم میں اس پیغام کی بازگشت پر تبصرہ کرکے دوست کے پیغام کی رسید دے دیتے ہیں۔
لیکن آپ کے دوستوں کا ایک ریگولر گروپ وہ بھی ہوتا ہے جس سے آپ کی بے تکلف ملاقاتیں ہوتی ہیں، ٹیلی فون پر تبادلہ ء خیال ہوتا رہتا ہے، نیکی بدی کی اطلاعات آتی جاتی ہیں اور چونکہ تکلفات کی ساری ردائیں اتنی باریک اور مہین ہوتی ہیں کہ آرپار دیکھنے میں کوئی دشواری نہیں ہوتی اس لئے من تو شدم، تو من شدی کا عالم بھی ہوتا ہے۔ لہٰذا ایسی وڈیوز اور آڈیوز بھی ارسال و ترسیل کا مواد بنتی ہیں جو ہر کہ و مہ اور ہر کس و ناکس سے شیئر نہیں کی جا سکتیں۔ اس کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ طرفین کی بے تکلفی، بے حجابی بن کر کبھی آپ کے ہونٹوں کی مسکان بنتی ہے تو کبھی قہقہوں کا سامان بن جاتی ہے۔
لگے ہاتھوں ایک اور حقیقت سے بھی پردہ اٹھا دوں تو شائد ناروا نہ ہو…… اگرچہ کوچہ ء صحافت میں قدم رکھنے سے پہلے بھی خواتین دوستوں سے پالا پڑتا رہتا تھا لیکن جب ریٹائرمنٹ ہوئی اور عمر کے اس حصے میں پہنچے جہاں ”ضرر رسانی“ کے امکانات بہت محدود ہو جاتے ہیں تو فرینک نس (Frankness) کا دائرہ وسیع ہو گیا۔ میں اگرچہ باقاعدہ صحافی نہیں لیکن اس قبیلے کی ایک شاخ سے چونکہ منسلک ہوں اس لئے سارے قبیلے کے حسن و قبح کا کچھ اندازہ ضرور ہے۔ اس میں خواتین صحافیوں کے ساتھ اگر براہِ راست اور روبرو تعلق نہ بھی ہو تو حکایات اور داستانیں تو سننے کو مل جاتی ہیں۔ میں وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ جس شعبے میں خواتین اور مردوں کا انٹرایکشن ہو گا اس میں گل و بلبل کے قصے نہ صرف مشہور ہوں گے بلکہ سارے چمن والوں کو ان قصوں کے نشیب و فراز کا علم ہوگا۔ یہ حکایات بعض اوقات گفتنی ہوں گی اور اکثر اوقات ناگفتنی۔
مجھے گزشتہ 24،25برس سے چونکہ کوچہء صحافت کی قربت حاصل رہی اس لئے میں ڈنکے کی چوٹ کہہ سکتا ہوں کہ زیادہ تر خواتین صحافی انتہائی باحیا، پاکیزہ سیرت، اپنے پروفیشن میں مردوں سے کہیں آگے، ادب شناسی کے اعلیٰ و ارفع ذوق کی حامل، نسوانی تقدیس کی پاسبانی کرنے والی اور اپنی بات پر اڑ جانے والی ہوتی ہیں۔ یہ خواتین جب عمر اور تجربے کے اس مقام پر پہنچ جاتی ہیں کہ جہاں ان موضوعات پر بھی بلاجھجک گفتگو کر لیتی ہیں جو بالعموم نسوانی دائرے کے یا تو عین محیط پر ہوتے ہیں یا اس سے بھی باہر نکل جاتے ہیں …… میں ایک مثال سے اپنی بات کی وضاحت کر دیتا ہوں۔
آج کل کورونا کا زور ہے اور جن تحفظی ایکسرسائزوں پر سختی سے عمل کرنے کی باتیں کی جاتی ہیں ان میں ماسک پہننا، سماجی فاصلہ رکھنا اور بار بار ہاتھوں کو صابن سے دھونا ہے۔ تقریباً دو ماہ پہلے مجھے ایک دوست نے پوچھا کہ کیا ان کورونائی ایام میں کسی بیٹے یا بیٹی کی شادی کی جا سکتی ہے کہ اگر شادی کی ان رسومات کا اہتمام نہ بھی کیا جائے جو پاکستان میں سفید پوش طبقہ کرنے کا عادی ہے تو کیا کم ترین مہمانوں کے ساتھ نکاح کی رسم ادا کرنے کی سفارش کی جا سکتی ہے؟…… میں یہ سن کر سوچ میں پڑ گیا کہ کیا جواب دوں اور کیا نہ دوں تو ان کو کہا کہ اس سوال کا بہتر جواب کوئی ڈاکٹر صاحب (یا ڈاکٹر صاحبہ) ہی دے سکتے ہیں۔ تاہم میں نے اپنے طور پر ایک صحافی خاتون سے یہی سوال پوچھا تو ان کا جواب تھا: ”کیا اس نکاح کو اتنی دیر تک ملتوی نہیں رکھا جا سکتا کہ جب کورونا کی ویکسین تیار ہو جائے؟“…… میں نے کہا اگر بالفرض ایسا کرنا ممکن نہ ہو تو؟ ان کا اگلا فقرہ تھا: ”اس سوال سے مجھے تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ لڑکی کے والدین اپنی کسی ”مجبوری“ کی پردہ پوشی کرنا چاہ رہے ہیں۔ ان کو کہیں کہ اگر وہ مجبوری آن ہی پڑی ہے تو ایک پل کی دیر بھی نہ لگائیں۔ کورونا کا علاج تو شائد آنے والے دوچار برسوں میں بھی نہ نکل سکے لیکن یہ نکاح اگر دوچار ماہ بھی ملتوی ہو گیا اور نتیجہ مثبت (Positive) نکل آیا تو یہ گھر برباد ہو جائے گا؟“……
قارئین گرامی! آپ حیران ہوں گے کہ میں نے جب یہی جواب لڑکی کے والدین کو سنایا اور یہ بھی بتایا کہ اس کی راوی ایک ایسی صحافی خاتون ہیں جو سچ کہنے میں بے باکی کی تمام حدوں کو پار کر جاتی ہیں تو ان کا سرشرم سے جھک گیا…… وہ نکاح ہو چکا ہے اور میں خاتون صحافی کی گہری بصیرت اور دور اندیشی کی داد دیتا ہوں کہ اس کی بے باکی نے ایک خاندان کو بدنامی سے بچا لیا!
میں عرض یہ کر رہا تھا کہ اگر ایسی خواتین آپ کے واٹس آپ گروپ میں شامل ہوں تو ان کی آراء، تبصروں اور تجزیوں کو غنیمت جانیں اور ان کی بے باکی (Boldness) کو ”منہ پھٹ“ ہونے کا ٹھپّا نہ لگائیں!