مہمند ڈیم کی تعمیر۔۔۔ کفر ٹوٹا خدا خدا کرکے
بڑے ترقیاتی منصوبوں کے حوالے سے ہم بطور قوم ہم بڑے مصلحتوں کے شکار ہوتے آئے ہیں۔ کبھی تو اپنے حکمرانوں کو کوستے ہیں کہ وہ یہاں کوئی بڑا منصوبہ نہیں بنا سکے جبکہ سرکاری دفاتر کی الماریوں میں سینکڑوں پراجیکٹ ہمیں سرخ فیتے میں لپٹے نظر آئیں گے جن کو کسی نہ کسی طرح متنازعہ بنا کر ہم نے ردی کی ٹوکری کی نذر کررکھا ہے۔ وطن عزیز ایک کم وسائل کا حامل قرضوں میں دبا ہوا غریب ملک ہے۔ اس کی پس ماندگی دور کرنے کا ٹھوس حل تو یہ تھا کہ یہاں طویل المعیاد منصوبہ بندی کرکے ایسے میگا پراجیکٹس پر کام کیا جاتا جو ملک کو مضبوط معاشی بنیاد فراہم کرتے لیکن ہمارا رویہ اس کے برعکس رہا۔پاور سیکٹر کی بات کریں تو ہماری قیادت نے ہمیشہ ڈے ٹو ڈے کی بنیاد پر فیصلے کئے۔ ہونا تو یہ چاہئیے تھا کہ آبی ذخائرکے لئے انتہائی موزوں محل وقوع ہونے کا پورا فائدہ اٹھایا جاتا۔
بڑے ڈیم بنائے جاتے جن سے ملنے والی سستی پن بجلی سے نہ صرف صنعتیں چلتیں، روزگار ملتا، برآمدات بڑھتیں، بلکہ زراعت بھی ترقی کرتی۔ لیکن ہمارا تو باوا آدم ہی نرالا ہے۔ بجلی پیدا کرنے کے نئے پلانٹ اس وقت تک نہ لگائے گئے جب تک لوڈ شیڈنگ کا دورانیہ بارہ بارہ گھنٹے تک نہ پہنچ گیا۔ اور پھر اس کے لئے بھی وہی ڈنگ ٹپاؤ پالیسی کہ مہینوں میں مکمل ہونے والے تھرمل پاور منصوبوں لئے غیرملکی کمپنیوں سے ان کی شرائط پر مہنگے معاہدے کرکے گھروں کو روشن کرنے کا جتن کیا گیا۔ تاہم اب حکومت نے بڑے ڈیمز کی تعمیر کے حوالے سے پالیسی تبدیل کی ہے۔ دیامیربھاشا اور مہمند ڈیم کی تعمیر پر عملی طور پر کام شروع ہوچکا ہے۔ گذشتہ دنوں واپڈا کے چئیرمین لیفٹننٹ جنرل ریٹائرڈ مزمل حسین کی دعوت پر صحافیوں کے ایک وفد نے مہمند ڈیم پراجیکٹ کا دورہ کیا۔ ڈیم پراجیکٹ پر چئیرمین واپڈا نے خود سائٹ پر پہنچ کر صحافیوں کا استقبال کیا اور انہیں مختلف مقامات پر کا دورہ کرایا گیا۔ اس موقع پر واپڈا کے جنرل منیجر لینڈ ایکوزیشن اینڈ ری سیٹلمنٹ بریگیڈیئر شعب تقی(ریٹائرڈ)، جنرل منیجراور پراجیکٹ ڈائریکٹر مہمند ڈیم ہائیڈرو پراور پراجیکٹ جاوید آفریدی، کنسلٹنٹس اور کنٹریکٹرز کے نمائندگان اور واپڈا کے دیگر سینئر حکام بھی اِس موقع پر موجود تھے۔
وفد نے زیر تعمیر روڈز، دفاتر، کالونی، ڈائی ورشن ٹنل، اری گیشن ٹنل اور ری۔ریگولیشن پانڈپر تعمیراتی کام کا جائزہ لیا۔اِس موقع پر گفتگو کرتے ہوئے چیئر مین واپڈانے بتایا کہ مہمند ڈیم اپنی ساخت کے اعتبار سے پانچواں بڑا سی ایف آر ڈی(Concrete- face-rock-fill)ڈیم ہے۔ منصوبے کے لئے تمام ترجیحی اراضی حاصل کی جاچکی ہے اور اِس حوالے سے مقامی قبائل، ضلعی انتظامیہ اور صوبائی حکومت خیبر پختونخوا کا تعاون مثالی ہے۔ اْنہوں نے کہا کہ واپڈا مقامی لوگوں کی معاشرتی اور معاشی ترقی کیلئے اعتماد سازی کے اقدامات کے تحت پراجیکٹ ایریا میں تعلیم، صحت اور دیگر سہولیات کے منصوبوں پر 4 ارب 53 کروڑ روپے خرچ کرے گا۔ اْنہوں نے سیکورٹی فورسز کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ مؤثر سیکورٹی انتظامات کے باعث پراجیکٹ پر اب دِن کے ساتھ ساتھ رات کو بھی تعمیراتی کام جاری ہے۔ دریائے سوات پر تعمیر ہونے والے مہمند ڈیم میں پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت مجموعی طور پر 1.2ملین ایکڑ فٹ ہوگی، 800 میگاواٹ پن بجلی پیدا ہوگی، نیشنل گرڈکو سالانہ 2 ارب 86 کروڑ یونٹ سستی پن بجلی مہیا ہوگی اورساتھ ہی پشاور، چارسدہ اور نوشہرہ کے علاقوں میں سیلاب کی روک تھام ممکن ہوسکے گی۔ مہمند ڈیم میں ذخیرہ کئے گئے پانی سے ایک لاکھ 60 ہزار موجودہ اراضی کے علاوہ تقریباً 16 ہزار 7 سو ایکڑ نئی اراضی بھی سیراب ہوگی جبکہ پشاور کو روزانہ 300 ملین گیلن پانی بھی پینے کے لئے فراہم کیا جائے گا۔
اْنہوں نے مزید کہا کہ منصوبے سے ہر سال تقریباً51ارب 60 کروڑروپے کے مساوی فوائد حاصل ہوں گے۔ اس ڈیم کی سب سے بڑی خوبی یہ نظر آئی کہ اس سے جب پشاور، نوشہرہ اور چارسدہ کو سیلاب سے محفوظ کرلیا جائے گا تو اس کے بعد دریائے سندھ پر ڈاؤن سٹریم دوسرے بڑے ڈیمز بنانے میں حائل رکاوٹیں بھی دور ہوجائیں گی۔یہاں مجھے ایک واقعہ یاد آرہا ہے کہ نیلم جہلم ہائیڈرو پاور پراجیکٹ کی تعمیر کے دوران کبھی مالی مشکلات تو کبھی مقامی رکاوٹیں حائل ہوتی رہیں۔ سابق وزیراعظم نوازشریف نے وزارت عظمیٰ کا حلف اٹھانے کے فوری بعد جب نیلم جہلم پراجیکٹ کا دورہ کیا تو سالوں کی تاخیر پر سخت برہم ہوئے اور کہا کہ مجھے ایک سال میں یہ منصوبہ مکمل چاہئیے اس پر تو پرجیکٹ کے چیف ایگزیکٹو آفیسر جنرل ریٹائرڈ محمد زبیر کا کہنا تھا کہ انہیں ہرماہ دو ارب روپے دے دئیے جائیں تو وہ ایک سال سے پہلے ہی اسے مکمل کردیں گے لیکن اس کے بعد ماحول پر خاموشی طاری ہوگئی۔ اور پراجیکٹ مزید دو سال لیٹ ہوگیا۔اس کے برعکس مہمند ڈیم کے لئے اب فنڈز مکمل طور پر دستیاب ہیں، پراجیکٹ سائٹ پر بڑی بڑی مشینیں جس تیز رفتاری سے کام کررہی تھیں انہیں دیکھ کر یہ خوشگوار اور حوصلہ افزا احساس ہوا کہ اگر وسائل موجود ہیں تو جذبہ بھی نظر آیا، لگتا ہے کہ ہم پٹڑی پر چڑھ گئے ہیں اوراب کام رکنے والا نہیں۔