فلمی و ادبی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔قسط نمبر382
دلیپ پھر کبھی کسی دوسرے کے سامنے مدھو بالا کا نام تک اپنے لب پر نہ لائے۔ مدھو بالا نے کچھ عرصے بعد شادی کرلی اور وہ بھی ایک ہندو سے۔ کشور کمار ایک اچھّے انسان تھے مگر کسی اعتبار سے بھی مدھو بالا کے قابل نہ تھے۔ مگر ہندوستان کے مسلمانوں کے لیے یہ ذلّت اور رسوائی کا باعث تھا۔ مدھو بالا کی بے بسی اور مجبوری کا سب کو احساس تھا۔ کشور کمار کی خوبیوں سے بھی کسی کو انکار نہ تھا مگر کہاں دلیپ کمار اور کہاں کشور کمار۔ لاکھوں کروڑوں مسلمانوں نے مدھو بالا کی اس غلطی کو کبھی معاف نہیں کیا۔
یوٹیوب چینل سبسکرائب کرنے کیلئے یہاں کلک کریں
کون کہتا ہے کہ دو قومی نظریہ قائداعظم کی ایجاد تھا؟ بھائی چارے اور خلوص و محبت کی باتیں اپنی جگہ مگر یہ حقیقت ہے کہ ہندوستان کے ہندو اور مسلمان ایک دوسرے سے بہت دور تھے۔ ایک دوسرے کو ناپسند کرتے تھے۔ اگر کہا جائے کہ ایک دوسرے سے نفرت کرتے تھے تو یہ بھی غلط نہ ہوگا۔ آج جب بھارت سے فن کاروں اور دانشوروں کے وفد پاکستان آکر یہ راگ الاپتے ہیں کہ دونوں ملکوں کے عوام ایک دوسرے کے نزدیک ہیں۔ ان کا کلچر ایک ہے‘ رہن سہن‘ طور طریقے ایک ہیں۔ فن کسی تقسیم کو تسلیم نہیں کرتا تو خون جل کررہ جاتا ہے۔ مسلمان اور ہندو نہ کبھی ایک اور ہم خیال تھے‘ نہ ہوں گے۔ ہم نے جب سے ہوش سنبھالا‘ یہی دیکھا اور محسوس کیا۔ واقعات تو بے شمار ہیں۔ مناسب موقع پر یہ آپ بیتی اور جگ بیتی بھی بیان کی جائے گی مگر یہ حقیقت ہے کہ نگار سلطانہ اور بیگم پارہ جیسی فن کاراؤں کو ہم کبھی فراموش نہیں کرسکیں گے۔ کوشش کے باوجود بھی نہیں۔ سالہا سال کے سفر کی گرد نے بہت سی چیزوں کو ڈھانپ لیا ہے مگر ایسے واقعات زمانے کی گرد میں بھی دفن نہیں ہوتے۔
فلمی و ادبی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔قسط نمبر381 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
***
یہ بھی انسانی فطرت ہے کہ وہ کسی بھی حال میں خوش اور مطمئن نہیں رہتا۔ اگر وہ بہت مصروف ہے تو فرصت کے دن رات کی جستجو کرتا ہے اور اگر فرصت میں ہے تو چاہتا ہے کہ کوئی مصروفیت تلاش کی جائے۔ بے کاری سے بھی وہ اُکتا جاتا ہے۔ اگر کچھ بیمار رہے تو چاہتا ہے کہ تندرست ہو جائے اور تندرستی میں وہ چاہتا ہے کہ کبھی کچھ وقت بستر پر دراز ہونے کے لئے بھی مل جائے تو کیا بُرا ہے۔ کیونکہ مکمّل تندرستی کی صورت میں تو وہ بھاگ دوڑ میں ہی لگا رہتا ہے۔ آرام کرنے کے لئے کوئی لمحہ اسے نہیں نصیب ہوتا۔ ہمارا بھی کچھ ایسا ہی حال تھا۔ بھئی بیماری کی بھی کوئی حد ہونی چاہئے۔ کبھی کبھار چلتے پھرتے بیمار ہو جانا اور بات ہے مگر مستقل طور پر بیماری کی نذر ہو جانا اور لمبے عرصے تک اسپتالوں میں آمدورفت جاری رکھنا یا پھر صاحب فراش رہنا مختلف بات ہے۔ شُکر ہے کہ ہم سیریس بیمار بہت زیاد عرصے نہیں رہے تھے لیکن بیماری کا یہ سلسلہ جب ایک بار شروع ہوا تو پھر چلتا ہی رہا۔ مانا کہ ہم چلتے پھرتے بھی تھے۔ دوستوں کے گھر جا کر گپ شپ بھی لگاتے تھے۔ وہ بھی ہمارے گھر آ کر جمگھٹا لگا لیتے تھے مگر بیماری تو پھر بیماری ہے۔ نیند نہ آنا، ڈپریشن‘ چِڑچِڑاپن‘ سنجیدگی سے اللہ میاں سے اپنی صحت یابی کے لئے دعائیں مانگنی شروع کر دی تھیں۔ اللہ میاں نے بہت کرم فرمایا کہ ہم بیماری کے باوجود مکمّل بیمار نہ تھے مگر مکمّل تندرست بھی نہیں تھے۔
دُبلا پن ہمیشہ ہمارا مسئلہ رہا ہے۔ ہمیں تو یہی یاد ہے کہ جب سے ہم نے ہوش سنبھالا ہمیں یہی فکر رہی کہ موٹے کیسے ہوں اور طاقت کیسے آئے؟ لڑکپن میں بھی یہی حال تھا کہ وزن بڑھانے اور طاقت ور ہونے والی ہر تدبیر پر عمل کرتے تھے۔ کسی نے کہا گاجر ہندوستان کا سیب ہے بلکہ سیب سے بھی زیادہ طاقت بخش ہے۔ ہم نے گاجریں کھائیں بلکہ چرنی شروع کر دیں۔ اٹھتے بیٹھتے‘ سوتے جاگتے گاجریں چباتے یا چرتے رہتے تھے۔’’ ہوکا‘‘ ہماری کمزوری ہے‘ ہمیں ہر چیز کا ’’ہوکا‘‘ ہو جاتا ہے۔ گاجریں کھانے کا بھی ہوکا ہو گیا۔ ایک دن صبح سے شام تک دو ڈھائی سیر گاجریں کھا گئے‘ یعنی دوسری چیزوں کے علاوہ۔ نتیجہ یہ کہ دستوں کی بیماری میں مبتلا ہو گئے۔ ایک ٹیچر سے سنا کہ ٹماٹر خالص خون بنانے والی چیز ہے۔ ہم نے ٹماٹر کھانے شروع کر دیے۔ دو تین سیر روزانہ کھا جاتے تھے۔ چار دن گزرے تو آئینہ دیکھنا شروع کر دیا کہ چہرہ کتنا سُرخ ہو گیا ہے اور گال کس قدر بھر گئے ہیں۔ ہوا کچھ بھی نہیں۔ اُکتا کر یہ بھی چھوڑ دیا۔ کھیل کود‘ ورزش‘ دودھ دہی‘ پھل‘ گوشت‘ مرغی یہاں تک کہ مچھلی تک کھانے لگے جو ہمیں سخت ناپسند تھی مگر کیا مجال جو ایک پاؤنڈ بھی وزن بڑھا ہو۔ چہرے کی سُرخی میں بھی کوئی اضافہ نظر نہیں آیا۔ سوچا‘ دوسروں سے رائے لیں۔
پوچھتے ’’کیوں آپ کو ہمارا چہرہ کیسا لگ رہا ہے؟‘‘
جواب ملتا ’’یوں ہی لگ رہا ہے جیسا کہ ہے۔‘‘
’’مطلب یہ ہے کہ کوئی رنگت میں سُرخی یا چہرے پر رونق زیادہ نظر آتی ہے؟‘‘
وہ غور سے جائزہ لیتے’’مجھے تو کوئی فرق نظر نہیں آیا۔ مگر بات کیا ہے؟‘‘
’’بات کچھ بھی نہیں۔ بس ایسے ہی پوچھا کہ کیا ہم پہلے سے زیادہ تندرست نظر آتے ہیں کہ نہیں؟‘‘
’’میاں جتنے ہو اتنا ہی کافی ہے۔ شُکر کرو۔ بہت سوں سے بہتر ہو۔‘‘ لیجئے بات ہی ختم ہوگئی۔ نہ پیٹ بڑھا‘ نہ چہرے پر گوشت چڑھا۔ اسی تگ و دو میں لڑکپن گزرا۔ جوانی آگئی مگر ہمارا وہی حال رہا کہ نہ ساون سُوکھے نہ بھادوں ہرسے۔ ویسے کے ویسے ہی رہے۔ سب یہی کہتے تھے کہ بھائی تم فِٹ ہو، اسمارٹ ہو اور کیا چاہیے؟ مگر ہم اپنے سے زیادہ وزن کے لوگوں پر رشک کرتے تھے۔ حکیم، ڈاکٹر، ہومیو پیتھ، آیورویدک، سبھی قسم کے علاج کردیکھے۔ صرف تعویذ گنڈا کرنیوالوں کی باری نہ آئی۔ اسی چکر میں بہت سے اطبا سے تعلقات استوار ہوگئے اور جب چھان بین کی تو بہت سے علاج اور دوائیاں بھی ہمیں معلوم ہوگئیں مگر وزن جوں کا توں رہا۔(جاری ہے )
فلمی و ادبی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔قسط نمبر383 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں