تھرپارکر کا آنکھوں دیکھا حال

تھرپارکر کا آنکھوں دیکھا حال

  

مَیں آج 17 اگست 2003ءکو تھرپارکر کا مختصر دورہ کر کے واپس لاہور پہنچا ہوں اور آتے ہی وہاں کا آنکھوں دیکھا حال قلمبند کرنے بیٹھ گیا ہوں۔

دورے کا مقصد:یہ دورہ میں نے کنری (ضلع میر پور خاص) کی روٹری کلب کی دعوت پر روٹری کلب لاہور شرقی کا رکن ہونے کی حیثیت سے کیا تھا اور اس کا بنیادی مقصد پہلے یہ دیکھنا تھا کہ تھرپارکر میں پینے کا پانی نہ ملنے کا مسئلہ کس قدر شدید ہے اور پھر یہ مزید دیکھنا تھا کہ یہ پانی مہیا کرنے کے لئے کنری کی روٹری کلب نے ملک بھر کی روٹری کلبوں کے تعاون سے جو اصلاحی اقدام کیا ہے وہ کس قدر کارگر ثابت ہوا ہے۔

تقریب:میرے اس دورے میں میرے ساتھ روٹیرین شہزادہ کبیر احمد بھی شامل تھے جو میری روٹری کلب کے سابق صدر (P.P) ہیں۔ جبکہ میں اس کا آئندہ سال کے لئے منتخب صدر (P.E) ہوں۔ تقریب کنری کلب کے جشن ِ رفاقت بسلسلہ رین واٹر سٹوریج ٹینکس کی تھی اور اس میں شرکت کرنے کے لئے صلائے عام روٹری انٹرنیشنل کے ڈسٹرکٹ نمبر 3270(پاکستان و افغانستان) کی تمام روٹری کلبوں کو دی گئی تھی۔ لیکن پنجاب میں سے صرف میں اور میرا ساتھی شریک ہوئے۔ جبکہ صوبہ سرحد (اب خیبرپختونخوا) میں سے صرف ڈسٹرکٹ گورنر منتخب برائے آئندہ سال (D.G.E) روف روہیلا شریک ہوئے۔ بلوچستان اور افغانستان سے کوئی شریک نہ ہو سکا۔ لیکن اندرون سندھ اور کراچی سے مندوب کافی تعداد میں آئے۔ ان میں سرفہرست دو سابق ڈسٹرکٹ گورنر پی ڈی جی کرنل تنویر اور پی ڈی جی محسن تھے۔ اول الذکر نے اپنے عہد منصب کے دوران ملک بھر کی روٹری کلبوں کا دورہ کر کے ان سے کنری کلب کے پراجیکٹ کے لئے کثیر چندہ اکٹھا کیا تھا چنانچہ اس خدمت کے عوض کنری کی تقریب مذکور میں اس پراجیکٹ کے پہلے سے رکھے گئے نام میں ان کا نام شامل کر کے نیا نام پی ڈی جی کرنل این ڈی تنویر رین واٹر سٹوریج ٹینکس پراجیکٹ رکھ دیا گیا۔ موخر الذکرنے سب سے زیادہ چندہ دینے کا اعزاز حاصل کیا تھا۔

مقالے کی ترتیب:میں اس مقالے کو سفر نامے یا ڈائری کی صورت میں پیش نہیں کروں گا۔ بلکہ اس کے برعکس براہ راست تھرپارکر کی بے آب و گیاہی کے حوالے سے اس کی تاریخی،افسانوی اور جغرافیائی دردناکی بیان کروں گا اور ساتھ ہی ان اقدامات کا ذکر بھی کروں گا جو روٹری کلب کنری نے وہاں کی تشنہ لبی کو جاں بہ لبی بننے سے بچانے کے لئے کئے ہیں۔ علاوہ ازیں ساتھ ساتھ وہاں کے اس ہندو مسلم اتحاد کی تصویر کشی بھی کرتا جاﺅں گا۔ جو آج کل کے پر آشوب اور تاریک دور میں روشنی کی لکیر کی حیثیت رکھتا ہے۔

تاریخی گواہی:میٹھے پانی کی نایابی اور کڑوے پانی کی کمیابی کی تاریخی گواہی مغل بادشاہ ہمایوں کے سفر سے ملتی ہے۔ جب وہ شیر شاہ سوری سے شکست کھا کر تھرپارکر کے راستے ایران کی طرف بھاگا تو اسے یہاں پینے کا پانی نہ ملنے کی وجہ سے بہت مشکل کا سامنا ہوا۔ کئی روز کی مسافت کے بعد جب وہ ایک کنویں پر پہنچا تو کنواں اتنا زیادہ گہرا تھا کہ اس کے ڈول کی رسی کو آدمیوں کی بجائے بیل کھینچتا تھا اور ڈول باہر آ جانے کے وقت بیل اتنا دور چلا گیا ہوتا تھا کہ اس کو ہانکنے والے آدمی کو اطلاع دینے کے لئے ڈھول بجانا پڑتا تھا۔ حالات اس قدر نا مساعد تھے کہ جس نوکر کے گھوڑے پر ملکہ حاملہ ہونے کی حالت میں سوار تھی۔ وہ اپنے گھوڑے کو لے کر راتوں رات رفو چکر ہو گیا تھا۔ جب بادشاہ صحرا عبور کر کے عمر کوٹ پہنچا اور وہاں ملکہ نے اکبر کو جنم دیا تو بادشاہ کے پاس سوائے ایک نافے کے اپنے ساتھیوں میں بطور شیرینی بانٹنے کے لئے کچھ بھی نہیں تھا۔ اس نے نافے کے ٹکڑے ٹکڑے کر کے بانٹ دیئے اور ساتھیوں نے کہا کہ جس طرح اس نافے کی خوشبو چاروں طرف پھیل گئی ہے اسی طرح تمہارے بیٹے کی خوشبو بھی چاروں طرف پھیل جائے گی۔ ہمایوں بادشاہ اتنی کسمپرسی کی حالت میں تھا کہ بیٹے کو اپنے ساتھ ایران لے جانے کی تاب نہ لا سکا۔ اور مجبوراً اسے اس وقت کے ہندوستان ہی میں چھوڑ گیا۔

افسانوی گواہی:عمر کوٹ کا قلعہ (جسے میں نے دیکھا) مشہور ہے اور اس کا بانی حکمران وہی عمر ہے جو عمر ماروی کی رومانی داستان کا ولن ہے۔ عمر کے آدمی ماروی کو اغوا کر کے اس کے محل میں لے گئے تھے۔ ماروی اپنے اغوا کے وقت آبادی سے دور دراز کسی کنویں سے پانی بھر رہی تھی۔ اس لئے اس رومانی داستان کا یہ حصہ اس علاقے میں پانی کی کمیابی کا رونا روتا ہے۔ ماروی تو کسی نا کسی طرح عمر کی قید سے بچ نکلی لیکن سسی جب پنوں کی تلاش میں ایسے ہی ریگستان میں دیوانہ وار بھاگ نکلی تو بھوک اور پیاس سے نڈھال ہو کر گر پڑی اور ریت تلے دب کر مر گئی۔ نہ جانے آج کل بھی کتنی مارویاں اور سسیاں پانی ڈھونڈتی ڈھونڈتی کس کس مصیبت میں پھنس جاتی ہوں گی۔ اور انسانیت شرم کے مارے پانی پانی ہو جاتی ہو گی۔ پنجابی کا ریگستان چولستان اور ہندوستانی ریگستان راجستھان تھرپارکر کے ہمسائے ہیں اور ہم قسمت بھی۔

جغرافیائی شہادت:زمانہ حال میں تھرپارکر کی درد ناکی عذابِ مجنوں کی طرح دوہری ہے۔ عذابِ مجنوں کی کیفیت اس شعر سے واضح ہے کہ:

غرض دو گونہ عذاب است جانِ مجنوں را

بلائے صحبتِ لیلیٰ و فرقتِ لیلیٰ

(ترجمہ الغرض جانِ مجنوں کے لئے دوہرا عذاب ہے۔ لیلیٰ کی صحبت بھی عذاب ہے اور فرقت بھی عذاب ہے).... اسی طرح تھرپارکر کی دوہری مصیبت یہ ہے کہ اگر وہاں بارشیں نہ ہوں تو بے شمار انسان اور حیوان بھوک اور پیاس کے مارے مر جاتے ہیں۔ اور اگر بادل کھل کر برس جائیں تو آدمی اور جانور طغیانی میں بہہ جاتے ہیں۔ بارش سے قطع نظر ہر سال کی پوزیشن یہ ہے کہ زمین تلے میٹھا پانی 200 فٹ کی گہرائی تک بھی نہیں ہے۔ کڑوا پانی گہرے کنوﺅں میں مل جاتا ہے، لیکن وہ مضر صحت ہوتا ہے اور نہانے اور کپڑے دھونے کے لئے بھی ناقص ہوتا ہے۔ پھر بھی یہ لوگوں کے لئے غنیمت ہوتا ہے۔ اور وہ اس کے لئے ترستے ہیں۔ اس لئے ایسا پانی لانے کے لئے صبح سویرے عورتیں اپنے سروں پر دو دو گھڑے اور سات سال یا اس سے زیادہ عمر کی لڑکیاں ایک ایک گھڑا اٹھا کر دور دراز کنوﺅں کی طرف چل پڑتی ہیں، کنویں دس دس میل دور ہوتے ہیں اور اکثر ایسا ہوتا ہے کہ جس کنویں میں پچھلی شام کو پانی ہوتا ہے وہ اگلی صبح کو خشک ہو گیا ہوتا ہے۔ ایسی صورت میں پنہاریوں کو کسی دوسرے کنویں پر جانا پڑتا ہے۔ جو مزید دس میل دور ہوتا ہے۔ مقابلتاً امیر گھروں کی عورتیں گدھوں پر مشکیزے لاد کر اور ان میں پانی بھر کر اپنے گھروں کو لاتی ہیں۔ بہر حال عورتیں خواہ غریب ہوں یا پھر امیر ان کا سارا سارا دن کنویں سے پانی لانے میں لگ جاتا ہے۔ روٹیرین رفیق مرزا نے حساب کر کے کہا تھا کہ اگر کوئی لڑکی سات سال کی عمر میں پانی ڈھونا شروع کر دے تو اپنی طبعی عمر ختم ہونے تک اتنا فاصلہ طے کر لیتی ہے جتنا زمین سے چاند تک کا ہے۔ میں نے پڑتال نہیں کی لیکن میرا خیال ہے کہ اگر یہ بات واقعتاً صحیح نہ بھی ہو تو کم از کم محاورتاً ضرور درست ہے۔

اصلاحی منصوبہ بندی:اس مسئلے کو حسب توفیق حل کرنے کے لئے پہلا قدم آج سے تین سال قبل قصبہ کنری کی روٹری کلب نے اٹھایا۔ اس کے لئے اسے انگیخت روٹری انٹرنیشنل (شکاگو) کی اس ہدایت سے ہوئی کہ فلاحی سرگرمیوں کو دیہاتی علاقوں تک بڑھایا جائے اور اس کے لئے روٹری ویلج کور (آر۔ وی۔ سی) بنائی جائے۔

اس غرض کے لئے روٹری کلب نے سروے کیا اور ریسرچ بھی کی تو پتہ لگا کہ بارانی پانی کی ذخیرہ اندوزی کے سوا کوئی چارہ کار نہیں ہے۔ اس کے بعد روٹیرین پال جانسن نے پلیننگ کا کام سنبھالا۔ اس نے پہلے تو یہ پتہ کیا کہ دیگر ممالک میں جہاں جہاں اس طرح کی خشک سالی ہوتی ہے۔ بارش کے پانی کو کیسے ذخیرہ کیا جاتا ہے۔ پھر اس نے اس سروے اور ریسرچ کی روشنی میں اسلام آباد کے دو تین چکر لگا کر کسی سے رین واٹر سٹوریج ٹینک کا خاکہ بنوایا ۔ خاکہ اس طرح کا ہے کہ بارہ فٹ گہرا کنواں کھود کر اس کی گول پختہ دیواروں پر پلستر کر دیا جاتا ہے۔ نچلے سرے پر کنویں کا محیط چھ فٹ ہوتاہے۔ پھر جوں جوں اوپر آئیں یہ محیط گھٹتا جاتا ہے۔ اس کے سرے پر (جو سطح زمین سے کچھ اونچا ہوتا ہے) لوہے کا ڈھکنا لگا دیتے ہیں۔ جس پر اس کنویں کے لئے چندہ دینے والے کا نام کنندہ ہوتا ہے۔ کنویں کے اردگرد گول چبوترہ ہوتا ہے جس کی ڈھلوان ہر جانب سے کنویں کی طرف ہوتی ہے۔ بارش کا پانی اس پلستر والے چبوترے سے کنویں کی منڈیروں میں کئے گئے سوراخوں میں سے نیچے کنویں میں گر پڑتا ہے۔ اگر کنواں بھر جائے تو یہ ایک خاندان کی سال بھر کی ضروریات پوری کر دیتا ہے اور سال بھر کے لئے اس کی عورتوں کو پانی بھرنے سے رہائی دے دیتا ہے۔ تاکہ ہ کچھ عرصے کے لئے تو کہہ سکیں کہ:

بھلا ہوا مری کگری ٹوٹی

میں پنیاں بھرن سے چھوٹی

کنویں کی تعمیر کے لئے مزدور کا کام متعلقہ فیملی خود کرتی ہے اور عمارت سازی کی خدمات ایک مقامی معمار سر انجام دیتا ہے۔ لاگت تین ہزار روپے فی کنواں آتی ہے۔ اسی کنویں کو ٹینک کہتے ہیں۔ اس کنویں کی شکل کے ٹینک سے پانی چمڑے کے بوکے اور رسی کے ذریعے نکالتے ہیں۔ تعمیر کی نگرانی مقامی ناظم یونین کونسل کرتا ہے۔ جسے روٹری کلب نے آر وی۔ سی۔ بن ہار کا چیئرمین مقرر کیا ہے۔ مرمت (حسب ضرورت) اس خاندان کے اپنے ذمے ہوتی ہے۔ جس نے لیبر مہیا کی ہوئی ہوتی ہے اورجس کی ملکیت میں کنواں دے دیا جاتا ہے۔ پانی جب بھی پیئیں میٹھا اور ٹھنڈا ہوتا ہے۔ (جاری ہے)

مزید :

کالم -