روحی کنجاہی: کچھ یادیں، کچھ باتیں
چند روز قبل اردو غزل کی ایک توانا آواز، سکوتِ ابدی کی چادر اوڑھ کر سو گئی۔ شعر و سخن کے رسیا، اس آواز کو روحی کنجاہی کے نام سے جانتے، پہچانتے اور مانتے تھے۔ اپنی جنم بھومی کنجاہ انہوں نے اوائل شباب میں ہی چھوڑ دی تھی۔ دس برس تک آٹھ بازاروں اور چمنیوں کے شہر لائل پور کی ایک ٹیکسٹائل مل کا ایندھن بنے رہے۔پھر لاہور نے انہیں صدا دی۔ انہوں نے لبیک کہا اور اپنی بے سروسامانی اٹھا کر اس شہر خوباں میں آگئے۔ یہاں انہوں نے نوکری بھی کی، افسری بھی کی۔ شادی بھی کی اور آوارہ گردی بھی کی۔ نام کمایا، مقام بنایا لیکن اپنے جوہرِ سخن کو سربازار رکھ کر بیچ نہ سکے۔ خواب دیکھے تو تعبیر روٹھ گئی۔ پھول چننے کی کوشش کی تو انگلیاں کانٹوں میں الجھ کر زخمی ہوگئیں۔ وہ ”اچھے دنوں کی آس میں“ ”غزل غزل زندگی“ کو نئی ”سمتیں“ دیتے رہے لیکن:
روحی تمام خواب ادھورے ہی رہ گئے
اس دل نے کوئی کام بھی کرنے نہیں دیا
روحی صاحب سے میرا تعلق نوے کی دہائی کے شروع میں قائم ہوا۔ میں ایک اخبار کے نیوز روم میں بے ڈھب اور الجھی ہوئی خبروں کو متوازن بنانے کا کام کرتا تھا۔ روکھے پھیکے لفظوں کو سرخی پاؤڈر لگاتا تھا۔ روحی صاحب پروف ریڈنگ سیکشن میں بیٹھ کر میری اور دوسرے سب ایڈیٹروں کی بنائی ہوئی خبروں کی غلطیاں نکالتے اور درستی کراتے۔ پروف ریڈر، معمول کی قابلیت رکھتا ہو تو وہ مسودے کو سامنے رکھ کر خواندگی کرتا ہے۔ معمول سے بڑھ کر ذہین اور صاحب ِ مطالعہ ہو تو وہ مسودے کو ایک طرف رکھ کر اپنا علم بروئے کار لاتا ہے اور کاتب کی غلطی درست کرنے کے ساتھ ساتھ لکھنے والے کی اصلاح بھی کرتا جاتا ہے۔ روحی صاحب بھی ایسے ہی پروف ریڈر تھے۔ وہ خبر کا مسودہ ایک طرف رکھ دیتے اور کمپوزر کی کمپوز کی ہوئی خبریں منٹوں میں پڑھ ڈالتے۔ اگر کسی خبر میں کوئی مصرع یا شعر استعمال کیا جاتا تو وہ بطورِ خاص روحی صاحب کے حوالے کی جاتی۔ تب نیوز ایڈیٹر بھی ایسے ہوا کرتے تھے جو غلط مصرع یا شعر چھپ جانے کو گناہ تصور کرتے تھے۔ وہ چو نکہ اس زمانے میں ایک مشہور شاعر تھے اس لیے سارا نیوز روم ان کا دیوانہ تھا۔ عثمان یوسف، بیدار بخت بٹ، عبداللہ طارق سہیل اور نوید چوہدری جیسے لوگ بھی ان کا نام احترام سے لیا کرتے تھے۔ مجھے بھی روحی صاحب اس لیے اچھے لگتے تھے کہ وہ شاعر ہیں۔ انہی کے شعبے میں آفتاب کاوش بھی ہوا کرتے تھے۔ وہ گوہر ہوشیار پوری کے شاگرد تھے اور قسمت آزمانے کے لیے اپنا شہر ساہیوال چھوڑ کر لاہور آئے تھے۔ وہ قسمت تو نہ آزما سکے البتہ قسمت انہیں قدم قدم پر آزماتی رہی۔میں دوپہر کا کھانا اکثر و بیش تر آفتاب کاوش اور روحی صاحب کے ساتھ کھاتا۔ شام کی چائے بھی ہم تینوں اکٹھے پیتے۔ پورے دفتر میں ہماری ٹرائیکا مشہور ہو چکی تھی۔ حتیٰ کہ ہم تینوں ہفتہ وار چھٹی بھی ایک ہی دن کیا کرتے تھے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب روحی کنجاہی زرعی ترقیاتی بینک سے رضا کارانہ ریٹائرمنٹ لے چکے تھے۔ ریٹائرمنٹ پر یک مشت ملنے والے پیسوں سے انہوں نے اس زمانے میں ٹاؤن شپ جیسے ویرانے میں سات مرلے کا ایک مکان خرید لیا تھا۔
روحی صاحب دوسروں کی بات کم سنتے تھے۔ ان کی قوت سماعت جو کم تھی۔ آلہ ئ سماعت لگاتے تھے۔لوگ مشاعروں میں شاعروں کے شعر سن کر مکرر مکرر کی صدائیں بلند کرتے ہیں، روحی صاحب ہر شخص کی ہر بات مکرر سننے کے عادی تھے۔ اپنے فائدے کی بات وہ پہلی سماعت ہی میں سمجھ جاتے تھے۔ہر شاعر کی طرح روحی صاحب ایک نرم خو اور گْل مزاج آدمی تھے۔ انسان دوستی کا پیکر تھے۔ایک زمانے میں ریڈیو پاکستان لاہور کے شعبہ موسیقی سنٹرل پروڈکشن یونٹ میں ہر ماہ چوبیس یا پچیس غزلیں اور گیت ریکارڈ ہوتے تھے۔ موسیقار، شاعر، گلوکار، سازندے اور ہم نوا قسم کے فنکار ہر وقت دکھائی دیا کرتے تھے۔ نوے کی دہائی میں روحی صاحب کو سی پی یو کے کنٹرولر عبدالرب شجیع صاحب نے گانے کے لیے شاعروں کے کلام تلاش کرنے کی ذمہ داری دی ہوئی تھی۔ مجھے پہلی بار سی پی یو میں روحی صاحب ہی لے گئے تھے۔ اس یونٹ سے میری ایسی نبھی کہ آج تک نہیں بگڑی۔ ریڈیو کے لیے میں نے لاتعداد گیت لکھے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس سارے کام کا کریڈٹ میرے بزرگ دوست روحی کنجاہی کو جاتا ہے۔ وہ اگرچہ عمر میں مجھ سے بہت بڑے تھے لیکن میں جب بھی ٹاؤن شپ والے مکان میں انہیں ملنے جاتا، ایک نیا دکھ ساتھ لے کر آتا۔ ایک بار گیا تو پتا چلا کہ ساری عمر کی کمائی سے بنایا ہوا سات مرلے کا مکان ہاتھ سے گنوا بیٹھے ہیں اور اب کرائے کے مکان میں رہتے ہیں۔ ایک بار تو وہ اس مکان میں بطور کرایہ دار رہے جو انہوں نے اپنے خون پسینے کی کمائی سے کھڑا کیا تھا۔ ایک بار گیا تو پتا چلا کہ اپنے بڑے بیٹے کے لیے بہت پریشان ہیں۔ ایک بار اسے لے کر فاؤنٹین ہاؤس آئے۔ آپ خود ہی سوچئے کہ کتنا دل دہلا دینے والا منظر ہوگا؟ عام طور پر جوان اولاد اپنے بوڑھے ماں باپ کو علاج کے لیے ہسپتال میں لے کر جاتی ہے لیکن یہاں معاملہ الٹ تھا۔ معمر اور ضعیف روحی کنجاہی اپنے مضمحل قویٰ اور ہاتھ میں پکڑی ہوئی چھڑی کے ساتھ اپنے جوان بیٹے کو لیے چلے آ رہے تھے۔
روحی صاحب نے چونکہ زندگی کو بہت قریب سے دیکھا تھا اس لیے ان کی غزل کے موضوعات میں بھی زندگی کا سا تنوع پایا جاتا ہے۔ وہ بڑی سے بڑی بات نہایت آسان الفاظ میں کہنا جانتے تھے۔ ان کے شعروں میں زبان زدِ عام ہونے کی صلاحیت قدرتی ہے۔ آخر میں ان کے یہ شعر ملاحظہ کیجئے جو آج ہم سب کے حافظوں میں موجودہے۔
خبر گرم لایا ہوں روحی
چور، چوروں کے ہاتھ کاٹیں گے