جنات کا غلام۔۔۔گیارھویں قسط

Mar 17, 2016 | 05:09 PM

شاہد نذیر چودھری

معروف صحافی اور محقق ’’شاہد نذیر چوہدری ‘‘ کی اپنے سحر میں جکڑ لینے والی تحقیق پر مبنی سچی داستان ’’جنات کا غلام ‘‘

دسویں قسط پڑھنے کے لئے کلک کریں

میں واپس ہوا اور ٹاہلی والی سرکار کے پاس جا بیٹھا۔ اس نے پوٹلی کھولی اور روٹی اور گھی شکر میرے سامنے رکھتے ہوئے بولا ”لے کھا رے۔ اپنے لئے اور میر ے لئے روٹی اور گھی شکر بانٹ لے جو تیرا من کرتا ہے وہ تو لے لے اور جو میرے لئے بہتر سمجھتا ہے مجھے دے دے۔“
میں اس کی بات سن کر مخمصہ میں مبتلا ہو گیا۔ معاً مجھے پیر ریاض شاہ کی بات یاد آ گئی۔ اس نے کہا تھا کہ وہ ملنگ جو کہے اس پر عمل کرنا۔
میں نے کہا ”سرکار میرا تو پیٹ بھرا ہوا ہے۔ آپ ہی کھا لیں سب آپ کے لئے لایا ہوں“
”سوچ لے .... بھوک نہیں ہے تو بے شک نہ کھا۔ تو نہ کھائے گا تو تیرا کیا جائے گا۔ میں بھوکا ہوں۔ کھا لوں گا تو میری بھوک ختم ہو جائے گی“
وہ بابا معنی خیز انداز میں بولا
”سرکار .... میں آپ کے لئے ہی تو لایا ہوں“ میں نے عاجزی سے کہا
”سوچ پھر سوچ .... اگر تو چاہے تو یہ گھی شکر رکھ لے اور سوکھی روٹی مجھے دے دے“
میں نے جب دیکھا کہ وہ مجھ سے کھانا تقسیم کرانے پر بضد ہے تو میں نے کہا ”اچھا تو سرکار ایسا کریں .... یہ سوکھی روٹی مجھے دے دیں گھی شکر آپ کھا لیں“
یہ سن کر اس کے چہرے پر ہلکا سا تبسم ابھرا“ ترا پیٹ تو بھرا ہوا ہے سوکھی کھا لے گا تو تجھے فرق نہیں پڑے گا۔ میں شکر گھی کھاﺅں گا تو میرے اندر بھی طاقت آئے گی لے اب اپنا حصہ اٹھا اور جا۔ تری پیشی ہونے والی ہے“ میں نے سوکھی روٹی ہاتھ میں لی اور پھر ایک لقمہ لینے کے بعد اسے جیب میں ڈال لیا کہ اسے بعد میں کھا لوں گا۔ ٹاہلی والی سرکار کی ان باتوں کی مجھے کوئی سمجھ نہیں آئی۔ لیکن جب میں عدالت میں پہنچا اور جج نے میرے کیس پر جو فیصلہ سنایا اسے سنتے ہی میرے ذہن میں اس بابے کی باتوں کی حقیقت سمجھ میں آ گئی۔
جج نے فیصلہ سناتے ہوئے کہا تھا ”ملک صاحب آپ بڑے زمیندار ہیں اور آپ کو اللہ نے کسی قسم کی کمی نہیں دی۔ یہ بھاگاں بی بی کا رقبہ ہے ہی کتنا۔ آپ اسے اپنی زمینوں میں شامل کیوں کرنا چاہتے ہیں۔ اگرچہ گواہوں اور شہادتوں کے بعد فیصلہ آپ کے حق میں جاتا ہے لیکن جب آپ قانون قدرت کو دیکھتے ہیں اور انسانی بھلائی کا سوچتے ہیں تو آپ کو فیصلہ ایسا کرنا چاہئے جو بھلائی کا ہو۔ بھاگاں بی بی اپنے بچوں کی کفیل ہے۔ اس زمین سے اس کو روکھی سوکھی ملتی ہے۔ آپ اگر اس کی زمینوں کو آزاد کر دیں اور اس کو نہری پانی بھی ملنے دیں تو اس کی یہ زمین آباد ہو جائے گی۔ آپ خوشحال ہیں لیکن یہ تنگ دست عورت ہے۔ آپ ہی اس کا سہارا بنیں اور اس کی زمینوں کو آزاد کر دیں۔ یہ بے چاری بھی اپنی بھوک مٹا لے۔ آپ کا تو پیٹ بھرا ہوا ہے“ جج کا آخری جملہ سن کر میں بھونچکا رہ گیا۔ میرا ہاتھ بے اختیار جیب میں گیا اور سوکھی روٹی کو سہلاتے ہوئے میں سوچنے لگا ”ٹالی والے بابے نے بھی تو یہی کہا تھا“ میں خاموش نظروں سے جج کا چہرہ دیکھتا رہا۔ اگرچہ اس نے فیصلہ لکھ دیا تھا لیکن پھر بھی وہ مجھ سے انسانی ہمدردی کی توقعات کی خاطر اخلاقی مدد مانگ رہا تھا۔ اور میں بھاگاں بی بی اور اپنے مقدمے کے بارے سوچنے لگا۔ یہ ہے بھی حقیقت بیٹے۔ بھاگاں کی زمین نہر سے اندر ہماری زمینوں کے بیچ میں ہے۔ دو ایکڑ زمین کے اس رقبہ کی کاشت کاری اور زرخیزی کا راستہ ہماری زمینوں سے ہو کر گزرتا تھا اور اپنی زمینوں کی ہریالی کی خاطر وہ مجھے باقاعدہ حصہ دیتی تھی۔ کئی سال پہلے جب اس کا شوہر زندہ تھا اور اس نے مجھ سے دشمنی مول لے لی تھی تو اشتمال کے دنوں میں پٹواری‘ گرداور اور تحصیلدار سے مل کر میں نے اس کے رقبہ میں ردوبدل کرا دیا تھا جس کے بعد وہ بیچارے میری زمینوں کے جال میں پھنس کر رہ گئے تھے۔ ان کی اپنی زمین نہر کے کنارے پر تھی لیکن اشتمال کے بعد وہ زمین میری ہو گئی تھی اور ان کا رقبہ ایک میل اندر میری ان زمینوں میں آ گیا تھا جو زیادہ آباد نہیں تھیں لیکن بھاگاں بی بی نے دن رات کی مشقت کے بعد اپنی زمینوں کی خاطر میری زمینوں کو بھی آباد کر دیا تھا۔ میری اس کے شوہر سے دشمنی تھی لیکن اس کے انتقال کے بعد جب بھاگاں بی بی پر اس کے بچوں کی کفالت کی ذمہ داری پڑی تو میں نے کئی بار سوچا کہ اسے اس کا اصلی حصہ دے دوں۔ لیکن میری زمینداری ہمیشہ آڑے آتی۔ دل مانتا تھا کہ میں نے اسکا حصہ غصب کیا ہے مگر زبان سے تو نہیں کہتی تھی۔ اس کے شوہر نے پچھلے پانچ سال سے یہ مقدمہ کیا تھا اور آج خلاف توقع جج اس کا فیصلہ سنا رہا تھا۔ فیصلے کی تاریخ پچھلے ایک سال سے لٹکی ہوئی تھی۔ دیوانی مقدمات کا یہی تو معاملہ ہوتا ہے۔ چلے تو کئی پشتوں تک اور اگر زور لگا لیا تو ایک نسل میں بھی ختم ہو سکتا ہے۔ میں نے جج کی بات سے اکتفا کیا اور جیب سے سوکھی روٹی کو تھتپھاتے ہوئے ٹاہلی والی سرکار سے ملنے چلا گیا۔ مجھے دیکھ کر اس کے لبوں پر مسکراہٹ تیرنے لگی۔
”تو نے خود فیصلہ کیا تھا اب کوئی پچھتاوا تو نہیں ہو رہا“ اس نے کہا تو میں نے جواب دیا
”سرکار .... یہ فیصلہ درست ہوا ہے بھاگاں کا حق بنتا ہے اور میں اسکو اسکا حق دوں گا“
”تو کھرا انسان ہے لیکن کبھی کبھی اتھرے گھوڑے کی طرح مچل جاتا ہے۔ اپنے آپ کو قابو کرنا اور دوسروں پر شک کرنا چھوڑ دے۔“ اس نے کہا ”لیکن ایک بات ذہن میں رکھنا آئندہ مجھ سے ملنے نہ آنا۔ میں اپنی ریاست میں شور پسند نہیں کرتا“ یہ کہہ کر اس نے چہرہ میری طرف سے بدل لیا اور میں سوکھی روٹی لے کر تانگہ تلاش کرنے لگا تو وہی صبح والا کوچوان تانگہ دوڑاتا ہوا میرے پاس آ گیا۔
”آئیں جناب آپ کو لے جاﺅں“ اس کے چہرے پر جوش ابھی تک نمایاں تھا ”آئیے سرکار .... آپ بیٹھیں۔ میں ٹاہلی والی سرکار کو نذر نیاز کر آﺅں“۔ اس نے مٹھائی سے بھرا ہوا ایک ڈبہ پکڑا اور شیشم کے درخت کی طرف بھاگ گیا۔ میں تانگے پر بیٹھ کر سوکھی روٹی نکال کر کھانے لگا۔ اس کی اپنی لذت تھی۔ ملنگ اور دیہاتی سوکھی روٹی کھانے میں بڑی راحت اور لذت محسوس کرتے ہیں۔ میں بھی تو دیہاتی ہوں لیکن زمیندار ہونے کی وجہ سے سوکھی روٹی نہیں کھاتا۔ میں نے جب روٹی کھا لی تو مجھے بے تحاشا لذت محسوس ہوئی۔ تھوڑی ہی دیر بعد کوچوان واپس آیا تو اس کے حواس اڑے ہوئے تھے۔
”سرکار غائب ہو گئی ہے“ وہ پھولی سانسوں کے ساتھ کہنے لگا۔
”ابھی تو ادھر ہی تھا“ میں نے کہا
”میں نے ساری جگہیں دیکھ ڈالی ہیں۔ لیکن وہ ملے ہی نہیں وہ جگہ دیکھ کر لگتا ہے جیسے وہاں کوئی صدیوں سے نہیں بیٹھا ہو گا حالانکہ میں پچھلے ایک مہینے سے انہیں وہاں دیکھتا آ رہا ہوں“ کوچوان پریشان ہو کر سوچنے لگا پھر خود ہی سر دھنتے ہوئے بولا ”اللہ کی اللہ جانے .... اس نے ہی بلایا ہو گا تو چلے گئے۔ یہ اللہ کے بندے بھی پرندے ہوتے ہیں۔ ڈال ڈال پر بیٹھتے ہیں اور پھر چل دیتے ہیں۔ میں تو سرکار کے لئے دھنی کی دکان سے لڈو لے کر آیا تھا۔ ان کی دعا سے آج میرا پرائز بانڈ لگ گیا ہے۔ سو روپے کا پرائز بانڈ میں نے پچھلے دو سال سے سنبھال کر رکھا تھا جناب لیکن آج میرا دس ہزار کا پہلا انعام نکلا ہے۔ یہ سب ٹاہلی والی سرکار کی نظر سے ہوا ہے ۔خیر۔۔“ وہ تانگے پر سوار ہوا ”۔۔۔اب تو میں سرکار کے نام کا چڑھاوا چڑھاﺅں گا۔ میں بڑا پریشان تھا جناب۔ ایک ہفتے بعد میری بچی کی شادی تھی۔ اس کے ہونے والے سسر نے کہہ رکھا ہے کہ سو بندوں کا کھانا تیار رکھنا۔ میں بڑا پریشان تھا جناب لیکن اب پریشان نہیں ہوں۔ اللہ نے اپنے نیک بندے کے ذریعے مجھ پر عنایت تو کی“
کوچوان راستے بھر بولتا رہا۔ میں ہوں ہاں اور کبھی اثبات میں سر ہلا دیتا۔ دراصل میں نے زندگی بھر کبھی ایسے لوگوں سے واسطہ نہیں رکھا تھا۔ کسی دربار پر نہیں جاتا تھا کسی پیر فقیر پر اعتبار نہیں آتا تھا لیکن جب سے پیر ریاض شاہ او ر بابا جی سرکار سے واسطہ پڑا تھا میرے ذہن میں تبدیلیاں آنے لگی تھیں۔ میں گم صم سا رہنے لگا ایک بے نام سا اضطراب کہہ لو یا بے بسی۔ میرا خیال ہے بے بسی اور بے کسی مناسب ہے۔ پہلے میں سمجھتا تھا کہ یہ سب عقیدت کا کمال ہے۔ روحانیات کے درجات کو پہنچے لوگوں کی نظر کمال کا اثر ہے۔ لیکن اب ہوش آ رہا ہے کہ یہ سب دکھاوا اور ڈھونگ ہے۔ اسرار اور شرافت کے لبادے میں یہ لوگ نہایت گھناﺅنے اور بدمعاش ہیں۔ میں تو دو دنوں میں اس ریاض شاہ کی حقیقت کو پہچان گیا ہوں لیکن پتر جی لوگ برسوں گزار دیتے ہیں اور اندھی عقیدت میں مست رہ کر اپنا سب کچھ برباد کر دیتے ہیں۔ دنیا اچھے لوگوں سے بھی بھری ہوئی ہے پتر۔ مگر یہ شیطان مت مار دیتا ہے بندے کی۔ میرے بزرگ کہا کرتے تھے شیطان نیکی کی آڑ میں جب بہکاتا ہے تو اچھے بھلے لوگ گمراہ ہو جاتے ہیں۔
چاچا جی .... آخر کون سی بات ہو گئی ہے کہ آپ بابا جی اور پیر ریاض شاہ کے روحانی درجات کو تسلیم نہیں کرتے“ میں نے ان کی طویل گفتگو کے بعد سوال کیا
”آہ بیٹا“ وہ تاسف سے اپنی مٹھیاں بھینچ کر بولے ”میں نے انہیں پہچان لیا ہے بیٹا۔ میں آج صبح قرآن شریف پڑھ رہا تھا تو میں نے آیات کا ترجمہ پڑھتے ہوئے غور کیا کہ اللہ تعالیٰ نے خود فرمایا ہے کہ میرے سچے بندے صرف وہی لوگ ہوں گے جو اس کی اطاعت ،عبادت کے حق سے ادا کرتے ہیں۔ لیکن پتر جسے تم روحانی بزرگ سمجھتے ہو اور اس سے کائنات کی ایسی مخلوق وابستہ ہو جو کسی کو نظر نہیں آتی لیکن وہ مخلوق اس سے محبت کرتی ہو تو پھر ایسے شخص کو ولی اللہ ہی کہنا چاہئے ناں۔ لیکن وہ شریعت کے مطابق کام نہیں کرتا۔ بیٹے یہ شریعت ہی نیک و بد میں تمیز سکھاتی ہے۔ جو پیر یا روحانی شخصیت نماز اور قرآن سے تعلق نہیں رکھتی میں اسے کسی طور پر عظیم ہستی نہیں سمجھتا۔ میرا خیال ہے کہ پیر ریاض شاہ کے پاس کچھ ایسے علوم ہےں جو اس نے کسی سے سیکھ لئے ہیں اور اس نے جنات کو قابو کر رکھا ہے لیکن اس نے اپنی شخصیت کو روحانی بزرگ کے ایک روپ میں قید کر لیا ہے تاکہ لوگ اس پر شک نہ کریں۔
میرے بیٹے،تم کیا سمجھتے ہو میں بے وجہ اس کے خلاف ہو رہا ہوں۔ ہاں ابھی میں بے بس ہوں۔ مجھے ان لوگوں کی اندھی عقیدت نے باندھ رکھا ہے۔ بابا جی سرکار کا روپ میرے لئے بھی باعث کشش ہے مگر اس کی اصل حقیقت کیا ہے فی الحال میں اس پر کچھ نہیں کہہ سکتا۔ وہ قرآن پڑھتے درود شریف کا ورد کرتے نعت رسول کی محافل سجاتے ہیں۔ مجھے ان کی بزرگی اور اعمال پر شک نہیں کرنا چاہئے۔ لیکن بیٹے ان کے اس عمل کو کیا کہیں گے جو انہوں نے میری نیک پارسا بیٹی زلیخا کے ساتھ کیا ہے“
”کک .... کیا کیا ہے“ زلیخا کا نام سنتے ہی میرے اندر اتھل پتھل ہونے لگی،”میں کچہری سے جب واپس آیا تھا تو رضیہ نے مجھے یہ کہا کہ بابا جی زلیخا کی شادی پیر ریاض شاہ کے ساتھ کرنا چاہتے ہیں۔ یہ سنتے ہی میرے ذہن کو دھچکا لگا۔ اس سے قبل کہ میں کچھ کہتا ریاض شاہ میرے پاس خود چل کر آ گیا۔
”زلیخا کو بابا جی نے اپنی بیٹی بنا لیا ہے ملک صاحب۔ وہ چاہتے ہیں کہ میں زلیخا سے شادی کر لوں“ اس کی آنکھوں میں ہوس ناک چمک تھی۔ اس کی بات سن کر میری کن پٹیاں سلگنے لگیں۔ وسوسے وہم نفرتیں سب عیاں ہو گئیں اور عقیدتیں ننگی ہو کر ناچنے لگیں۔
”تو یہی چاہتا تھا ریاض شاہ اور اس کے لئے تم نے یہ کھیل کھیلا“ میں نے کہا ”لیکن میں اپنی معصوم اور بھولی سی بچی کی شادی تم سے نہیں کر سکتا۔“
”زلیخا تیار ہے ملک صاحب“ رضیہ جلدی سے بولی ”وہ کہتی ہے کہ بابا جی جیسے کہیں گے میں ویسے کروں گی“ یہ کہہ کر چاچا جی خاموش ہو گئے۔ ایک کرب بے پناہ تھا جو ان کے چہرے پر عیاں تھا اور ایک حشر برپا ہو رہا تھا میرے اندر .... زلیخا .... پیر ریاض شاہ سے شادی کر لیتی تو میں .... کس کی آس پر یہاں آتا۔ حویلی میرے لئے کیسے بنی سنوری رہ سکتی تھی۔ میری خاموش چاہت کا آبگینہ یوں ٹوٹ جائے گا اور مجھے اسے سنبھالنے کا موقع بھی نہیں ملے گا،میں نے یہ نہیں سوچا تھا۔
٭٭٭


انسان کتنا بے اختیار ہوتا ہے ۔اگر اسے اس بات کا احساس ہو جائے اپنی کم مائیگی، بے وقعتی کا یقین ہو جائے تو وہ امیدوں کی دہلیز پر کھڑے ہو کر ارمانوں کے محلات میں داخل ہوتے وقت ایک بار تو سوچنے لگے۔ لیکن ایسا کم ہی ہوتا ہے ۔انسان سوچتا رہتا ہے بے شک اسے اس کی سوچوں کے مطابق کچھ بھی نہ ملے۔ لیکن بے اختیار سوچوں اور ارمانوں کے پنڈولم میں لٹکتے لٹکتے ہی اس کی عمر کا ایک قیمتی عرصہ گزر جاتا ہے ۔
چاچا جی نے زلیخا اور پیر ریاض شاہ کی شادی کے بارے میں بات کر کے مجھے طوفانوں کی نذر کر دیا تھا۔ میں جو ابھی چاہتوں کا آشیانہ بنا رہا تھا وہ تندو تیز اندھیروں اور جھکڑوں میں تہ وبالا ہو رہا تھا۔
”چاچا جی ....میں حیران ہوں زلیخا کیسے مان گئی؟“ میں نے افسردہ اور حیران نظروں سے ان کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا۔
”میں بھی حیران تھا پتر جی کہ زلیخانے اس پا جی سے شادی کا اقرار کیسے کر لیا وہ حقہ کی نے ہاتھ میں تھامتے ہوئے کچھ دیر کے لئے خلاﺅں میں گھونے لگے”میرا خیال ہے بلکہ مجھے یقین ہے پتر جی۔ریاض شاہ اور اس کے بابا جی نے زلیخا پر جادو کر دیا ہے “
”چاچاجی.... میں ان پیروں فقیروں کو نہیں مانتا۔پیر اور فقیر وہی ہے جو شریعت اور روحانیت کی اصل روح کے مطابق زندگی گزارے۔ باقی تو کاروباری لوگ ہیں۔لیکن آج رات کو میں نے جو مناظر دیکھے ہیں اس کے بعد میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ پیر ریاض شاہ دوسرے بہت سے پیروں سے مختلف ہے ۔اس کے پاس جنات کی طاقت ہے۔اگر میں نے اپنی آنکھوں سے نہ دیکھ لیا ہوتا تو شاید میں نصیر کی باتوں پر یقین نہ کرتا۔اب آپ نے جس مسئلہ کی طرف نشاندہی کی ہے اس کا حل تلاش کرنا بہت مشکل ہو گا“میں نے کچھ سوچتے ہوئے مگر الجھے ہوئے انداز میں پوچھا ”آپ اتنا سب کچھ جاننے کے باوجود ابھی بھی اس محفل سے اٹھ کر آرہے ہیں“۔
”مجبوری سے پتر جی مجبوری“حقہ گڑ گڑاتے ہوئے انہیں کھانسی کا دورہ پڑ گیا اور وہ کافی دیر تک کھانستے اور ہانپتے رہے۔ میں اٹھا اوران کے لئے پانی کا گلاس لایا۔ یہ کھانسی کی شدت تھی یا سینے میں اٹکے طوفانوں کی شدت کہ ان کی آنکھیں پانی سے بھر گئیں۔ پانی پی چکنے کے بعد بولے”میں اگر بابا جی کی محفل میں نہیں بیٹھوں گا تو وہ جو چاہیے کر سکتے ہیں۔انہیں کم از کم اس وقت میرا خیال تو ہوتا ہے۔“
”اس سے کیا فرق پڑتا ہے چاچاجی“ میں نے کہا ”اگر اس کے ذہن پر شیطان سوار ہے تو وہ آپ کے جانے کے بعد بھی کچھ کر سکتا ہے ۔وہ آپ کو اپنی طاقتوں سے بے بس بھی تو کر سکتا ہے “۔
”ہاں کر سکتا ہے “چاچا جی شکستہ خاطر ہو گئے او رچار پائی کی ٹیک سے سرٹکا کر زیرلب کچھ بولتے رہے نہ معلوم اس وقت وہ کیا کہنا چاہتے تھے لیکن ان کے چہرے پر آزردگی اور بے بسی دیکھ کر احساس ہوتا تھا کہ ایک طاقتور اسنان پر جب زوال آتا ہے تو بے کسی کا ہتھوڑا اس کے کلیجے کو کیسے پیستا ہے۔اپنے علاقے کے طاقتور ترین زمیندار کو اس کے اپنے ہی گھر میں اس قدر مجبور اور مقہور دیکھ کر مجھے رحم آرہا تھا اور میں سوچ رہا تھا کہ میں ان کی مدد کیسے کر سکتا ہوں۔ سچ تو یہ ہے کہ مجھے خود بھی خوف محسوس ہو رہا تھا۔کچھ دیر پہلے ہی تو میں نے بابا جی جیسی پر اسرار مخلوق کے درشن کئے تھے۔ یہ کوئی گماں آمیز صورتحال نہیں تھی میں نے جیتی جاگتی آنکھوں اور اپنی پوری حسیات کے ساتھ بابا جی کو دیکھ کر اور محسوس کیا تھا پھر میں کیسے ان کے وجود کی حقیقت سے انکار کر سکتا تھا۔چاچا جی خود بھی بابا جی کے وفود کی حقیقت سے آشنا تھے۔ اگر ان پر بیٹی کی عزت کا سوال نہ آتا تو یقیناً وہ اس کیفیت سے دو چار نہ ہوتے۔وہ زلیخا کو پیر ریاض شاہ سے محفوظ رکھنا چاہتے تھے لیکن زلیخا اور اس کی والدہ دونوں ہی اس شادی پر تیار تھے۔
”آپ کو آرام کرنا چاہیے“ میں نے چاچا جی سے کہا”مجھے یقین ہے اللہ تعالیٰ آپ کو کسی بڑی مشکل میں نہیں ڈالے گا“۔
”پتر جی“ وہ دکھ سے بوجھل آنکھوں کے ساتھ مجھے دیکھتے ہوئے پوچھنے لگے”کیا تم میری مدد کر سکتے ہو“۔
”جی چاچا جی....کہئے میری جان بھی حاضر ہے“میں نے کہا”آپ جیسے شفیق انسان کے لئے اپنی جان قربان کرتے ہوئے مجھے دکھ نہیں ہو گا“۔
”تم زلیخان کو سمجھاﺅ.... میں اسے سمجھا چکا ہوں“ وہ آہستگی سے بولے ”مجھے یقین ہے وہ تمہاری لاج رکھ لے گی“۔
”میری لاج“ میں نے سوچا جو بیٹی اپنے باپ کی لاج نہ رکھ سکی وہ میری لاج کیسے رکھ سکتی تھی۔ میرا اس کے ساتھ رشتہ ہی کیا تھا۔ کس بھروسے پر اس کو سمجھاتا۔ اگر میں اسے سمجھانے کی کوشش کرتا تو ممکن ہے وہ مجھے برا بھلا کہہ دیتی۔ میری اس کے سامنے حیثیت ہی کیا تھی۔ لازمی تو نہیں تھا وہ اپنے اور میرے خاموش رشتے کوتسلیم بھی کرتی ہو۔ میں کسی خوش فہمی میں بھی مبتلا نہیں رہنا چاہتا لیکن کوئی دوسرا راستہ بھی نہیں تھا۔ میرے پاس کوئی ایسی طاقت بھی نہیں تھی کہ پیر ریاض شاہ کو اس کے زور پر روک دیتا یا بابا جی کو قائل کر سکتا؟ لیکن ایک اضطراب ہیجان اور برہمگی تھی جو میرے اندر لاوے کی صورت ابلنے لگی تھی۔
میں نے چاچا جی کو تسلی دی اور انہیں کہا کہ وہ آرام سکون سے سوجائیں میں کوئی راستہ تلاش کرتا ہوں۔ایک بھٹکے ہوئے انسان کو جب اپنا ہی راستہ معلوم نہ ہو تو وہ دوسروں کے لئے راستے کیسے تلاش کر سکتاہے۔ لیکن دوسروں کے زخموں کے اندر مال کے لئے یہ تسلیاں تو دینی ہی پڑتی ہیں۔
میں چاچا جی کے کمرے سے نکلنے ہی لگا تھا کہ نصیر ادھر آگیا۔
”تم ادھر کیا کررہے ہو۔ ادھر آجاﺅ ۔بابا جی سرکار بلارہے ہیں“ اس کے چہرے پر اشتیاق تھا۔
”نصیر میری بات سنو“ میں نے اس کا بازو تھام لیا
”کیا بات ہے “ وہ میری طرف دیکھتے ہوئے بولا ”خیرت تو ہے“۔
”میں تم سے ایک بات کرنا چاہتا ہوں“میں اسے کچھ کہنا چاہتا تھا کہ وہ یکدم کچھ یاد کرتے ہوئے تڑپ اٹھا “باتیں بعد میں کرنا۔ اس وقت جو محفل سجی ہوئی ہے اگر تم نے اس کا لطف نہ اٹھایا تو ساری زندگی پچھتاﺅ گے۔جلدی کرو۔ میں تو ابا جی کو بھی بلانے آیا تھا لیکن میرا خیال ہے وہ سو گئے ہیں۔بس تم جلدی چلو۔ آج تو بابا جی سرکار نے کمال ہی کر دیا ہے “۔
”کیا کمال کر دیا ہے“میں نے پوچھا۔
”وہ زلیخا کے لئے اپنے دیس سے بری لے کر آئے ہیں“اس کی بات سن کر جامد ہو گیا۔
”کک....کیا....بری....کس لئے.... کیوںذ‘میں نے نصیر کی طرف دیکھا تو اس کے چہرے پر خوشیاں رقصاں کررہی تھیں۔اس بے وقوف کو شاید یہ معلوم ہی نہیں تھا کہ یہ بری کتنی بری شے ثابت ہو گی۔
”نصیر تم ہوش میں تو ہو“میں نے اسے مخاطب کیا ”کیا تم جانتے ہو کہ حویلی میں کیا ہونے جارہا ہے۔ چاچاجی بہت پریشان ہیں۔وہ نہیں چاہتے کہ پیر ریاض شاہ اور زلیخا کی شادی ہو“۔
”ان کا تو دماغ چل گیا ہے“نصیر کے چہرے پر اپنے والد کا ذکر سن کر عجیب سی نفرت ابھرآئی”وہ بے وجہ بابا جی پر شک کرتے ہیں،جب باقی گھر والے راضی ہیں تو ابا جی کو ضد نہیں کرنی چاہیے“۔
”لیکن نصیر....یہ بات مناسب نہیں ہے ۔تم سمجھنے کی کوشش“....میں نے اسے سمجھانا چاہا تو وہ میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بولا:
”شاہد تم اس مسئلے میں نہ ہی آﺅ تو اچھا ہے ۔یہ میرے گھر کا معاملہ ہے ہمیں کیا کرنا ہے ہم بہتر جانتے ہیں۔تمہیں بولنے کی ضرورت نہیںہے۔ اور ہاں مجھے لگتا ہے اباجی نے تمہیں بھی بابا جی کے بارے بدگماں کرنے کی کوشش کی ہے ۔تمہارے دل میں بابا جی سرکار کے لئے بدگمانی پیدا ہو رہی ہے تو تم ابھی یہاں سے جا سکتے ہو۔میں بابا جی سرکار کو ناراض نہیں کرسکتا۔ ان پر میری سات زندگیاں بھی قربان“ میں نصیر کا منہ دیکھتا رہ گیا۔ وہ شخص جو کبھی میرے سامنے اونچی آواز میں بات نہیں کرتا تھا،میرا سایہ بنا رہتا تھا مجھے یوں مخاطب کررہا تھا۔

بارہویں قسط پڑھنے کے لئے کلک کریں

مزیدخبریں