عوام سب جانتے ہیں

عوام سب جانتے ہیں
عوام سب جانتے ہیں

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

میں اس روز سپریم کورٹ کی لاہور رجسٹری میں موجود تھا جب سپریم کورٹ کے معزز چیف جسٹس مسٹر جسٹس ثاقب نثار ایک بنچ کی سربراہی کرتے ہوئے لاہور سمیت دوسرے شہروں سے گندے پانی کے نکاس بارے تشویشناک معاملے کی سماعت کررہے تھے۔ میں ذاتی طور پر سمجھتا ہوں کہ جج حضرات بھی اسی ریاست اور اسی معاشرے کا ایک حصہ ہیں اورایک شہری کے طور پر انہیں بھی یہاں کی خرابیاں تکلیف دیتی ہیں لہذا وہ انہیں درست کرنے میں اپنا کردارادا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔محترم چیف جسٹس کو پنجاب حکومت کی ترجیحات غلط لگ رہی تھیں۔ وہ قیام پاکستان سے لے کر اب تک حل نہ ہونے والے مسئلے پر پوچھ رہے تھے کہ جو حکومت یہاں دس برس سے قائم ہے اس نے کیا کام کیا ہے۔ وہ چیف سیکرٹری سے پوچھ رہے تھے کہ انہوں نے ایک ماہ کے اندر کسی ہسپتال کا دورہ کیا ہے۔

انہوں نے اورنج لائن پر خرچ بھی پوچھا، انہوں نے سرکاری اشتہارات کے ساتھ ساتھ لیپ ٹاپ سکیم میں صوبے کے چیف ایگزیکٹو کی تصویرلگانے کوبھی غلط قرار دیا اور دلچسپ امر یہ ہے کہ انہیں اسی وقت وہاں ایک ڈیٹ شیٹ بھی فراہم کر دی گئی جس پر شہباز شریف کی تصویر تھی مگر کسی نے یہ نہیں بتایا کہ میڈیا میں اس بارے رپورٹ ہونے پر وزیراعلیٰ نے اس کا نوٹس لیا تھا۔ وہ چیف سیکرٹری سے پوچھ رہے تھے کہ انہوں نے ایک ماہ کے اندر کسی ہسپتال کا دورہ کیا ہے۔میرا دل بہت دنوں سے اس سماعت پر لکھنے کو چاہ رہا تھا مگر کبھی میں خود ایک پیراگراف لکھ کر ختم کر دیتا تھا اور کبھی قلم پکڑتے ہوئے ہی سوچتا تھا کہ یہ شائع نہیں ہو سکے گا۔

پھرمیں نے جناب ظفر محمود کے کالم میں امریکی جج گونزیلو کریل کے ایک مقدمے کے فیصلے بارے پڑھا۔ اس جج نے پہلے ایک مقدمے میں امریکی صدر ٹرمپ کے خلاف فیصلہ دیا تو امریکی صدر نے اپنے روایتی انداز میں اسے ایک برے جج کے لقب سے پکارا۔ ہم پاکستانی، یہاں پاکستان میں بیٹھ کے، صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے میکسیکو کی سرحد پر دیوار بنانے کے فیصلے کو انتہائی غلط اور تعصب سے بھرا سمجھتے ہیں مگر دوسری طرف اسی جج نے اس مقدمے میں فیصلہ دیا جس میں تحریر کیا، ’ عدالتوں کے پاس یہ اختیار ہے کہ وہ قانون کی تشریح کریں مگر نہ تو ہم پالیسی سازی کے ماہر ہیں او ر نہ ہی ہمیں یہ استحقاق حاصل ہے کہ ہم اس بارے فیصلے کریں۔ یہ ہمارے منتخب نمائندوں کے دائرہ کار میں آتا ہے اور اگر رائے دہندگان کو ان سے اختلاف ہو گا تو انہیں ( بذریعہ الیکشن) عہدوں سے ہٹایا جا سکتا ہے۔۔۔ یہ ہمارا کام نہیں کہ ہم عوام کو( چناو میں ) ان کی سیاسی پسند کے مضمرات سے محفوظ رکھیں‘۔

یہ فیصلہ اس صورت میں تھاجبکہ ڈونلڈ ٹرمپ کا انتخاب بھی امریکی انتخابی نظام میں خرابیوں کا نتیجہ تھااور وہاں ہیلری کلنٹن پاپولر ووٹ زیادہ لینے کے باوجود ریاستی نظام کے ووٹنگ کے طریقہ کار کی وجہ سے ہار گئی تھیں۔


مجھے بھی کبھی کبھار یہ لگتا ہے کہ مسلم لیگ نون کی حکومت کی انفراسٹرکچر کی ڈویلپمنٹ کے حوالے سے ترجیحات درست نہیں ہیں۔ اس سیاسی جماعت کو صحت ، تعلیم اور امن و امان پر زیادہ توجہ دینی چاہئے مگر جب میں دیکھتا ہوں کہ ان کے سیاسی مخالفین نہ انفراسٹرکچر ڈویلپ کرپاتے ہیں اور نہ ہی وہ صحت، تعلیم اور امن و امان کے شعبے میں کوئی کارنامہ سرانجام دیتے ہیں تومیں مجبور ہوجاتا ہوں کہ اسی جماعت کا مقدمہ لڑوں جسے صوبے کے عوام کی بھاری اکثریت کی حمائت حاصل ہے اور انہی حکمرانوں کی وجہ سے اس وقت بھی پنجاب کے ہسپتالوں میں سندھ اور خیبرپختوا کے ان لوگوں کا رش ہے جو اپنے صوبوں میں علاج کی سہولتیں نہیں پاتے۔ یہ پنجاب ہی ہے جو ان کے مریضوں کا بھی علاج کرتا ہے اور جب میں اس کے بعد تعلیم کے شعبے میں آتا ہوں تو خیبرپختونخوا سمیت کسی بھی دوسرے صوبے کو تعلیمی سہولتو ں میں پنجاب کے قریب بھی نہیں پاتا۔ ( ایک غیر سرکاری تنظیم الف اعلان کی رپورٹ کافی چشم کشا ہے)۔

مجھے یہ کہنے میں بھی عار نہیں کہ پنجاب میں امن و امان کی صورتحال بھی کراچی، پشاور اور کوئٹہ سے بدرجہا بہتر ہے۔ایک پروپیگنڈے کے تحت خیبرپختونخوا کی پولیس کو مثالی کہاجاتا ہے اور پنجاب پولیس کو انتہائی بری مگر اس بری پولیس کے ہوتے ہوئے بھی یہاں کراچی کی طرح نوگو ایریاز، بھتہ مافیا اور پرچی مافیا نہیں ہیں، یہاں پشاور کی طرح آپ کی چوری کی گئی تیس سے چالیس لاکھ کی گاڑی دس، دس لاکھ لے کر نہیں دی جاتی۔ یہاں منشیات کی پیداوار کا کوئی نیٹ ورک نہیں ہے۔ یہاں کوئی یہ نہیں بتاتا کہ یہ قلعہ نما گھر فلاں سمگلر کا ہے مگراس کے باوجود پنجاب میں لاکھوں ووٹرز ایسے ہیں جوپنجاب حکومت کی ترجیحات سے اتفاق نہیں کرتے اور مسلم لیگ نون کے خلاف ووٹ دیتے ہیں تو یہ ان کا اسی طرح حق ہے جس طرح پنجاب کی حکومت کا پنجاب کے عوام کو اپنے ساتھ رکھنے کے لئے اپنی ترجیحات کو مقرر کرنے کاحق ہے۔


ترجیحات طے کرنا ہر سیاسی جماعت کا حق ہے کہ وہ اپنی ترجیحات اور کارکردگی کو لے کر ہی عوام کے سامنے جاتی ہے۔ میں نے جناب عمران خان کو بھی ملتان میں میٹرو پر تنقید کرتے اور یہ قرار دیتے ہوئے سنا ہے کہ مسلم لیگ نون کی حکومت وہی منصوبے بناتی ہے جس میں اس نے کرپشن کرنا ہوتی ہے اور دلچسپ امر یہ ہے کہ عمران خان خود اپنے صوبے میں میٹرو کا لاہور سے دوگنامہنگا منصوبہ لے آئے ہیں۔ حکومت پنجاب کے کریڈٹ پر متعدد نئے ہسپتالوں کی تعمیر ہے مگر دوسری طرف خیبرپختونخوا میں صرف ایک ہسپتا ل بنا ہے جو صوبے کی حکومت یا عوام نہیں بلکہ عمران خان صاحب کی پراپرٹی ہے۔ایسے میں جب کسی سیاسی جماعت یا اس کی حکومت کو رگڑا لگایا جاتا ہے اور یہ سمجھا جاتا ہے کہ عوام بھی اسے کھینچیں گے تو ایسا نہیں ہوتا۔ میں جانتا ہوں کہ مجھے بہت احتیاط سے لکھنا ہے اوراس کی بہت سارے وجوہات ہیں مگر میں یہ بھی جانتا ہوں کہ میں جتنی بھی احتیاط سے لکھوں، عوام سب جانتے ہیں، عوام سب سمجھتے ہیں۔

مزید :

رائے -کالم -