بھوپال میں اُردو صحافت کی صورتِ حال 1980ء کے بعد (2)

بھوپال میں اُردو صحافت کی صورتِ حال 1980ء کے بعد (2)

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

چند ماہ بعد اخبار دوبارہ شروع ہوا تو مقصود عمرانی، دیوی سرن، اقبال مسعود اور ظفر صہبائی نے یکے بعد دیگرے ایڈیٹر کے فرائض انجام دیئے، لیکن اخبار کا معیار قائم نہیں رہ سکا اور آخر کار 1998ء میں یہ بند ہوگیا۔ ’’آفتاب جدید‘‘ کا اول دور بھوپال کی اردو صحافت کا تابناک عہد قرار دیا جاسکتا ہے، جس میں کتابت و طباعت کا معیار ہی بہتر نہیں ہوا، مواد اور پیش کش میں بھی کامیاب تجربے کئے گئے، خاص طور پر اخبار کے سنڈے ایڈیشن کو جو 8 صفحات پر مشتمل تھا کافی سراہا گیا، کیونکہ اِ س میں ادب، سیاست، کھیل، فلم، خواتین اور بچوں کے لئے ہر ہفتہ معیاری مضامین پیش کئے جاتے تھے۔ پُرانے صحافی قمر جمالی اِسے مرتب کرتے تھے۔ ’’آفتاب جدید‘‘ نے اردو صحافت کو کئی ہونہار صحافی اور تازہ دم قلم کار فراہم کئے، جن میں سپورٹس رائٹر انعام لودھی، ناقد و ادیب ڈاکٹر محمد نعمان، اقبال مسعود، مسلم سلیم، عمر فاروق ندوی، ناصر کمال کے علاوہ راقم (عارف عزیز)اور اردو کی اول کُل وقتی خاتون صحافی خالدہ بلگرامی مرحومہ کے نام قابلِ ذکر ہیں، معروف طنز ومزاح نگار مصطفی تاج مرحوم کا قلمی عروج بھی اِسی اخبار کا مرہونِ منت ہے، اِس کے عملہ میں مقصود اصغر، حامد حسن شاد، مظفر رئیس، متین شہید اور شوکت رموزی جیسے تجربہ کار صحافی شامل تھے، نئے اور پرانے صحافیوں کی اِس ٹیم کے اشتراک کا نتیجہ تھا کہ بھوپال کی اردو صحافت ’’آفتاب جدید‘‘ کی دوسری مثال پیش کرنے سے قاصر رہی۔بھوپال سے منظر عام پر آنے والا ایک اور قابلِ ذکر روزنامہ ’’افکار‘‘ ہے جو 1951ء میں اے آر رُشدی اور اشتیاق عارف کی ادارت میں شروع ہوکر 1976ء میں بند ہوگیا، تین ماہ بعد دوبارہ صبح کے اخبار کی حیثیت سے صغیر بیدار اور عیسیٰ صدیقی کی ادارت میں ایک نئے رنگ و آہنگ کے ساتھ شائع ہوا اور 1979ء تک کسی نہ کسی طرح نکلتا رہا، 1986ء میں ’’آفتاب جدید‘‘ کی اشاعت منقطع ہونے پر اخبار کے عملہ نے باہمی اشتراک سے روزنامہ ’’افکار‘‘ کی سہ بارہ اشاعت شروع کی تو تیرہ ماہ تک راقم الحروف (عارف عزیز) کی ادارت میں یہ مزید شائع ہو کر ملکیت کے تنازعہ کا شکار ہو گیا۔


بھوپال کا پانچواں صوری اور معنوی خوبیوں کا حامل روزنامہ ’’بھوپال ٹائمز‘‘ 1988ء میں دوبارہ منظر عام پر آیا، اس وقت تک کمپوٹر سے کمپوزنگ اور لے آؤٹ کا کوئی تصور نہیں تھا، لیکن معروف خطاط ظفر آرٹسٹ نے اپنی قلمی مہارت سے اخبار کے صفحہ اول کو اتنا دیدہ زیب بنادیا تھا جو اردو اخبارات کے لئے ایک نادر مثال تھی، لہٰذا چھ سات ماہ تک یہ کامیابی کے ساتھ شائع ہوکر بعض ٹیکنیکل وجوہ سے بند ہوگیا لیکن بھوپال کی صحافت میں اپنی گہری چھاپ چھوڑ گیا، اِس کے چیف ایڈیٹر مولانا حبیب ریحان ندوی ازہری، ایڈیٹر رضوان خاں اور جوائنٹ ایڈیٹر کی ذمہ داری راقم (عارف عزیز) کے سپرد تھی۔


ڈاکٹر ماجد حسین کی ادارت میں بھوپال سے شائع ہونے والا ہفت روزہ ’’اردو ایکشن‘‘ بارہ سال بعد 1995ء میں روزنامہ ہوگیا، اِس اخبار میں رضا رام پوری، حامد حسن شاد اور خلیق صدیقی کے بعد مشاہد سعید نے دس سال تک جوائنٹ ایڈیٹر کی خدمات انجام دیں، اخبار کا ضخیم ’’بھوپال نمبر‘‘ بھی شائع ہوا، روزنامہ کی اشاعت کا سلسلہ ہنوز جاری ہے۔ ایک اور ہفت روزہ ’’ایاز‘‘ جو 1972ء میں عارف بیگ کی زیر ادارت نکلا تھا، دوسرے ہفت روزہ اخبارات کے برعکس 28 سال تک شائع ہوتا رہا، ایمرجنسی میں 17 ماہ اسکی اشاعت موقوف رہی۔ دوبارہ نکلا تو اشفاق مشہدی ندوی نے اسکی ادارت سنبھالی اور ملکیت دین دیال وچار پرکاشن کو منتقل ہوگئی، ’’ایاز‘‘ کی اشاعت کے دس سال مکمل ہونے پر اِس کی تقریبات بھی بڑے پیمانے پر منائی گئیں اور ’’ایاز فورم‘‘ کے تحت دیگر ادبی و تہذیبی پروگرام منعقد ہوتے رہے، 2000ء میں اِسکی اشاعت مسدود ہوئی۔ ہفتہ روزہ ’’الجبل‘‘ کو پرانے صحافی محمد ارتضیٰ نے 1984ء میں بڑے شوق سے نکالا تھا، جو معیاری کتابت، طباعت اور مواد کی وجہ سے کافی پسند کیا گیا،لیکن اخبار کے سات آٹھ شمارے ہی شائع ہوئے، گزشتہ 33 سال میں ہفت روزہ ’’اردو تحریک‘‘ اور ’’بھوپال ہلچل‘‘ بھی وقتی چمک دمک دکھا کر روپوش ہوگئے۔ ’’اردو ایکشن‘‘ کی طرح عارف علی انصاری نے ’’حق و انصاف‘‘ کو 1997ء میں ہفت روزہ کی حیثیت سے شروع کیا تھا جسے چار سال بعد روزنامہ کر دیا تب سے یہ شائع ہورہا ہے، لیکن اِسے دیکھنے کو آنکھیں ترستی ہیں، جاوید یزدانی نے جنہیں ہندی اور اردو کے اخبارات نکالنے کا بڑا ملکہ ہے پُرانے اخبار ’’الحمراء‘‘ کو تیسری مرتبہ ہفت روزہ کی حیثیت سے شروع کیا اسے جاری نہیں رکھ سکے، اِس کے علاوہ اردو کے تین اور روزنامے بھوپال سے شائع ہو رہے ہیں، لیکن اُن کے بارے میں تفصیلات مہیا نہیں ہیں، یہ نہ مارکیٹ میں آتے ہیں اور نہ قارئین کی نظر سے گزرتے ہیں، صرف فائل کر دیئے جاتے ہیں کہ اُن کی بنیاد پر سرکاری اشتہارات مل سکیں۔اس درمیان ’’ مشرق‘‘ کا بھوپال ایڈیشن شروع ہوا ہے اور اس کی اشاعت جاری ہے۔


جبکہ ادبی رسائل میں ڈاکٹر رضیہ حامد کے سہ ماہی ’’فکر و آگہی‘‘ کو پیش رو کی حیثیت حاصل ہے، جس کے کئی وقیع نمبر بالخصوص ’’بھوپال نمبر‘‘ یادگار حیثیت کے مالک ہیں، اِس کے علاوہ مدھیہ پردیش اردو اکادیمی کا سہ ماہی ’’تمثیل‘‘ کوثر صدیقی، جاوید یزدانی کا سہ ماہی ’’کاروانِ ادب‘‘ اور نعیم کوثر کا پندرہ روزہ‘‘ صدائے اردو‘‘ بھی آج شائع ہورہے ہیں اور اِس مفروضہ کو غلط ثابت کرنے کے لئے کافی ہیں کہ بھوپال کی سرزمین ادبی رسائل کیلئے زرخیز نہیں رہی۔’’تمثیل‘‘ اور ’’کاروانِ ادب‘‘ کی مدتِ اشاعت سترہ اٹھارہ سال ہے، یہ دونوں رسائل بھی کئی خاص نمبر نکال چکے ہیں، اقبال مسعود کی ادارت میں ’’تمثیل کے کیفی اعظمی، جگناتھ آزار، اختر سعید خاں، حبیب تنویر اور ملارموزی پر نمبر شائع ہوئے ہیں، ’’کاروانِ ادب‘‘ کے خصوصی شمارے بھی بڑی آب و تاب سے نکلتے رہے ہیں۔ ’’صدائے اردو‘‘ کا دم اِس لئے غنیمت ہے کہ مہینہ میں دوبار معیاری ادبی مواد قارئین کو پڑھنے کے لئے مِل جاتا ہے، جاوید یزدانی اور مختار شمیم کی توانائیاں ماہنامہ ’اردو ہلچل‘ کی صورت میں سامنے آئی ہیں، اس میں شائع ہونے والے انٹرویو کتابی صورت میں منظر عام پر آچکے ہیں۔ دارالعلوم تاج المساجد کا آرگن ’’نشانِ منزل‘‘ تو عرصہ ہوا بند ہوگیا، لیکن دو مذہبی رسالے جامعہ اسلامیہ عربیہ مسجد ترجمہ والی کا ماہنامہ ’’دینِ مبین‘‘ اور جامعہ حسینیہ مسجد منشی حسین خاں کا ماہنامہ ’’دعوت اِلی الخیر‘‘ شائع ہورہے ہیں، ایک اور ماہنامہ اصلاحی پرچہ ’’پیامِ اسلام‘‘ منصور قریشی اور صفیہ منصور نکال رہے ہیں۔


بھوپال میں 1980ء کے بعد اردو صحافت کے اس منظر نامہ سے واضح ہوتا ہے کہ یہاں سے روزنامے اور ادبی رسائل کامیابی کے ساتھ نکل رہے ہیں، اس کے برعکس کسی ہفتہ روزہ کو استحاکم نہیں ملا، جدید ٹیکنالاجی بالخصوص کمپیوٹر کمپوزنگ اور آفسیٹ پرنٹنگ نے اخبار نکالنے کے جوکھم بھرے کام کو اِتنا آسان کر دیا ہے کہ اُردو نہ جاننے والے غیر اردو بھاشی یا مبتدی بھی جدید وسائل کا استعمال کرکے اخبار و رسائل نکالنے میں کامیاب ہیں یہاں تک کہ کئی اخبار تو کمپوزیٹر ہی مرتب کر لیتے ہیں، لیکن ایسے اخبارات و رسائل صحافت کے معیار کو بلند کرنے کے بجائے صرف تجارتی مقاصد پورے کرنے کا ذریعہ بن رہے ہیں۔ عام طور پر یہ اخبارات مارکیٹ میں نہیں آتے، نہ قارئین کی نظر سے گزرتے ہیں، اُنہیں سرکاری اشتہارات کے لئے صرف فائل کر دیا جاتا ہے۔ اس تجارتی ذہنیت سے نہ صرف حقداروں کا حق مارا جارہا ہے،بلکہ ہماری صحافت کے میعاد کو بھی ناقابل تلافی نقصان پہنچ رہا ہے۔(ختم شد)

مزید :

کالم -