اہرام مصر سے فرار۔۔۔ہزاروں سال سے زندہ انسان کی حیران کن سرگزشت‎۔۔۔ قسط نمبر 145

اہرام مصر سے فرار۔۔۔ہزاروں سال سے زندہ انسان کی حیران کن سرگزشت‎۔۔۔ قسط ...
اہرام مصر سے فرار۔۔۔ہزاروں سال سے زندہ انسان کی حیران کن سرگزشت‎۔۔۔ قسط نمبر 145

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

کنیز نے شام کو کھانا تیار کروایا اور زہر کا سفوف چپکے سے کھانے میں ملادیا۔ اس کا ذکر اس نے اپنی بہن سے بھی نہیں کیا۔ شہزادہ ہمایوں کھانا کھانے بیٹھا۔ اس نے ابھی ایک ہی لقمہ کھایا تھا کہ اس کا دل زور سے دھڑک اٹھا۔ اس نے ہاتھ کھینچ لیا او رکھانا ایک بلی کے آگے ڈالا گیا۔ جسے کھاتے ہی بلی کا سارا جسم پھول گیا۔ اسی وقت شاہی طبیب کو بلایا گیا اور ایک لقمے کے ساتھ جو زہر شہزادے کے معدے میں گیا تھا، نکال دیا گیا۔
فوراً باورچی، چاشنی گیر اور طعام خاص کی نگرانی ایرانی کنیز اور اس کی بہن کو گرفتا رکرلیا گیا۔ بابر بادشاہ کو اس واقعے کا علم ہوا تو اس نے دونوں کنیزوں کوبلا کر ان سے پوچھا ’’بتاؤ زہر کس نے کھانے میں ملایا تھا؟‘‘
ایرانی کنیز نے تھر تھر کانپتے ہوئے اعتراف کرلیا کہ اس نے ایک جوگی کے کہنے پر ایسا کی اتھا۔ راجپوت جوگی اپنا کام کرکے شہر سے فرار ہوچکا تھا۔ مگر بابر نے ایرانیوں کی جانب سے اسے اپنے خلاف ایک سنگین سازش پر محمول کیا کیونکہ انہی دنوں بعض ایرانی سرداروں نے بلوچستان کی طرف سے ہند پر چڑھائی کرنے کی کوشش کی تھی اور دہلی میں یہ افواہ بھی گرم تھی کہ کچھ ایرانی جاسوس بادشاہ کو ہلاک کرنے کے لئے شہر میں داخل ہوگئے ہیں۔ بابر نے دونوں ایرانی کنیزوں کے سر قلم کروادئیے اور حکم دیا کہ شہر میں جتنے ایرانی موجود ہیں انہیں گرفتار کرلیا جائے۔

اہرام مصر سے فرار۔۔۔ہزاروں سال سے زندہ انسان کی حیران کن سرگزشت‎۔۔۔ قسط نمبر 144 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
اسی سلسلے میں ایک روز شاہی سپاہی میری حویلی بھی پہنچ گئے اور حشمت خان کی ایرانی کنیز ف روشانہ کو پکڑ کر لے گئے۔ مجھے فروشانہ کی گرفتاری کی خبر ملی تو بہت افسوس ہوا۔ مجھے معلوم تھا کہ اسے قتل کردیا جائے گا۔
تین چار روز بعد، ایک رات جبکہ نصف شب کا گجر بج چکا تھا کسی نے میری کوٹھری کے دروازے پر دستک دی میں سمجھا کہ حشمت خان کا کوئی مہمان ہے۔ آدھی رات کو مجھ سے بھلا کون ملنے آسکتا ہے میں نے بستر پر لیٹے ہی لیٹے آواز دی۔ ’’میاں! حویلی کا دروازہ آگے ہے۔‘‘ تھوڑی دیر خاموشی چھائی رہی۔ اس کے بعد پھر دروازے پر دستک ہوئی۔ میں نے ٹھ کر دروازہ کھولا۔ باہر اندھیرے میں مجھے ایک انسانی ہیولا نظر آیا۔ دروازہ کھلتے ہی وہ اندر آگیا۔میں نے پوچھا ’’تم کون ہو؟‘‘ اس نے کوئی جواب نہیں دیا تو میں نے بڑھ کر شمعدان روشن کردیا۔ وہ سیاہ چمکیلی آنکھوں والا، درمیانے قد اور چھریرے بدن کا مالک ایک ادھیڑ عمر شصخ تھا۔ اس نے افغانیوں کا سا لباس پہن رکھا تھا۔ اس کا رنگ گورا اور ناک ایرانیوں کی طرح اوپر کو اٹھی ہوئی تھی۔ وہ میرے سامنے مونڈھے پر بیٹھ گیا او ربولا
’’معاف کرنا بھائی! میں تم سے اجازت لئے بغیر اندر آگیا۔ معاملے کی نزاکت کے پیش نظر مجھے ایسا کرناُ ڑا۔ میرا نام ہرمز ہے اور میں فروشانہ کا بڑا بھائی ہوں۔‘‘
میں نے اس سے مصافحہ کرنے کے بعد پوچھا کہ آدھی رات کو اسے مجھ سے کیا کام پڑگیا ہے اور فروشانہ کیسی ہے؟
’’فروشانہ ہی نے مجھے تمہارے پاس بھیجا ہے۔ شاہی قید خانے کے ایک نگرانی کو راضی کرکے میں نے چند ثانے کے لئے فروشانہ سے ملاقات کی تو اس نے بتایا کہ اسے شہزاید کو زہر دینے کی سازش کے الزام میں قتل کیا جانے والا ہے۔ اس نے مجھے بتایا کہ وہ بے گناہ ہے اور اس کا اس شاہی کنیز سے کوئی تعلق نہیں ہے جس نے شہزادہ ہمایوں کی جان لینے کی کوشش کی تھی۔ وہ رو رہی تھی اور اس نے تمہارے نام ایک پیغام بھیجا ہے۔‘‘
میں نے پیغام کے بارے میں پوچھا تو فروشانہ کے بھائی نے کہا
’’فروشانہ نے کہا ہے کہ عبداللہ سے کہنا کہ میں خدا کو حاضر و ناظر جان کر کہتی ہوں کہ میں بے گناہ ہوں اور مجھے بچائے۔‘‘
’’میں تو خود ایک بے سہارا اور گمنام آدمی ہوں۔‘‘ میں نے کہا ’’میں اسے شاہی قید سے کیسے نکال سکتا ہوں؟‘‘
’’فروشانہ ایک نیک، عبادت گزار مسلمان لڑکی ہے۔‘‘ ہرمز بولا ’’میں تم سے جھوٹ نہیں بولوں گا۔‘‘ میں اپنے پارسی مذہب پر قائم ہوں لیکن میری بہن فروشانہ ایک معصوم اور پارسا لڑکی ہے۔ اس نے کہا ہے کہ صرف عبداللہ ہی میری جان بچانے کی کوشش کرسکتا ہے۔ یہ اس پر اس کے دین کی طرف سے بھی فرض ہے۔‘‘
میں نے کوئی جواب نہیں دیا۔
’’میری بہن کے آنسو نہیں تھمتے تھے۔ شاید وہ تمہیں پسند کرنے لگی ہے۔ جبھی اس نے ایسا پیغام بھیجا ہے۔ وہ بھولی لڑکی یہ نہیں جانتی کہ اسے شاہی قید خانے سے کوئی نہیں نکال سکتا۔‘‘ پھر وہ اٹھا اور بولا ’’معاف کرنا عبداللہ بھائی! مجھے اس کا پیغام پہنچانا تھا، سو میں نے پہنچادیا۔ میں جانتا ہوں کہ میری طرح تم بھی میری بہن کی کوئی مدد نہیں کرسکتے لیکن مجھے اپنا فرض پورا کرنا تھا۔ اچھا، اب میں چلتا ہوں۔ میں نے تمہیں بے آرام کیا۔ مجھے معاف کردینا۔‘‘
ہرمز واپس جانے کے لئے مڑا تو میں نے اسے روک کر کہا ’’ہرمز! ذرا بیٹھو۔‘‘ وہ دوبارہ بیٹھ گیا۔ اس کا چہرہ اپنی چھوٹی بہن کے انجام پر بے حد غمگین تھا۔ فروشانہ کا انجام ہمارے سامنے تھا ملک میں چن چن کر ایرانیوں کو قتل کیا جارہا تھا۔ اس میں کوئی شک نہیں تھا کہ فروشانہ کا زندہ بچنا ناممکن تھا میرے دل میں اس کے لئے ہمدردی کا جذبہ جاگ اٹھا۔ بے شک فروشانہ ایک معصوم اور پارساکنیز تھی۔ میں نے ایک دوبار اسے نہایت خضوع و خشوع سے خداوند کریم کی عبادت کرتے دیکھا تھا۔ علاوہ ازیں اس نے تھوڑی بہت میری خدمت بھی کی تھی۔ وہ بے گناہ تھی اور اسے بچانا میرا فرض تھا۔ پھراس نے مجھ سے مدد کی درخواست بھی کی تھی۔ خدا جانے اسے کیسے یقین آگیا تھا کہ میں اس کی مدد کر سکتا ہوں۔ میں نے ہرمز سے پوچھا کہ وہ کہاں رہتا ہے اور شاہی خاندان کے جس نگران کو اس نے راضی کر کے فروشانہ سے ملاقات کی ہے کیا وہ میری بھی ملاقات کرانے پر آمادہ ہوسکتا ہے؟
’’میں یقین کے ساتھ کچھ نہیں کہہ سکتا۔ شاہی قید خانے کا نگران ایک لالچی آدمی ہے۔ اگر اسے بھاری رشوت دے دی جائے تو ہوسکتا ہے کہ وہ راضی ہوجائے۔ میں شہر کے باہر جمنا کے کنارے ایک بستی میں رہتا ہوں۔ میری کچھ کشتیاں ہیں جن میں سوار ہوکر لوگ دریا پار کرتے ہیں۔ یہی میرا ذریعہ معاش ہے۔‘‘
’’میں جڑی بوٹیوں کا دھندا کرتا ہوں۔‘‘ میں نے ہرمز کو اپنے بارے میں بتایا ’’یہ حویلی میرے آباؤ اجداد کی ملکیت تھی مگر اب اس پر ایک سوداگر نے قبضہ کررکھا ہے۔ اس لئے میرے پاس، شاہی قید خانے کے نگران کو بھاری رشوت دینے کے لئے کوئی رقم نہیں ہے۔‘‘اور یہ حقیقت بھی تھی۔ جب میرا سانپ دوست قنطور میرے ساتھ تھا وہ کسی مدفون کزانے پر پہرہ دینے والے سانپ کی مدد سے زمین میں چھپی ہوئی کسی دولت کا تھوڑا سا حصہ نکلوالیا کرتا تھا مگر اب میرے پاس دولت حاصلکرنے کا ایسا کوئی ذریعہ نہیں تھا۔
’’میرے پاس دریا کے کنارے ایک باغ ہے۔‘‘ ہرمز بولا ’’میں وہ باغ فروخت کردوں گا اور اس کی تمام رقم فروشانہ کی رہائی کے لئے خرچ کردوں گا۔‘‘
ایک بات صاف ظاہر تھی کہ ان لوگوں کو میری خفیہ طاقتوں کا علم نہیں تھا لیکن فروشانہ کو کیسے یقین آگیا کہ میں اس کی مدد کرسکتا ہوں۔ میں نے ہرمز کے دل کا حال معلوم کرنے کے لئے اسے کریدا ’’ہرمز! تمہارے پاس تو اور بھی وسائل ہیں مگر میں تو ایک عام سا بے یارومددگار شخص ہوں پھر میں تمہاری بہن کو شاہی قید خانے سے کیسے نکال سکتا ہوں۔‘‘ اس سوال کے ساتھ ہی میں ہرمز کے چہرے کا بغور جائزہ لینے لگا لیکن اس کا چہرہ بے تاثر رہا۔
’’میں اس حقیقت سے باخبر ہوں۔‘‘ اس نے کہا ’’مگر میری بہن نے تمہارا نام لیا ہے۔ خدا جانے اسے کیسے یقین آگیا ہے کہ نہ صرف تم ہی اس کی مدد کرسکتے ہو۔ بہرحال، میں اس کا بھائی ہوں۔ میں اسے قتل ہوتے نہیں دیکھ سکتا۔ اگر تم بھی میرے ساتھ مل جاؤ تو ہم ایک سے دو ہوجائیں گے۔ میرے لئے یہی بہت ہے۔‘‘
مجھے یقین ہوگیا کہ وہ میری خفیہ طاقت سے بے خبر ہے۔ میں نے ہرمز سے کہا ’’بہتر ہے، میں تمہارے ساتھ ہوں۔ مجھ سے جو ہوسکا تمہارے لئے کروں گا۔ مجھے بتاؤ مجھے کیا کرنا ہوگا؟‘‘
ہرمز کے چ ہرے پر میں نے مسرت کے تاثرات دیکھے۔ وہ جلدی سے بولا ’’تم میرا انتظار کرنا۔ میں شاہی نگران سے رابطہ قائم کرنے کے بعد تمہیں آکر اطلاع کردوں گا۔‘‘
میں نے کہا کہ وقت تھوڑا ہے، اگر ہمیں کچھ کرنا ہے تو پھر زیادہ انتظار فروشانہ کے حق میں مہلک ثابت ہوگا۔ وہ مجھ سے ہاتھ ملاتے ہوئے کہنے لگا
’’میں ایک پل بھی ضائع نہیں کروں گا۔ عبداللہ بھائی۔‘‘ یہ کہہ کر وہ خاموشی سے باہر نکل گیا۔ میں نے کوٹھری کا دروازہ بند کرلیا اور فروشانہ کو شاہی قید خانے سے نکالنے کے بارے میں غور کرنے لگا۔ اگلے روز میں کچھ جڑی بوٹیاں تھیلے میں رکھ کر بازار گیا تو ایک افواہ گرم تھی کہ جن ایرانی لوگوں کو بغاوت کے جرم میں گرفتار کیا گیا ہے انہیں قلعے کے اندر ہاتھوں سے کچلوادیا گیا ہے۔ مجھے تشویش ہوئی۔ بادشاہوں کے فیصلے ایک ثانے میں ہوجاتے تھے اور اسی وقت ان پر عمل بھی کردیا جاتا تھا۔ ہوسکتا ہے یہ افواہ درست ہو۔ مجھے فروشانہ کی موت کا صدمہ ہوا۔ دوپہر کے بعد واپس اپنی حویلی میں آیا تو ڈیوڑھی کے باہر فروشانہ کا بھائی ہرمز کے پیڑ تلے بے چینی سے ٹہلتا میرا انتظار کررہا تھا۔ میں اسے اپنی کوٹھری میں لے آیا
’’تم نے افواہ س نی جو شہر میں گشت کررہی ہے۔‘‘
ہرمز بولا ’’ہاں۔ مگر اس میں کوئی سچائی نہیں۔ میں نے آج صبح شاہی قید خانے کے نگران سے ملاقات کی ہے۔ فروشانہ ابھی زندہ ہے۔ کچھ باغیوں کو ض رور ہاتھیوں کے آگے ڈالا گیا ہے مگر فروشانہ ابھی زندہ ہے۔ شاہی نگران کو میں نے بھاری رقم دے دی ہے۔‘‘(جاری ہے)

اہرام مصر سے فرار۔۔۔ہزاروں سال سے زندہ انسان کی حیران کن سرگزشت‎۔۔۔ قسط نمبر 146 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں