پانچ سالہ” کارکردگی“
یہ سب جانتے ہیں کہ سندھ کے وزیروں اور حکمران پارٹی کے لیڈروں پر خود ان کے اپنے لوگ ملازمتیں فروخت کرنے کے الزامات عائد کرتے رہے ہیں، اس حوالے سے بعض جگہ ان کا احتجاج خود سوزی کرکے حکمرانوں کا چہرہ بے نقاب کرنے کی انتہائی حد تک جا پہنچا ۔جب کچھ ماہ قبل صوبائی کابینہ کے اجلاس سندھ کے مختلف شہروں میں ہوئے تو وہاں کے کارکنوں کے ساتھ مقامی عہدیداروں نے بھی اس حوالے سے شکایتوں کے انبار لگادیئے، مگر حیرت کی بات یہ ہے کہ 11مارچ کو وزیراعلیٰ سندھ نے اسمبلی میں اپنی حکومت کی5سال کی کارکردگی رپورٹ پیش کرتے ہوئے اس عرصے میں ایک لاکھ65ہزار افراد کو ملازمتیں دینے کی بات کو سرفہرست کارنامے کے طو رپر بیان کیا ہے، جبکہ6کھرب88 ارب روپے کے ترقیاتی کاموں کا بھی فخریہ اظہار کیا ہے۔ ان کے بقول حکومت پر تنقید کرنے والے اندھے اور بہرے ہیں۔
کاش وزیراعلیٰ سندھ اپنے بارے میں میڈیا کے تبصروں اور اپنی پارٹی کے کارکنوں کی عام رائے نہ سہی، سپریم کورٹ میں کہے گئے سرسری ریمارکس پر ہی غور کرلیتے تو انہیں تنقید کرنے والوں کو اندھے اور بہرے کہنے کی ضرورت نہ پڑتی اور نہ وہ اپنی حکومت کی5سال کی کارکردگی پر اسمبلی میں فخر کااظہار کررہے ہوتے، بلکہ ندامت کا اظہار کرتے کہ جگہ جگہ سے سرکاری ملازمتیں فروخت کئے جانے پر آوازیں اُٹھیں اور احتجاج ہوا۔ دوسری طرف ترقیاتی منصوبوں میں لاکھوں کروڑوں کے گھپلوں کی کہانی عام ہوئی۔ اگر وہ اپنی پیرانہ سالی کے علاوہ 5سال کی عدم اطمینان سے بھرپور کارکردگی کے سبب سیاست سے کنارہ کشی کا سوچتے تو اسمبلی کے فلور پر ندامت کا اظہار کرکے عوام سے معذرت خواہ ہوتے اور انہیں سچ سچ بتادیتے کہ صرف تختی ان کے نام کی لگی ہو ئی تھی، جبکہ اصلی وزیراعلیٰ کا کردار تو فلاں فلاں اور فلاں ادا کرتے رہے ہےں۔ گزشتہ دنوں ایک سندھی قوم پرست لیڈر نے کہا تھا کہ قائم علی شاہ تو بے بس اور بے اختیار ہیں، جبکہ سندھ میں تین وزرائے اعلیٰ کی حکومت چل رہی ہے۔ پھر کچھ عرصہ قبل پیر پگارو نے کہا کہ سندھ میں بھنگی کی ملازمت بھی فروخت ہوتی ہے۔
زمانہ ازل سے ہر انسانی بستی کی بنیادی ضرورت امن کے ساتھ جینے کی خواہش رہی ہے۔ وہ امن اور تحفظ کے ساتھ رہائش اور روزگار کا سب سے پہلے بندوبست کرتا ہے اور جب اسے یقین ہوجاتا ہے کہ اس بستی میں رہائش اختیا رکرتے ہوئے اس کی جان و مال کو کوئی خطرہ نہیں ہے اور وہ کھیتی باڑی، مزدوری، کاریگری اور کسی کارخانے یا دفتر میں ملازمت کرتے ہوئے بھی جان کے خطرے کا شکار نہیں ہوگا۔ وکیل ، ڈاکٹر، پروفیسر، انجینئر اور صحافی کی حیثیت سے آزادی کے ساتھ اپنی صلاحیت کے مطابق کام کرسکے گا اور بغیر کسی جرم کے کوئی نادیدہ یا نامعلوم شخص اس کی جان لینے کے درپے نہیں ہوگا، تو پھر وہ اپنے بچوں کی تعلیم، اپنے خاندان کے علاج معالجے کی سہولتوں اور اپنے زیر کفالت افراد کی ان آسائشوں کے بارے میں سوچتا ہے، جن کے خواب دیکھنا اس کا فطری حق ہے۔ پینے کے صاف پانی کی فراہمی ،گھر سے بازار، دفتر، کارخانے یا کھیت تک اچھے اور پختہ راستوں کی سہولت، بچوں کی تعلیم کے لئے مناسب تعلیمی اداروں اور خاندان کے علاج معالجے کے لئے نزدیک ہی ڈسپنسری یا ہسپتالوں کی موجودگی کے بارے میں سوچنے اور جستجو کرنے کی نوبت امن و سکون سے جینے کی ضمانت کا یقین ہونے کے بعد آتی ہے۔
گزشتہ 5سال کے دوران صرف کراچی میں ہی لا تعداد بے گناہ افراد نہیں مارے گئے، بلکہ دیہی سندھ کے ایک ایک شہر اور دیہات میں جان و مال کے تحفظ کا معاملہ سوالیہ نشان بنا رہا ۔ سینکڑوں مسافر بسوں کو لوٹ لیا گیا، بد امنی پر مختلف شہروں میں شٹر بند ہڑتالیں ہوتی رہیں، شاہراہوں پر دھرنے دیئے جاتے رہے اور کسی شہر میں بشمول کراچی، نوری آباد، کوٹری اور حیدرآباد کے صنعتی علاقوں میں قابل ذکر نئی صنعت لگنے کی اطلاع نہیں ملی۔ وزیراعلیٰ نے کارکردگی رپورٹ پیش کرتے ہوئے اسمبلی میں یہ بھی بتایا کہ محکمہ تعلیم کو اور اس کے ذریعہ تعلیم کی ترقی کے لئے 34ارب 90کروڑ روپے فراہم کئے گئے۔ صوبے میں 9 کیڈٹ کالج ،7پبلک سکول، 5لاءکالج اور125ڈگری کالج قائم کئے گئے، جبکہ ہائر ایجوکیشن کمیشن کے ذریعہ 7نئی یونیورسٹیاں قائم ہوئیں۔
شاید وزیراعلیٰ بھول گئے کہ سندھ اسمبلی میں ہی اپوزیشن ارکان کے ساتھ حکومتی ارکان نے وزارت تعلیم اور محکمہ تعلیم سندھ کو کرپشن کا سب سے بڑا کھاتہ قرار دیا تھا۔ پھر جتنے کالجوں اور یونیورسٹیوں کے قیام کا انہوں نے ذکر کیا ہے، ان کا معاملہ صرف فائلوں تک محدود ہے اور بیشتر مقامات پر کچھ بھی نہیں ہوا۔ دوسری طرف سندھ میں پہلے سے موجود تعلیمی نظام کو حکومتی مداخلت نے تباہی کے کنارے تک پہنچا دیا ہے۔ سندھ یونیورسٹی جامشورو سے شاہ لطیف یونیورسٹی خیرپور تک وائس چانسلروں کی سیاسی تقرریوں نے جو تباہی پھیری ہے، خصوصاً جامشورو میں یونیورسٹی ملازمین اور اساتذہ کے احتجاج کے سبب معمولی درجے پر بھی تعلیم کا حصول یا پُرامن تعلیمی ماحول کا قیام جس طرح مشکل بن گیا ہے اس کی داستان اخبارات کے صفحات پر موجود ہے۔
وزیراعلیٰ سندھ تو 5سال کی حکومت کے دوران اس کارکردگی کے حوالے سے بھی داد تحسین پانے کے مستحق نہیں ہےں، جس کے تحت لاڑکانہ کے الطاف انٹر، گھوٹکی کے مہر برادران اور ٹھٹھہ کے شیرازیوں جیسے بہت سے دیگر ایسے افراد کو گنگا میں اشنان کے بغیر پاک صاف ہونے کا سر ٹیفکیٹ دے کر ”پیپلائز“ کرلیا گیا جو پارٹی ورکرز کے لئے نفرت کا نشان قرار دیئے گئے تھے، کیونکہ مختلف جگہاﺅں سے ایسے افراد کی شمولیت نے حکومت کے ساتھ ساتھ حکمراں پارٹی کی رہی سہی ساکھ کوبھی شدید مجروح کیا ہے ، مگر ”اقتدار ہماری مجبوری ہے“کے فلسفے اور ”مخالفین سے مفاہمت ضروری ہے“ کے نعرے کے ساتھ سیاسی ساکھ کی پرواہ کئے بغیر ناپسندیدہ کو پسندیدہ بنانے کا سلسلہ جاری ہے، جس کی حالیہ مثال فنکشنل لیگ کے امتیاز شیخ کے بھائی اور مسلم لیگ (ن) کے پرانے خیر خواہ مقبول شیخ اور ٹھٹھہ کے شفقت شاہ شیرازی اور محمد علی ملکانی ہیں: ٭
” تھا جو ناخوب بتدریج وہی خوب ہوا“