بلاول بھٹو کے کچھ جملے جنہوں نے انہیں مشکل میں ڈال دیا
مین سٹریمنگ پارلیمنٹ کی پالیسی نہیں لہٰذا یہ پاکستان کی پالیسی نہیں ہونی چاہے۔کیا ہم بھارت کو کشمیریوں سے ان کے حقوق چھنننے کا عزر دیتے رہیں گے کیا ہم کسی اور ملک کو اسے ہمارے خلاف عزر اور نمونے کے طور پر استعمال کرنے کا موقع دیتے رہیں گے ؟
بلاول بھٹو کے ان چند سوالات پر ان پر بیرونی آقا کو خوش کرنے کا الزام لگا، اسد عمر کا کہنا تھا کہ یہ سوال اٹھانے سے ملکی مفاد متاثر ہو گا، ملکی مفاد کیا ہے، یہ حکومت،وزرا اور دیگر مقتدرحلقے ہی طے کر سکتے ہیں، کیا عام پاکستانی کو ان پر بات کرنے کا کوئی حق نہیں ؟ بہت سے لوگوں کے نزدیک اسد عمر کا یہ بیان اندرونی آقا کو حوش کرنے کے لیے تھا ،لیکن سارا قصور بلاول بھٹو کا بھی نہیں confused حکومتی موقف خود بھی کئی سوال کھڑے کرتا ہے۔ ایک تنظیم حملوں کی ذمہ داری قبول کرتی ہے لیکن حکومت کہتی ہے اس تنظیم کے خلاف کارروائی کے لیے اس کے پاس ثبوتوں کی کمی ہے ،اگر ملزم اقرار جرم کر لے، پھر بھی کسی ثبوت کا ہونا ضروری ہے؟
بلاول بھٹو کا ایک سوال بہت جائز تھا کہ کیا بھارت کو ہمیں کشمیریوں کے حقوق چھیننیں کا عزر دینا چاہیے، ہم سب جانتے ہیں کہ مسلح کارروائی کے نتیجہ میں کشمیریوں پر بھارت کا ظلم و ستم بڑھ جاتا ہے اور بین الاقوامی سطح پر بھارت کو کشمیر میں فوج رکھنے اور کارروائی کا عزر مل جاتا ہے اور بین الاقوامی سطح پر کشمیر cause کو نقصان پہنچتا ہے، تمام بین الاقوامی جریدوں نے حملہ کرنے والے کو دہشت گرد لکھا، کسی نے فریڈم فائٹر یا مجاہد نہیں لکھا، کیا اس صورت حال میں پاکستانیوں کو ریاستی پالیسی پر بحث کرنے کا موقع بھی نہیں دیا جا سکتا ۔
کیا ملکی مفاد ان سب چیزوں پر بحث میں ہے یا پھر اس میں کہ ہر کسی کی بولنے پابندی لگا دی جائے، کسی کو یہ حق حاصل نہیں کو وہ کسی کی حب ال وطنی پر سوال اٹھا سکے۔
۔
نوٹ:یہ بلاگر کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ۔
۔
اگرآپ بھی ڈیلی پاکستان کیساتھ بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو اپنی تحاریر ای میل ایڈریس ’dailypak1k@gmail.com‘ پر بھیج دیں۔