پی ٹی وی بحران کا حل(2)
اس غیر معمولی صورت حال سے نمٹنے کے لئے ارباب اختیار کے لئے کچھ تجاویز پیش کرنے کی جسارت کر رہا ہوں، ان میں سے زیادہ تر تجاویز میری کتاب ’’پی ٹی وی میں مہ و سال‘‘ میں شامل ہیں۔ ادارہ چونکہ اس وقت شدید مالی بحران سے دوچار ہے، لہٰذا کیوں نہ پی ٹی وی کا بوسٹر سسٹم سرے سے لپیٹ دیا جائے۔
جدید ٹیکنالوجی کے اس زمانے میں بوسٹروں کا کوئی معقول جواز نظر نہیں آتا، اس وقت تقریباً 100 سے زیادہ بوسٹر ہیں اور ان میں سیکڑوں ملازمین کام کرتے ہیں، پھر بدانتظامی یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ بوسٹروں پر جنریٹر چلانے کے لئے ڈیزل کے استعمال میں بھی چوری ہو رہی ہے۔
بوسٹروں کی زمین کی قیمت اب اربوں تک پہنچ چکی ہے، کیونکہ کئی بوسٹروں تک شہری آبادی پہنچ چکی ہے۔پی ٹی وی ہیڈکوارٹر کی زمین بہت قیمتی ہے، اس پر کوئی ملٹی سٹوری ہوٹل یا پلازہ بن سکتا ہے جس میں ایک دو فلور پی ٹی وی سٹاف کے لئے کافی ہوں گے، باقی جگہ کرائے پر دی جا سکتی ہے۔ اس طرح پی ٹی وی اپنے سٹاف کے لئے موجودہ پرانے نظام کی جگہ ماڈرن دفتر بنا سکتا ہے جس میں بڑے بڑے کمروں کی بجائے شیشہ لگا کر چھوٹے دفتر بنائے جائیں، یہ طریقہ اب بہت سے سرکاری اور پرائیویٹ اداروں نے اختیار کیا ہوا ہے۔ انڈر گراؤنڈ پارکنگ بھی اس کا حصہ ہو گی۔سٹاف کی بھرتی، ترقی کا طریق کار اور تربیت کسی بھی ادارے کے لئے بنیادی حیثیت رکھتی ہے ، ان معاملات میں غلط طریق کار ادارے کی تباہی کا ذمہ دار ہے، لہٰذا اس معاملے پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
بھرتی کے لئے مختلف حکومتوں نے مختلف طریقے استعمال کئے جن کی تفصیل میں جانا اس وقت غیرضروری ہو گا، یہ بات طے ہے کہ ان طریقوں کا مقصد ادارے کی بہتری نہیں تھا۔
پہلی بات یہ کہ تمام شعبوں کے سربراہوں سے یہ رپورٹ لی جائے کہ ان کے دفتر میں سٹاف کی پوزیشن کیا ہے، کیا سٹاف کم ہے یا زیادہ ؟اگر زیادہ ہے تو اُسے سرپلس پول میں بھیجا جائے اور تحریری ڈیمانڈ پر غوروفکر کے بعد ہر سال اُسی حساب سے باقاعدہ ٹیسٹ انٹرویو کے ذریعے ریکروٹمنٹ کی جائے۔ اس کے علاوہ بھرتی بالکل نہ کی جائے۔
اگلا مرحلہ سٹاف کی پروموش کا ہے، اس وقت ترقی کے لئے صرف پوسٹ خالی ہونی چاہئے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ Redesignation کا سلسلہ تقریباً ختم کر دینا چاہئے اور ترقی کا Criteria سخت کر دینا چاہئے۔ گروپ 9 اور ڈائریکٹر کی پوسٹ کے لئے چیئرمین کی سربراہی میں ایک بورڈ بننا چاہئے جس میں بورڈ آف ڈائریکٹرز کے بھی ایک دو نمائندے شامل ہونے چاہئیں اور بورڈ باقاعدہ امیدواروں کا انٹرویو کرے۔ اگر ان عہدوں کے لئے موزوں آدمی دستیاب نہیں تو پھر اس پوسٹ کے لئے اشتہار کے ذریعے اوپن میرٹ پر بھرتی کی جائے۔
پروموشن کے سلسلے میں اے سی آر بڑی اہم چیز ہے، لیکن پی ٹی وی میں تقریباً تمام لوگوں کی اے سی آر آؤٹ سٹینڈنگ ہوتی ہے ،لیکن سروس کا معیار مسلسل گر رہا ہے۔ اس سلسلے میں سختی کرنے کی ضرورت ہے کہ کسی کی اے سی آر لکھوانے خصوصاً اگر لکھنے والا آفیسر ریٹائر ہو رہا ہے یا ہو گیا ہے ، دیر نہ کی جائے ،کیونکہ اس میں کام چوری کے علاوہ اُس افسر کی بدنیتی شامل ہوتی ہے جس کی اے سی آر لکھی جاتی ہے۔
مجھ سے ریٹائرمنٹ کے پانچ سال بعد تک اے سی آر لکھوائی جاتی رہی ہیں۔ اے سی آر لکھوانا ایڈمنسٹریشن کا کام ہے، کسی آدمی کو فِل کروانے کے لئے اے سی آر کا فارم نہ دیا جائے۔
ہر شعبے میں متعلقہ ڈائریکٹر کی سربراہی میں ایک بورڈ بنایا جائے جو ہر سال تمام ملازمین کا انٹرویو کرے، اس انٹرویو میں اُس کی کارکردگی کا جائزہ لیا جائے اور اُس کی خوبیاں خامیاں اُس کو بتائی جائیں اور اُس کی بات بھی سنی جائے۔ روٹین کی اے سی آر کے ساتھ یہ جائزہ رپورٹ بھی اُس کی ترقی کے سلسلے میں زیربحث آنی چاہئے۔
تربیت کا کا رکردگی بڑھانے میں بڑا اہم رول ہوتا ہے، ہمارے ہاں اِس کی اہمیت کا ادراک نہیں، خوش قسمتی سے ہمارے پاس اپنی اکیڈمی ہے، اِسے ڈمپنگ گراؤنڈ کی بجائے ایک فعال ادارے میں تبدیل کیا جائے اور ہر پروڈیوسر کے لئے اکیڈمی میں جانا لازمی ہونا چاہئے۔ خصوصاً کنٹرولر اور ڈائریکٹر بننے کے لئے کم از کم دو کورسز کی شرط ہونی چاہئے۔
کورسز کے لئے پرائیویٹ سیکٹر سے یا باہر سے کسی پروفیشنل کی خدمات حاصل کی جا سکتی ہیں۔نیوز میں میرے بیج کے بعد تقریباً سات سال نئی بھرتی نہیں کی گئی، لہٰذا اس بیج کے ریٹائر ہونے کے بعد ایک گیپ آ گیا ہے۔ اب ویسے بھی مستقل لوگوں میں چند ایک ہی رہ گئے ہیں اور ایک آدھ کو چھوڑ کر ان کی اہلیت اور قابلیت پر بھی کئی سوالات اُٹھائے گئے ہیں۔ تقریباً یہی حال کرنٹ افیئرز میں بھی ہے، یہی وجہ ہے کہ پروڈکشن سے متعلق تمام شعبوں کے سربراہ قائم مقام ہیں۔ اس خلاء کو پُر کرنے کے لئے ایک نسخہ تو میں نے اوپر بیان کر دیا کہ کسی سینئر عہدے کے لئے اگر کوئی موزوں امیدوار دستیاب نہیں تو باہر سے اوپن میرٹ پر بھرتی کر لیا جائے، دوسرا ایک فوری حل یہ ہے کہ دونوں شعبوں کے لئے ایک تجربہ کار چینل ہیڈ مقرر کر دیا جائے۔
پی ٹی وی ورلڈ کو بھی اسی چینل ہیڈ کے ماتحت کیا جا سکتا ہے۔2002ء میں پروگرام اور نیوز کے شعبوں کو الگ کر دیا گیا۔ پروگرام کے چینل کا نام پی ٹی وی ہوم اور نیوز چینل کا نام پی ٹی وی نیوز رکھ دیا گیا، لیکن یہ تقسیم کچھ ادھوری رہی۔
اوپر قیادت بھی وہی رہی اور نیچے بھی اسلام آباد سنٹر کے علاوہ دوسرے سنٹروں پر کوئی تبدیلی نہیں کی گئی۔ سنٹروں پر بھی ان شعبوں کو کچھ ا لگ مقام دینا چاہئے۔ اُن کا ہیڈ ایک ہی ہو، وہ نیوز سے بھی ہو سکتا ہے اور کرنٹ افیئرز سے بھی۔
این این بی کی طرح کم از کم ایک ایڈمن اور ایک فنانس کا بندہ بھی ان کے لئے الگ کیا جا سکتا ہے جو ان شعبوں کے معاملات کی دیکھ بھال کرے۔ اِن کی اے سی آر بھی جی ایم نہیں، بلکہ متعلقہ کنٹرولرز کو لکھنی چاہئے۔
وقت کے ساتھ ساتھ پی ٹی وی ایک پروفیشنل ادارے کی بجائے ایک روایتی سرکاری ادارہ بن چکا ہے۔ ہنر اور تخلیق کے فروغ کی بجائے پی ٹی وی روزگار کی فراہمی کا ذریعہ بن کر رہ گیا ہے، لہٰذا ادارے کا کلچر بدلنے کی ضرورت ہے۔ ٹیکنالوجی کا استعمال بڑھانے اور سٹاف کم کرنے کی ضرورت ہے، ایڈمنسٹریشن اور فنانس کا کام Computerised کیا جائے ۔روایتی خط و کتابت کی بجائے اب فون پریا ایس ایم ایس سے کام چلایاجا سکتا ہے۔ اس وقت سپورٹنگ محکمے یعنی ایڈمنسٹریشن اور فنانس وغیرہ کا سائز بہت بڑا ہو چکا ہے۔ ورک کلچر کو فروغ دیا جائے۔
سٹاف کی حاضری کے لئے بھی ٹیکنالوجی کا استعمال کیا جائے۔ایڈیٹوریل آزادی کی حدود کو مدنظر رکھنے ،نیوز اور حالات حاضرہ کے پروگراموں میں پالیسی اور سکوپ کا مسلسل جائزہ لیا جانا چاہئے اور اس کے لئے کوئی مستقل میکنزم بنانا چاہئے۔
ڈائریکٹرز اور ایم ڈی کے پاس ورک لوڈ کافی ہوتا ہے، ہر چیز پر نظر رکھنا اُن کے لئے مشکل ہوتا ہے، اس کے لئے پروفیشنلز کی ایک کمیٹی بنانے کی ضرورت ہے جو سکرین پر نظر رکھے اور ایک ہفتہ وار رپورٹ میں خبروں اور پروگراموں کا جائزہ پیش کرے۔ پروگراموں کے لئے یہ کمیٹی آئیڈیاز بھی پیش کر سکتی ہے۔ یہ جائزہ رپورٹ متعلقہ حکام کے لئے بہت مفید ثابت ہو سکتی ہے۔دو باتیں ایسی ہیں جن پر اُسی وقت عملدرآمد ہو سکتا ہے، جب پی ٹی وی کی مالی حالت ٹھیک ہو جائے، اس لئے میں اس کی تفصیلات میں نہیں جاؤں گا۔
ایک تو یہ کہ دنیا کے بڑے دارالحکومتوں میں پی ٹی وی کے نمائندے کی تقرری اور دوسرا پڑوسی ملکوں میں الیکشن کی کوریج کے لئے پی ٹی وی ٹیم بھیجی جانی چاہئے۔پی ٹی وی آج جہاں کھڑا ہے، اس کے لئے زوال کا لفظ شاید کافی نہیں، یہ غیر معمولی حالات ہیں اور اِسے ٹھیک کرنے کے لئے غیرمعمولی اقدامات کرنے ہوں گے، لیکن یہ جتنا جلدی ہو سکے اتنا اچھا ہے۔
یہ معاملہ وزیراعظم کے لئے بھی ایک چیلنج بن گیا ہے۔ اب دیکھتے ہیں، وہ اس سے کیسے نپٹتے ہیں۔ ابھی توجھگڑا پی ٹی وی کی انتظامی آزادی اور خودمختاری کا چل رہا ہے، اس کی ایڈیٹوریل آزادی، جس کا وعدہ پچھلی نصف صدی میں پورا نہیں ہو سکا، وہ اس سے زیادہ مشکل مرحلہ ہو گا۔(ختم شد)