نیا صوبہ اور صبر کا پھل

نیا صوبہ اور صبر کا پھل
نیا صوبہ اور صبر کا پھل

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


اگرچہ کرونا نے پوری دنیا میں مصیبت ڈال رکھی ہے اور ہر محفل میں بات کرونا سے شروع ہو کر کرونا پر ہی ختم ہوتی دکھائی دیتی ہے۔ احتیاطی تدابیر نے خوف کی ایسی چادر تان رکھی ہے کہ اور کچھ سوجھتا ہی نہیں۔ اس کے باوجود مختلف ممالک اور معاشروں میں ”اور بھی غم ہیں زمانے میں محبت کے سوا“ والی صورت حال ہے۔ ہمارے ہاں بھی وزیرخارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی اور مشیر اطلاعات ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان کی مشترکہ پریس کانفرنس نے ایک عرصے سے دبا ہوا معاملہ اجاگر کر دیا ہے۔ یہ معاملہ پنجاب میں نئے صوبے کے قیام کا ہے، جس کو مختلف سیاسی جماعتیں ”مناسب وقت“ پر، اپنے اپنے انداز میں اٹھا کر جنوبی پنجاب سے ووٹ لینے کی کوششیں کرتی چلی آ رہی ہیں ……پھر ”مناسب وقت“ گزر جانے کے بعد اسے طاقِ نسیاں پر رکھ دیتی ہیں۔36 اضلاع اور گیارہ کروڑ کی آبادی والا صوبہ پنجاب دنیا کے سو سے زائد ممالک سے بڑا ہے۔ پاکستان کی کل آبادی (20کروڑ 78لاکھ) کے نصف سے زائد افراد اس صوبے میں رہتے ہیں۔

یہ سب سے گنجان آباد صوبہ ہے۔ پاکستان میں فی کلومیٹر آبادی 236، جبکہ پنجاب میں 536 ہے۔ ملک بھر کی شہری آبادی کا تناسب بھی پنجاب میں زیادہ ہے اور شرح خواندگی بھی بہتر ہے، اس کا نتیجہ ہے کہ آبادی میں اضافے کا تناسب قدرے کم ہے۔ صوبے کے جنوبی اضلاع خواندگی، فی کس آمدنی، صحت، صنعت وغیرہ کے حوالے سے باقی اضلاع کے مقابلے میں پیچھے ہیں۔ اس کی وجہ سے عام احساس محرومی پایا جاتا ہے۔ جنوبی پنجاب کی بہت سی شخصیات ملک اور صوبے کے اقتدار پر براجمان رہیں، مگر وہ اپنے آبائی علاقے کو شمالی یا وسطی پنجاب کے برابر نہ لا سکیں۔ ان میں صدر مملکت، گورنر،وزرائے اعلیٰ، وزراء شامل رہے۔ اگر سرائیکی وسیب کے حوالے سے دیکھا جائے تو میانوالی بھی اس میں شامل ہے۔اگر یوں موجودہ وزیراعظم عمران خان کا تعلق اسی وسیب سے ہے۔ وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی، وفاقی وزیر خسرو بختیار، چودھری طارق بشیر چیمہ، وزیر مملکت زرتاج گل اور وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار کا تعلق سرائیکی وسیب سے ہے۔


وزیراعلیٰ نے یقین دلایا ہے کہ صوبائی ترقیاتی بجٹ کا 34فیصد حصہ جنوبی پنجاب کے لئے نہ صرف مختص ہوگا، بلکہ اسی پر خرچ بھی ہو گا۔ اس سے قبل یہ شکایت عام رہی ہے کہ بجٹ میں جنوبی پنجاب کے لئے بھاری رقوم رکھی ضرور جاتی تھیں، مگر خرچ نہیں ہوتی تھیں، بلکہ کہیں اور منتقل ہو جاتی تھیں، اسی وجہ سے الگ صوبے کا مطالبہ پذیرائی حاصل کر گیا کہ صوبائی حکومت اسی علاقے کی ہوگی تو خرچ بھی یہاں کے نمائندوں کے توسط سے اسی علاقے پر ہو گا۔ بیورو کریسی کے ذریعے وسائل کی منصفانہ تقسیم اس لئے بھی ممکن نہیں کہ بیورو کریسی میں جنوبی پنجاب کی نمائندگی دو تین فیصد ہی بتائی جاتی ہے۔ اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر یہ عوامی مطالبہ ہے تو سیاسی جماعتوں کی حکومتیں اسے نظر انداز کیوں کرتی رہیں؟ پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ(ن) کے ادوار میں نیا صوبہ کیوں نہ بن سکا؟ پیپلزپارٹی کے وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی کا تو تعلق بھی ملتان سے تھا۔ یوسف رضا گیلانی بلاشبہ صوبہ بنا کر علاقے کے عوام کے سامنے سرخرو ہونا چاہتے تھے، مگر ان کے پاس پنجاب اسمبلی اور قومی اسمبلی میں مطلوبہ آئینی اکثریت نہیں تھی۔ پیپلزپارٹی کے دور میں پنجاب میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت تھی۔ آئینِ پاکستان کہتا ہے کہ اگر کسی صوبے کی سرحدوں میں رد و بدل کرنا مقصود ہو تو سب سے پہلے اس مضمون کی قرارداد اس صوبے کی اسمبلی (پنجاب اسمبلی) دو تہائی اکثریت سے منظور کرے۔پنجاب اسمبلی سے قرارداد کی منظوری کے لئے مسلم لیگ(ن) کی حمایت ضروری تھی۔ آئینی طریقہ کار کے مطابق یہ قرارداد پھر قومی اسمبلی سے بھی دو تہائی اکثریت سے منظور کرانا ضروری تھی، جس کے بعد ایوانِ بالا (سینٹ) میں جاتی…… وہاں پیپلزپارٹی کے پاس اکثریت موجود تھی۔ سینٹ سے منظوری کے بعد معاملہ پھر صوبائی اسمبلی پنجاب میں آتا۔ یہاں پھر سے دو تہائی اکثریت درکار ہوتی۔ اس کے بعد حدود اربعہ، نام، دارالحکومت اور وسائل کی تقسیم وغیرہ کے معاملات طے پاتے۔ پنجاب اسمبلی میں قرارداد لانے سے پہلے ہی بہاولپور کے سینیٹر محمد علی درانی نے بحالی صوبہ بہاولپور کا نعرہ لگا دیا۔

اس کا تاریخی پس منظر بھی تھا اور بہاولپور ڈویژن کے عوام کے معتدبہ حصے میں یہ مطالبہ مقبول بھی تھا۔ مسلم لیگ (ن) نے اپنا سیاسی پتا کھیلتے ہوئے ایک کی بجائے دو نئے صوبوں (بہاولپور اور جنوبی پنجاب) کا نعرہ لگاتے ہوئے پنجاب اسمبلی سے اسی مفہوم کی قرارداد منظور کرالی۔ پیپلزپارٹی نے ایوانِ بالا سے بہاولپور جنوبی پنجاب صوبے کے نام سے ایک نئے صوبے کے قیام کی قرارداد منظور کرا لی اور اسے سینٹ میں ہی منظور شدہ محفوظ قرارداد کے طورپر رہنے دیا۔ اس سارے عمل میں اتنا وقت لگ گیا کہ نئے انتخابات سر پر آ گئے۔ ان انتخابات میں مسلم لیگ (ن) کو بھاری اکثریت حاصل ہو گئی اور پیپلزپارٹی پنجاب اور قومی اسمبلی میں اقلیتی پارٹی بن گئی، اس طرح نیا صوبہ دھرے کا دھرا رہ گیا۔ مسلم لیگ(ن) کا مسئلہ سیاسی تھا، اس کا ووٹ بینک شمالی اور وسطیٰ پنجاب میں تھا، اسی لئے اسے جی ٹی روڈ کی پارٹی کی پھبتی سننا پڑتی تھی۔


سرائیکی صوبے کا مطالبہ خانیوال سے اوپر وجود نہیں رکھتا تھا، بلکہ لاہور، فیصل آباد، گوجرانوالہ، سیالکوٹ، جہلم،راولپنڈی کے علاقوں میں اس مطالبے کو پنجاب توڑنے کا مطالبہ سمجھا جاتا تھا، اس لئے عوامی جذبات اس نعرے کے مخالف تھے۔ مسلم لیگ (ن) کو جنوبی پنجاب کے اضلاع میں مقبولیت حاصل نہیں تھی اور مطالبے کی حمایت سے بھی یقین نہیں تھا کہ حالات اس کے حق میں کروٹ لے لیں گے۔ یوں بھی آٹھ دس اضلاع میں مقبولیت کی کوشش بھی پچیس چھبیس اضلاع میں پہلے سے موجود حمایت کو خطرے میں ڈالنا سیاسی دانش کے خلاف ہوتا، اسی لئے مسلم لیگ(ن) نے سرائیکی صوبے کے لئے کوشش کرنے کی بجائے اس علاقے کے عوام کی اشک شوئی کے لئے کچھ اقدامات،بلکہ وعدے وعید پر ہی توجہ مرکوز رکھی۔جنوبی پنجاب سول سیکرٹریٹ کا آئیڈیا بھی مسلم لیگی ذہن کا تھا۔ اس دوران بہاولپور صوبہ کا مطالبہ بھی پس منظر میں چلا گیا۔ مسلم لیگ(ن) جب زیر عتاب آنا شروع ہوئی تو اس میں سے ہی ارکان اسمبلی پر مشتمل صوبہ محاذ وجود میں لایا گیا۔ ”صوبہ بناؤ، حمایت پاؤ“ کو تحریک انصاف سے ”قبول ہے،قبول ہے“ کروا دیا گیا…… مطلوبہ نتائج آ گئے۔ محاذ کے مخدوم خسرو بختیار کو اہم وفاقی وزارت مل گئی۔ وزارت اعلیٰ بھی تونسہ شریف کے حصے میں آ گئی۔ اس کے بعد راوی چین لکھنے لگا۔ سال سوا سال اس حوالے سے کوئی پیش رفت دکھائی نہیں دی۔ اس کی وجہ بھی بہت معقول تھی۔ پی ٹی آئی کی حکومت مرکز، خیبرپختونخوا اور پنجاب پر ہے، کے پی کے میں اس کو دوتہائی اکثریت حاصل ہے۔ پنجاب اور مرکز میں مسلم لیگ (ق) اور ایم کیو ایم کی مرہون منت ہے۔


پنجاب اسمبلی میں پی ٹی آئی کے ارکان کی اکثریت کا تعلق جنوبی پنجاب سے ہے۔ لاہور، فیصل آباد، سیالکوٹ، گوجرانوالہ وغیرہ میں اس کی نمائندگی نہ ہونے کے برابر ہے۔ جنوبی پنجاب کے تیرہ اضلاع میں تحریک انصاف کے ارکان پنجاب اسمبلی کی تعداد 62،جبکہ مسلم لیگ (ن) کے ارکان 32ہیں، تین کا تعلق پیپلزپارٹی اور دو کا مسلم لیگ (ق) سے ہے۔ اس طرح اگر جنوبی پنجاب صوبہ بنتا ہے تو اس کی حکومت یقینی طور پر تحریک انصاف کی ہوگی، مگر تختِ لاہور چھن جائے گا، وہاں اکثریت نہیں رہے گی۔ یوں تخت لاہور سمیت 36اضلاع کی حکومت چھوڑ کر اسے تیرہ اضلاع کی حکومت تک محدود ہونا پڑے گا۔ یہ سیاسی طور پر گھاٹے کا سودا ہوگا اور 23اضلاع کے پنجاب میں آئندہ انتخابات بھی تحریک انصاف کے لئے مشکل ہو جائیں گے۔ اس سودے پر عمران خان اور باقی قیادت کو آمادہ کرنا مشکل ہوگا، اس لئے سب سیکرٹریٹ کا سودا بیچنے کا پروگرام بنایا گیا ہے۔

اس میں بھی بہاولپور سے ایم این اے اور وفاقی وزیر طارق بشیر چیمہ میدان میں اتر آئے ہیں۔ ان کے پاس مسلم لیگ(ق) کا کارڈ موجود ہے، جس کے بغیر پی ٹی آئی کی حکومت قائم نہیں رہ سکتی۔ اس کے مقابلے میں ملتان اور ڈیرہ غازی خان ڈویژنوں میں کوئی ایسی شخصیت نہیں جو اس طرح کا پتہ پھینک سکے۔ پیپلزپارٹی کو کارنر کرنے کے لئے سندھ، بلوچستان اور خیبرپختونخواہ میں نئے صوبوں کے مطالبے کا کارڈ پھینک دیا گیا ہے۔ پیپلزپارٹی کو سندھ میں نیا صوبہ کسی قیمت پر قبول نہیں، اس لئے وہ نئے صوبوں کا دروازہ بند رکھنے میں ہی عافیت سمجھے گی، اس لئے سرائیکی وسیب کے باسیوں کو فی الحال صبر کرنا پڑے گا کہ صبر کا پھل میٹھا ہی کہلاتا ہے۔

مزید :

رائے -کالم -