صحابہؓ کرام کا جذبہ ایثار۔۔۔!!!
ایثار و ہمدردی'' تقریباًـ ایک ہی معنی میں استعمال ہوتے ہیں۔’ ایثار‘ عربی زبان کا مصدر ہے، جس کامعنیٰ ہے ترجیح دینا۔ ہمدرری اردو زبان کا لفظ ہے جس کا معنی ہے’خیر خواہی‘۔ ایثار وہمدردی مومن کا بہترین وصف ہے کیونکہ مومن دوسرے کی خواہش و حاجت کو اپنی خواہش وحاجت پر ترجیح دیتے ہوئے اسکے ساتھ خیر خواہی کرنا ہے۔ ایثار وہمدردی اسلام کا شعار ہے۔
حضور نبی کریم ﷺ کے اخلاق حسنہ میں ایثار کا وصف نمایاں حیثیت رکھتا ہے، اس کا اثر ہر موقعہ پر نظر آتا تھا۔ آپﷺ کی پوری حیاتِ طیبہ ایثار سے عبارت ہے۔ آپ ﷺ نے لوگوں کی ہدایات اور فلاح کے لئے اپنی زندگی وقف کر دی۔ اس مشن کے لئے پوری زندگی گزار دی، سخت ایذا رسانیاں برداشت کیں، مصیبتیں جھیلیں، جنگیں لڑیں، جنگوں میں نہایت مشکل اور صبرو شجاعت آزما گھڑیاں دیکھیں، زخم کھائے، اپنے قریبی عزیزوں کو شہید کروایا۔
یہ سب کچھ کسی ذاتی مفاد یا غرض کے لئے نہ تھا، بلکہ صرف اور صرف اس لئے کہ لوگ ہدایت اور فلاح پائیں۔ حضور نبی کریم ﷺ کے در سے کبھی کوئی سائل محروم نہیں گیا۔ آپﷺ نے اور آپﷺ کی ازواج مطہراتؓ نے مدنی زندگی میں کبھی دو وقت سیر ہو کر کھانا نہیں کھایا، حالانکہ آپ ﷺ ریاست کے سربراہ تھے۔ آپﷺ سراپا ایثار تھے تو آپﷺ کی تربیت یافتہ اور آپﷺ کی صحبت سے فیض یاب ہونے والے عظیم صحابہؓ کرام اس وصف سے کیسے پیچھے رہ سکتے تھے؟؟؟چنانچہ انہوں نے ایثار کی ایسی درخشندہ مثالیں قائم کیں کہ تاریخ میں ان کی نظیر ملنا محال ہے۔ ایثار کی بہترین مثال انصار مدینہ کی ہے۔
حضور نبی کریم ﷺ کی تعلیمات کا ان پر اتنا اثر ہوا کہ انصارؓ اور مہاجرینؓ میں مواخات قائم ہو گئیں۔ وہ ایک دوسرے کے بھائی بھائی بن گئے، انصارؓ نے مہاجرینؓ کو زبانی بھائی بھائی کہنے کی بجائے عملی طور پر اپنی ہر چیز، یعنی زمین، مال تجارت اور ذرائع تجارت کا نصف ان میں بخوشی تقسیم کر دیا۔ آپ ﷺ نے مدینہ منورہ میں غریب مہاجرینؓ کے مسائل حل کرنے کے لئے مہاجرینؓ اور انصارؓ کے درمیان جو مواخات قائم قرار فرمائی اس کے تحت عظیم انصارؓ نے عظیم مہاجرینؓ کے لئے مثالی ایثار سے کام لیا۔ انہوں نے گھر کا اثاثہ اور زمینیں اور نخلستان وغیرہ اپنے مہاجر بھائیوں کو نصف نصف بانٹ دیا۔
چنانچہ قرآن مجید میں ارشاد ربانی ہے کہ وہ اور اپنی ذات پر دوسروں کو ترجیح دیتے ہیں خواہ اپنی جگہ خود محتاج ہوں ۔ (سورت حشر آیت نمبر 9 ) یہ تعریف ہے مدینہ طیبہ کے انصارؓ کی، مہاجرینؓ جب مکہ مکرمہ سے ہجرت کر کے مدینہ طیبہ میں آئے تو انصارؓ مدینہ طیبہ نے حضور نبی کریم ﷺکی خدمت میں یہ پیشکش کی کہ ہمارے باغ اور نخلستان حاضر ہیں، آپﷺ ! ان کو ہمارے اور ان مہاجرین بھائیوں کے درمیان بانٹ دیں ۔ حضور نبی کریم ﷺ فرمایا کہ یہ لوگ تو باغبانی نہیں جانتے، یہ اُس علاقے سے آئے ہیں جہاں باغات نہیں ہیں، کیا ایسا نہیں ہو سکتا کہ اپنے اِن باغوں اور نخلستانوں میں کام تم کرو اور پیداوار میں سے حصہ انکو دو؟ انصارؓ اس پر خوشی سے راضی ہو گئے ( بخاری شریف ) اس پر مہاجرینؓ نے عرض کیا ہم نے کبھی ایسے لوگ نہیں دیکھے جو اس درجہ ایثار کرنے والے ہوں ۔ یہ کام خود کریں گے اور حصہ ہم کو دیں گے ۔ ہم تو سمجھتے ہیں کہ سارا اجر یہی لوٹ لے گئے۔
حضور نبی کریم ﷺ نے فرمایا نہیں ، جب تک تم انکی تعریف کرتے رہو گے اور اِن کے حق میں دعائے خیر کرتے رہو گے، تم کو بھی اجر ملتا رہے گا ( مُسند احمد ) پھر جب بنی نضیر کا علاقہ فتح ہوا تو حضور نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ اب بندوبست کی ایک شکل یہ ہے کہ تمہاری املاک اور یہودیوں کے چھوڑے ہوئے باغات اور نخلستانوں کو ملا کر ایک کر دیا جائے اور پھر اس پورے مجموعے کو تمہارےؓ اور مہاجرینؓ کے درمیان تقسیم کر دیا جائے اور دوسری شکل یہ ہے کہ تم اپنی جائیدادیں اپنے پاس رکھو اور متروکہ اراضی مہاجرینؓ میں بانٹ دی جائیں۔ انصارؓ نے عرض کیا یہ جائیدادیں آپ ﷺ ان میں بانٹ دیں اور ہماری جائیدادوں میں سے بھی جو کچھ آپﷺچاہیں اِن کو دے سکتے ہیں ۔ اس پر حضرت ابوبکر صدیقؓ پکار اٹھے اے انصارِ مدینہؓ !اللہ تعالی آپ کو جزائے خیر عطا فرمائیں ۔ اس طرح انصارؓ کی رضامندی سے یہودیوں کے چھوڑے ہوئے اموال مہاجرین اسلام ہی میں تقسیم کیے گئے اور انصار اسلام میں سے حضرت ابو دُجانہؓ، حضرت سہل بن حُنیفؓ اور (بروایت بعض) حضرت حارث بن الصمہؓ کو حصہ دیا گیا ، کیونکہ یہ حضرات بہت غریب تھے۔( ابن ہشام، روح المعانی )اسی ایثار وہمدردی کا ثبوت انصار نے اُس وقت دیا جب بحرین کا علاقہ اسلامی حکومت میں شامل ہوا ۔ حضور نبی کریم ﷺ چاہتے تھے کہ اس علاقے کی مفتوحہ اراضی انصار کو دی جائیں۔ مگر انہوں نے عرض کیا کہ ہم اس میں سے کوئی حصہ نہ لیں گے جب تک اتنا ہی ہمارے مہاجر بھائیوں کو نہ دیا جائے ۔ انصار مدینہ طیبہ کا یہی وہ ایثار ہے جس پر اللہ تعالی نے ان کی تعریف فرمائی ہے جب حضور نبی کریم ﷺ نے ایثار و ہمدردی کا عملی نمونہ پیش فرمایا تو صحابہ کرامؓ میں بھی ایثار و ہمدردی کی اعلیٰ صفت پیدا ہوئی۔
سورت حشر کی اسی آیت کی شان نزول کے ذیل میں ایک واقعہ کتب حدیث میں مذکور ہے، جو بڑا مؤثر اورسبق آموز ہے۔ اس سے ایثارکی اہمیت کا اندازہ بہ خوبی لگایاجاسکتاہے:ایک بار ایک فاقہ زدہ شخص حضور نبی کریم ﷺ کی خدمت مبارک میں حاضر ہوا، اتفاق سے اس وقت آپ ﷺ کے گھرمیں پانی کے سواکچھ نہ تھا، اس لئے آپ ﷺ نے مجلس میں موجود صحابہ کرامؓ کو مخاطب کرکے فرمایا:آج کی شب کون اس مہمان کا حقِ ضیافت ادا کریگا؟ ایک انصاری صحابیؓ جن کا نام ابوطلحہؓ تھا، انھوں نے کہا :میں یارسول اللہ ﷺ!چنانچہ وہ اس کو ساتھ لے کر اپنے گھر آئے۔بیوی سے پوچھا: کھانے کوکچھ ہے؟ بولیں:صرف بچوں کا کھاناہے۔سیدنا ابوطلحہؓ بولے: بچوں کو تو کسی طرح بہلادو، جب میں مہمان کو گھرلے آؤں تو چراغ بجھادو اور میں اس پر ظاہر کرونگا کہ میں بھی ساتھ کھارہا ہوں چنانچہ انھوں نے ایسا ہی کیا۔صبح کو آپﷺ کی خدمت میں حاضرہوئے تو آپ ؐﷺنے فرمایا :رات میں تمہارے عمل سے اللہ تعالیٰ بہت خوش ہوا(بخاری ومسلم ) ۔
غزوۂ تبوک کے موقع پر آپ ﷺ نے صحابہ کرامؓ سے تعاون کی اپیل کی تو حضرت عمر فاروقؓ نے اپنے گھر کا نصف سامان آپؐ کی خدمت اقدس میں پیش کر دیا اور حضرت ابوبکر صدیقؓ سے جب آپ ﷺ نے پوچھا کہ اپنے گھر والوں کے لئے کیا چھوڑ آئے ہو تو عرض کیا کہ ان کے لئے اللہ اور اس کے رسولﷺ کافی ہیں۔ حضرت سہل بن سعدیؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک خاتون بُنی ہوئی چادر لے کر آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی اور بولی:مَیں نے اسے اپنے ہاتھوں سے بُنا ہے تاکہ اسے آپﷺ کو پہننے کے لئے دوں۔ حضور نبی کریم ﷺکو اس کی ضرورت بھی تھی۔ آپ ﷺ نے اسے لے لیا، بعد میں آپ ﷺ ہمارے پاس تشریف لائے تو آپ ﷺ نے اسے تہبند کے طور پر پہنا ہوا تھا۔ ایک شخص نے کہا یہ آپﷺ مجھے دے دیں، یہ کتنی اچھی ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا ٹھیک ہے۔ آپ ﷺ اس محفل میں تھوڑی دیر بیٹھے رہے، پھر واپس تشریف لے گئے اور اس چادر کو لپیٹ کر اس شخص کو بھجوا دیا۔ حاضرین نے اس سے کہا تم نے اچھا نہیں کیا۔ نبی کریم ﷺ نے اسے پہنا تھا اور آپ ﷺ کو اس کی ضرورت بھی تھی، تم نے پھر بھی آپ ﷺ سے مانگ لی۔ تمہیں پتہ ہے نبی کریم ﷺسائل کو رد نہیں کرتے۔ اس نے کہا اللہ کی قسم! مَیں نے یہ آپ ﷺ سے اس لئے نہیں مانگی کہ مَیں اسے پہن لوں، مَیں نے یہ اس لئے مانگی ہے تاکہ یہ میرا کفن ہو۔ حضرت سہلؓ بیان کرتے ہیں وہ چادر اس شخص کا کفن بنی۔
دوسروں کے دکھ دردکواپنا دکھ دردسمجھنا اور اپنی تکلیف کوبھول کردوسروں کی پریشانی دورکرنے کے لئے بے قرار ہو جانا ہی ایثار وہمدردی ہے۔اس جذبہ کو ابھارنے کے لئے آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا :تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک مومن (کامل) نہیں ہوسکتا جب تک وہ دوسروں کے لئے بھی وہی چیز نہ پسند کرے جو اپنے لئے پسند کرتاہے(متفق علیہ)۔
جنگ یرموک میں حضرت عکرمہؓ ،حضرت حارث بن ہشامؓ ،حضرت سہیل بن عمروؓ ، زخم کھا کر زمین پر گرے اور اس حالت میں حضرت عکرمہﷺ نے پانی مانگا۔پانی آیا تو دیکھا کہ حضرت سہیلؓ پانی کی طرف دیکھ رہے ہیں ،بولے‘‘پہلے ان کو پلاآؤ۔حضرت سہیلؓ کے پاس پانی آیا تو انھوں نے دیکھا کہ حضرت حارثؓ کی نگاہ بھی پانی کی طرف ہے ،بولے ’’ان کو پلاؤ‘‘ نتیجہ یہ ہوا کہ کسی کے منہ میں پانی کا ایک قطرہ بھی نہ گیا اور سب نے ایثار کی تاریخ رقم کر کے جامِ شھادت نوش فرمایا۔رضی اللہ عنھم ورضو عنہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!!!!!!!!!
صحابہؓ کرام کے ایثار کی ایک نمایاں مثال یہ بھی ہے کہ حجرۂ سیدہ عائشہ صدیقہؓ میں اللہ کے رسولﷺ اورحضرت ابوبکر صدیقؓ کی تدفین کے بعد صرف ایک قبرکی جگہ بچی تھی۔سیدہ عائشہ صدیقہؓ نے اسے اپنے لئے خاص کر رکھا ہے لیکن جب حضرت عمرفاروقؓ نے ان سے وہ جگہ مانگ لی، تو انھوں نے ایثار سے کام لیتے ہوئے وہ جگہ ان کی تدفین کے لئے اسے دے دی۔ سیدہ عائشہ صدیقہؓ خود بیان فرماتی ہیں:میں نے خود اپنے لئے اس کو محفوظ رکھا تھا ،لیکن آج اپنے اوپر آپؓ کو ترجیح دیتی ہوں (بخاری شریف )
صحابہؓ کرام کی قربانیاں تاریخ اسلام کے ماتھے کا جھومر ہے۔ ان کی قربانیوں کی بدولت آج دنیا میں اسلام کا پرچم لہرارہا ہے۔ مسلم اُمّہ میں صحابہؓ کرام اور اہلِ بیتؓ کا ایثار وہمدردی ضرب مثل اور قابل اتباع ہے۔
حضرت ابو الدحداحؓ نے حضور نبی کریم ﷺ کا فرمان سن کر 600 کھجوروں والا باغ اور میٹھا کنواں جنت کے ایک درخت کے عوض میں دے دیا۔
حضرت عبدالرحمٰن بن قبابؓ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی کریم ﷺ نے جیش عسرہ ( جیش، لشکر اور عسرہ، تنگ دستی کو کہتے ہیں، جس زمانے میں یہ لشکر تیار ہوا وہ بہت تنگ دستی کا زمانہ تھا لٰہذا اسے جیش عسرہ کہا جاتا ہے ) کی تیاری کے لئے صحابہؓ کرام کو ترغیب دے رہے تھے، میں بھی وہاں موجود تھا۔ حضرت عثمان غنیؓ نے عرض کیا " یارسول اللہ ﷺ! میں سو اونٹ مع پالان اور سامان اپنے ذمہ لیتا ہوں ۔“ حضور نبی کریم ﷺ نے صحابہ کرام ؓ کو دوبارہ ترغیب دلائی۔ حضرت عثمان غنیؓ نے پھر عرض کی کہ “ یارسول اللہﷺ! میں دو سو اونٹ مع سازو سامان اپنے ذمہ لیتا ہوں۔“ حضور نبی کریم ﷺنے تیسری مرتبہ صحابہؓ کرام کو ترغیب دی تو حضرت عثمان غنیؓ نے عرض کیا کہ “ یارسول اللہ ﷺ! میرے ذمہ تین سو اونٹ مع پالان اور سامان کے۔“ یہ سن کر رسول اللہ ﷺ منبر سے نیچے تشریف لے آئے اور فرمایا کہ “ اب کے بعد (حضرت )عثمان غنیؓ کا کوئی عمل اسے کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا۔( تاریخ الخلفاء )
* امام ترمذی، حضرت عبدالرحمٰن بن سمرہ سے روایت کرتے ہیں کہ جس وقت حضور نبی کریم ﷺ نے جیش و عسرہ تیار فرمایا تو حضرت عثمان غنیؓ نے ایک ہزار دینار حضور نبی کریم ﷺ کی خدمت میں پیش کر دئیے۔ حضور نبی کریم ﷺ دیناروں کو الٹتے پلٹتے جاتے اور فرماتے جاتے کہ “ آج کے بعد (حضرت) عثمان غنیؓ کا کوئی ضرر انہیں نقصان نہیں پہنچائے گا۔ ( یہ بات آپ ﷺنے دو مرتبہ ارشاد فرمائی )
اللہ تعالی سے دعا ہے کہ ہمیں حضور نبی کریم ﷺ کی سیرت طیبہ کی روشنی میں صحابہؓ کرام واہلبیتؓ عظام کے اسوہ حسنہ کو اپنانے کی توفیق عطا فرمائیں۔آمین یا رب العلمین۔