اسلام ،ریاست،حکومت اور غامدی صاحب(4)

اسلام ،ریاست،حکومت اور غامدی صاحب(4)

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

ہر معاشرت ایک سیاسی نظام کے تحت ہی پنپتی ہے کسی عقیدے ہی کے تحت اپنی ساخت کو بروئے کار لاتی ہے اور اسے برقرار رکھتی ہے۔دنیا کی پوری سیاسی تاریخ میں کوئی ایک ریاست بھی ایسی نہیں گزری جو بغیر کسی عقیدے کی بنیاد کے وجود میں آگئی ہو۔ریاست کے اسلامی تصورّ سے متعلق قرآنی آیات کی ایک ہلکی سی جھلک پہلے ملاحظہ فرما لیجئے۔

کہو خدا یا ملک کے مالک تو جسے چاہے ملک دے اور جس سے چاہے چھین لے(آل عمران:26)،چور مرد اور چور عورت دونوں کے ہاتھ کاٹ دو (المائدہ:38)، غرض یہ کہ چور کے ہاتھ کاٹنے،عورتوں کو طلاق دینے،قتل کاقصاص لینے،زکوٰۃ اکٹھی کرنے،نماز قائم کرنے،لین دین کے تجارتی تعلقات وضع کرنے،وراثت کے حقوق لینے اور دینے،شادی بیاہ کے قوانین اللہ کی حدود قائم کرنے اور ان سے تجاوزنہ کرنے،اللہ کے نازل کردہ حکم کے مطابق فیصلہ کرنے اور کسی دوسرے قانون کے مطابق فیصلہ نہ کرنے،اپنے فیصلوں کو لے کر طاغوت کے پاس نہ جانے،رسول اللہ صلَّی اللہ علیہِ وَآلہٖ وسلَّم کو قرآن میں یہ حکم دینے کہ جو کچھ اللہ نے نازل کیا ہے تو اس کے مطابق لوگوں کے درمیان فیصلے کرو (المائدہ:48) اللہ کی جانب سے اپنے بندوں کوقرآن میں یوں مخاطب کرنے کہ ’’وہ کسی حکم کے معاملے میں نافرمانی نہ کریں، اللہ اور رسول ؐ کے ساتھ ساتھ اولاامر کی اطاعت کا حکم دینے(النساء:59) کسی جان کو ناحق قتل نہ کرنے،جنگی قیدی بنانے یا نہ بنانے،امانتیں اہل امانت ہی کے حوالے کرنے،لوگوں کے ساتھ عدل سے فیصلہ کرنے کا کہنے جیسے معاملات خود ہی اس بات کا اعلان ہیں کہ یہ سب چیزیں ایک سیاسی نظام کے تحت ایک ریاست ہی کے ذریعے بروئے کار لائی جا سکتی ہیں۔فطری طور پر یہ ممکن ہی نہیں کہ سیاسی سماجی معاملات میں اس قدر احکامات دیئے گئے ہوں اور ریاست کے قیام کا حکم ہی نہ دیا گیا ہو۔نہ تو اللّٰہ جلّ شانہُ سے ایسی بے معنی بات کی توقع کی جا سکتی ہے اور نہ ہی رسول اللہ صلَّی اللہ علیہِ وَآلہٖ وسلَّم سے کہ انہوں نے خدائی احکام کے بغیر ہی ایک ایسی ریاست کا وجود کھڑا کر دیا، جس کی طرز پر بعد میں آنے والے چاہیں تو ریاست قائم کر لیں چاہیں تونہ کریں (جیسا کہ غامدی صاحب کا کہنا ہے)اگر یہ سب محض شرعی احکام دے کر اسلامی ریاست کے قیام کا براہ راست حکم نہ بھی دیا گیا ہوتا تو یہ بات واضح ہے کہ یہ سب کچھ ریاست کے تحت ہی ہو سکتا ہے اور اس ریاست کو اسلامی ریاست ہی کا نام دیاجائے گا۔جسے اسلامی شرعی اصطلاح میں خلافت بھی کہا جاتا ہے،لیکن یہ تمام احکامات دے کر ریاست کے قیام کے بھی واضح احکامات دیے گئے ہیں جو قرآن میں متعدد جگہ بکھرے پڑے ہیں۔مثلاً محض ایک مثال:’’یہ وہ لوگ ہیں اگر ہم انہیں زمین میں اقتدار دیں تو یہ نماز قائم کریں گے،نیکی کا حکم دیں گے اور بدی سے روکیں گے۔(الحج:41)


پھر چودہ سو برس میں کبھی کسی گئے گزرے دور میں بھی یہ تو ہوا کہ اسلامی ریاست کے قیام کی حقیقی اور کامیاب کوشش نہ کی جا سکی ہو، لیکن یہ کبھی کسی نے نہیں کہا کہ اسلامی ریاست کے قیام کے حکم نام کی کوئی چیز قرآن و حدیث میں موجود ہی نہیں ہے نہ ہی کسی نے ابھی تک یہ ’’اجتہاد‘‘ فرمایا کہ قومی ریاستوں کے دور میں اب مقامی یا عالمی سطح پر اسلامی ریاست یا خلافت کے قیام کی ضرورت نہیں رہی۔ اگر ریاست کے قیام کا حکم نہ دیا گیا ہوتا تو پھر اسلام کے عالمگیردین ہونے،آفاقی اور قیامت تک کے لئے ہونے کے کوئی معنی ہی نہ ہوتے۔ان تمام احکامات سے متعلق آیات کو اگر الگ الگ کر کے بھی دیکھیں تو ہر آیت ایک ایسی قوس کی مانند ہے جو خود کو ایک دائرے کا حصہ ثابت کرتی ہے اور ہر قوس خود بخود یہ تعین بھی کردیتی ہے کہ جس دائرہ کا وہ حصہ ہے اس کا قطر اور محیط کیا ہے۔عدل اور انتظام کے اس دائرے کا نام ہی ریاست و حکومت ہے ۔ایک اور مثال لیجئے۔اگر کوئی شخص یہ کہے کہ وہ فصل بوتا ہے،اسے کھاد ڈالتا ہے،پانی دیتا ہے،پھر جب فصل پک کر تیار ہو جاتی ہے تو وہ اسے کاٹتا ہے،پھر اس میں سے خود بھی استعمال کرتا ہے اور بقیہ کو فروخت کر کے اس سے پیسے حاصل کرتا ہے اور اپنی دیگر ضروریات پوری کرتا ہے۔کیا کوئی کم فہم سے کم فہم آدمی بھی یہ سب کچھ سُن کر یہ سوال اُٹھا سکتا ہے کہ ان سارے کاموں میں زمین کا تو ذکر ہی نہیں ہے۔غامدی صاحب اپنے مضمون میں قومیت پر بحث کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ’’اسلام میں قومیت کی بنیاد اسلام نہیں ہے۔قرآن و حدیث میں کسی جگہ مسلمانوں کو ایک قوم نہیں کہا گیا۔۔۔مسلمانوں کے درمیان رشتہ قومیت کا نہیں اخوت کا ہے۔۔۔(اِسی اخوت کے رشتے کے تحت)انہیں چاہئے کہ وہ اپنے بھائیوں کے حالات سے با خبر رہیں، ان کی مصیبتوں اور تکلیفوں میں ان کے کام آئیں،مظلوم ہوں تو ان کی مدد کریں۔۔۔‘‘


بلاشبہ مسلمان ایک قوم کا نام نہیں، کیونکہ موجودہ دور میں قوم کا لفظ جنگ عظیم دوم کے بعد کی سیاسی اصطلاح ہے۔جب جغرافیے کی بنیاد پر قومی ریاست وجود میں آئی تو اس نے ہماری خلافت عثمانیہ کی وحدت کو پارہ پارہ کر دیا (اگرچہ وہ بے شمار خرابیوں کا مرکز رہی ہو، لیکن مسلمانوں کی ایک سیاسی وحدت بہر حال تھی جس کی خرابیوں کو دور کرنے کا طریقہ محض یہی نہیں تھا کہ اسے توڑ دیاجائے)
غامدی صاحب مسلمانوں کے لئے ’’قومیت‘‘کے لفظ کو تو بجا طور پر رد کرتے ہیں، لیکن حیرت ہے کہ غامدی صاحب ’’قومیت‘‘کے مقابلے میں ’’اخوت‘‘کی اصطلاح لاتے ہیں جو بلاشبہ ہے تو قرآنی اصطلاح، لیکن اسے ’’قومیت‘‘کے مقابلے میں لانے کی مجبوری اس وقت پیش آسکتی تھی جب اس سے زیادہ جامع اور ہمہ گیر اصطلاح ’’اُمت ‘‘کے نام سے قرآن و حدیث میں موجود نہ ہوتی۔کسی عام سے مسلمان کو بھی ’’قوم‘‘کے مقابلے میں فوراًہی’’اُمت‘‘کا لفظ سوجھ جائے گا۔لفظ ’’اُمت‘‘سے اجتناب کرنے کی کوئی اور وجہ اس کے سوا سمجھ میں نہیں آتی کہ یہ لفظ مسلمانوں میں کسی طرح کی ایک سیاسی وحدت کی عکاسی بھی کرتا ہے،جبکہ ’’اخوت‘‘کے بھائی چارے کو غامدی صاحب ایک دوسرے کا خیال رکھنے ،محبت کرنے،مصیبتوں تکلیفوں میں کام آنے،صدقہ و خیرات کے ذریعے مالی مدد وغیرہ کرنے کے اخلاقی معاشرتی معاملات تک محدود رکھنا چاہتے ہیں، جن کی نوعیت زیادہ تر غیر سیاسی دائرہ کار کا احاطہ کرتی ہے،جبکہ مسلمانوں کو اُمت کے لفظ سے پکار کر تو قرآن قدرے طاقت کے استعمال کی دعوت بھی دیتا ہے۔’’تم اب دنیا میں وہ بہترین اُمت ہو جسے انسانوں کی ہدایت اور اصلاح کے لئے میدان میں لایا گیا ہے۔ تم نیکی کا حکم دیتے ہو،بدی سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو۔(آل عمران:110)
کیا ’’اُمت‘‘کی جگہ ’’اخوت‘‘کا لفظ لانے کی مشقت اُٹھانے کی وجہ یہ ہے کہ ’’اخوت ‘‘کے بھائی چارے کو محض اُس ’’بے ضرر‘‘سے دائرے تک محدود رکھا جا سکتا ہے، جس پر سیکولر مغرب کو بھی کوئی اعتراض نہیں ؟ جبکہ ’’اُمت‘‘کے لفظ سے ایک ایسی ذمہ دار سیاسی وحدت کی عکاسی ہو سکتی ہے جسے جہاد و قتال کے حکم کا سامنا بھی کر ناپڑ سکتا ہے۔’’آخر کیا وجہ ہے کہ اللہ کی راہ میں ان بے بس مردوں،عورتوں اور بچوں کی خاطر نہ لڑو جو کمزور پا کر دبا لئے گئے ہیں اور فریاد کر رہے ہیں کہ خدایا ہم کو اس بستی سے نکال جس کے باشندے ظالم ہیں اور اپنی طرف سے ہمارا کوئی حامی اور مدد گار پیدا کر دے۔ (النساء:75)
مَیں نے ایک مسلمان کہلوانے والے پاکستانی سیکولر دانشور کو ایک مذاکرے میں یہ کہتے سُنا کہ اسلام میں اُمت کا کوئی تصور نہیں۔موصوف نے یہ بھی فرما ڈالا کہ پاکستان میں بھی ایک کی بجائے چار قومیں رہتی ہیں۔گویا اس جدید ذہن کوتقسیم ہونے کا اس قدر شوق ہے کہ ایک جغرافیائی سیاسی وحدت میں رہنے والوں کو ایک قوم سمجھنا بھی اِسے گوارا نہیں۔


غامدی صاحب اگر چہ اپنے مضمون کو اسلام کے صحیح فکر کا جوابی بیانیہ قرار دیتے ہیں، لیکن ان کی فکر کا کوئی ایک پہلو بھی سیکولر ازم کی مذمت نہیں کرتا۔کیاکوئی فکر بیک وقت سیکولرازم اور اسلام کی ترجمان بھی ہو سکتی ہے؟ جو لوگ انہیں سیکولرازم کا ترجمان ہونے کا طعنہ دیں گے ان کا لازماً الزام یہی ہو گا کہ غامدی صاحب سیکولرازم کے داعی کی حیثیت سے یہ خدمات انجام نہیں دے سکتے تھے، اس لئے انہوں نے اسلامی مفکرین کی صف میں کھڑے ہوکر سیکولرازم کے نظریات کا تحفظ کیا تاکہ انہیں اسلامی فکر کا ترجمان سمجھ کر ان کے ان نظریات کو اسلامی فکر کے طور پر قبول کر لیا جائے، جو دراصل سیکولرازم کے نظریات ہیں۔


ریاست کو کسی مذہب سے منسوب کرنے کو وہ ’’ایسا فساد تصور کرتے ہیں، جس کے بارے ان کا کہنا ہے کہ اس سوچ نے اس زمانے کی قومی ریاستوں میں مستقل تفرقے کی بنیاد رکھ دی۔گویا جن قومی ریاستوں نے ہماری خلافت، یعنی خلافت عثمانیہ کی وحدت کو پارہ پارہ کر دیا اس کا افسوس کرنے کی بجائے غامدی صاحب کو ان قومی ریاستوں کے وجود کی بقا کی فکر لاحق ہے جن کی وجہ سے ہمارے تصور اُمت پر ضرب پڑی اور ہماری سیاسی وحدت کا وجود بھی بکھر گیا ۔کیا اب اسی پر اکتفا کر لیا جائے؟جب اسلام کی عظمت رفتہ کی بحالی کی بات ہو گی تو اس کی شان و شوکت کے جلال وجمال کا اظہار خود بخود ایک وسیع تر اسلامی ریاست کے تصور اور اس کے قیام کے ساتھ وابستہ ہوگا۔دُنیا کی ہر تہذیب اپنی فکر ی ، نظریاتی اور اخلاقی قوتوں کا اظہار ریاست ہی کے ذریعے کرتی ہے۔ان موضوعات پر موٹی موٹی کتابیں تحریر کر کے نہیں۔


اسلامی فکر و دانش کے حاملین جب بھی مسلمانوں کے جلال و جمال کے چھن جانے کے اسباب پر غور کریں گے، تو وہ اس وسیع تر اسلامی ریاست کے انتشار کے اندرونی اسباب کے ساتھ ساتھ ان بیرونی عوامل کا جائزہ بھی لیں گے، جن کے باعث اندرونی کمزوریوں اور خلفشار نے دشمن کو کامیاب اور ہمیں ناکام کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔اندرونی عوامل تو ایک الگ موضوع ہے لیکن بیرونی عوامل کے جائزے میں مغرب کی اُٹھان اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والا کا لونیل ازم،سرمایہ دارانہ نظام،مغربی طرز جمہوریت و حکمرانی اور قومی ریاست کا جدید تصور اس کے اہم اجزاء کے طور پر دیکھے جائیں گے۔مسلمانوں کی وسیع ترسیاسی وحدت کے خواب کو تعبیر کی منزل تک پہنچانے میں انہی عوامل کو رکاوٹ کے طور پر شناخت کیا جائے گا۔حیرت کی بات ہے کہ غامدی صاحب کی فکر مسلمانوں کے وسیع تر سیاسی اتحاد کی راہیں تلاش کرنے کی بجائے انہی قومی ریاستوں کو تحفظ دینے کی سبیل میں سرگرداں ہے جو حل کا نہیں ، مسئلے کا حصہ ہیں۔(جاری ہے)

مزید :

کالم -