سیاسی اُٹھک بیٹھک
ملک کا سیاسی منظر نامہ اس وقت حشر کا سا سماں پیش کر رہا ہے۔ ہر طرف نفسا نفسی کا عالم ہے اور کسی کی سمجھ میں نہیں آ رہا کہ کیا ہو رہا ہے اور کیا ہونے والا ہے‘ اور یہ کہ کسی کو کیا کرنا چاہئے۔ اصل معاملہ یا مسئلہ کیا ہے‘ یہ تو سبھی جانتے ہیں کہ اپوزیشن نے وزیر اعظم کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد پیش کر دی ہے جو اس کا آئینی اور قانونی حق ہے جس سے اسے محروم نہیں کیا جا سکتا۔ اب ہونا تو یہ چاہئے کہ جو بھی سیاسی جوڑ توڑ ہونی ہے‘ ہو جائے اور پھر قومی اسمبلی کے اندر ووٹنگ کے ذریعے فیصلہ ہو کہ عوام کے منتخب نمائندے عمران خان کو وزیر اعظم رکھنا چاہتے ہیں یا نہیں۔ تحریک ناکام ہو جاتی ہے تو خان صاحب اپنی حکومت اور اپنی پالیسیاں جاری رکھیں اور اگر کامیاب ہو جاتی ہے تو اس آئینی فیصلے کو تسلیم کرتے ہوئے گھر چلے جائیں‘ اور اگلے عام انتخابات کی تیاری کریں‘ جس میں اب محض ڈیڑھ سال بچا ہے‘ لیکن ہو یہ رہا ہے کہ جلسوں‘ جلوسوں‘ سیمیناروں اور بیانات میں یہ واویلا کیا جا رہا ہے کہ چوروں کا ٹولہ انہیں باہر نکالنا چاہتا ہے۔
پہلی بات تو یہ ہے اپنی حکومت کے ساڑھے تین سالوں میں عمران خان صاحب نے کب اور کہاں ثابت کیا کہ یہ چوروں کا ٹولہ ہی ہے۔ اب تک یہ ثابت نہیں ہو سکا تو اس پر بحث کیوں؟ ممکن ہے یہ چوروں کا ٹولہ ہی ہو‘ لیکن ثابت تو کریں۔ اب تک تو اس حوالے سے زبانی جمع خرچ ہی مشاہدے میں آ رہا ہے۔ اب بندہ زبانی جمع خرچ پر کتنا اور کب تک اعتبار اور گزارہ کرے۔ پھر گزشتہ ساڑھے تین سالوں میں خان صاحب کو نہ تو عوام کی یاد آئی اور نہ ہی عوام کے منتخب نمائندوں کو وہ وقعت دی گئی‘ جو ان کا حق ہے۔ لاکھوں لوگوں کا نمائندہ ہونا چھوٹی بات نہیں ہے۔ یہ بہت بڑا اعزاز اور پروردگار کی رحمت ہے‘ اگر کوئی سمجھے۔ اب اچانک انہیں عوام کا خیال آ گیا ہے اور جلسے جلوس شروع ہو گئے ہیں۔ اور جلسے جلوسوں میں بھی بات یہ نہیں ہو رہی کہ وہ اگلے ڈیڑھ سالوں میں ملک اور عوام کے لئے کیا سوچ رہے ہیں‘ بلکہ یہ ہے کہ فلاں یہ ہے‘ فلاں وہ ہے‘ فلاں نے یہ کر دیا‘ فلاں نے وہ کر دیا اور میں اگر تحریکِ عدم اعتماد سے بچ گیا تو اس کے ساتھ یہ کر دوں گا۔ عوام کو بتانے والاکوئی نہیں کہ ان کے مسائل کے حل کی طرف توجہ کون دے گا۔
دوسری جانب اپوزیشن ہے جس کا شروع دن سے یہ ماٹو رہا ہے کہ عمران خان کی حکومت کو چلنے نہیں دینا اور حکومت کا خاتمہ کرنا ہے‘ لیکن صورت حال یہ ہے کہ ان تین ساڑھے تین سالوں میں وہ بھی کچھ نہیں کر پائی۔ چند ضمنی الیکشن ضرور جیتے‘ باقی سب کچھ وہی ہوا جو حکومت نے چاہا‘ چاہے وہ پالیسیاں ہوں‘ اقدامات یا پارلیمنٹ سے بلوں کی منظوری۔ اپوزیشن نے جب بھی ہمت باندھی اور کچھ کرنے کی کوشش کی کمزوری غالب آتی رہی جس کی وجہ روز روشن کی مانند عیاں اور ظاہر ہے کہ اپوزیشن کی ہر پارٹی کا رخ دوسری سے الگ رخ پر ہے‘ ظاہر ہے کہ سوچ کے زاویے بھی نہیں ملتے‘ ورنہ سادہ اکثریت والی حکومت کو ختم کرنا کون سا مشکل کام تھا۔ سب نے دیکھا کہ اپوزیشن کی ایک پارٹی ایک بات پہ راضی ہوئی تو دوسری نے اختلافات دکھائے‘ دوسری راضی ہوئی تو پہلے والی کی سوچ تبدیل ہو گئی۔ ذرا خود ہی اندازہ لگا لیجئے کہ تحریکِ عدم اعتماد پر اپوزیشن پارٹیوں میں گزشتہ ساڑے تین سالوں میں کتنی بحث ہوئی اور کتنی بار اختلافات پیدا ہوئے اور بڑھے۔ اپوزیشن کا اتحاد پی ڈی ایم اپنے کتنے اہداف پورے کر سکا ہے‘ یہ تو سبھی جانتے ہیں۔ بہرحال اب اپوزیشن کی سب جماعتوں نے تحریکِ عدم اعتماد پر اتفاق کرتے ہوئے تحریک قومی اسمبلی کے سیکرٹریٹ میں جمع کر ا دی ہے تو محسوس ہو رہا ہے کہ اس بار شاید اپوزیشن کی امید بر آئے۔
تیسری جانب عوام ہیں جن کا مہنگائی کے جن نے کچومر نکال کے رکھ دیا ہے اور دو بڑوں کی لڑائی میں مزید نکل رہا ہے۔ ملک میں اشیائے خوردنی کی قلت بھی ہے اور گرانی بھی۔ ان کی قیمتوں میں جس تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے وہ وقت دور نہیں جب عام آدمی کو واقعی آدھی خوراک کھا کر گزارہ کرنا پڑے گا۔ دن بدن شدت اختیار کرتے ہوئے مہنگائی کے طوفان نے غریبوں کا خون تک نچوڑ لیا ہے۔ پاکستانی معیشت کا اتار چڑھاؤ اس کے غیر مستحکم ہونے کی طرف اشارہ ہے لیکن حکمران ’سب ٹھیک ہے‘ کے عندیے دے رہے ہیں اور یہ طفل تسلیاں کہ جلد ہی سب ٹھیک ہو جائے گا۔ لیکن کب؟ اس سوال کا جواب دینے کے لئے کوئی تیار نہیں۔ دراصل کمزور معیشت اور افراطِ زر ہی اصل مسئلہ ہے جس کی طرف توجہ دینے کی اور طویل المیعاد پالیسیاں بنانے کی ضرورت ہے اور اسی طرف کوئی توجہ دینے کو تیار نہیں۔ پٹرول، ڈیزل اور بجلی کے نرخوں میں آئے روز کا اضافہ صرف مہنگائی ہی نہیں غربت بڑھانے کا بھی سبب ہے۔ لوگ مہنگائی کے سبب پیٹ کاٹ کاٹ کر جینے پر مجبور ہیں۔ وہ اپنی ایک ضرورت پوری کرنے کے لئے اپنی کسی دوسری ضرورت کا گلا گھونٹنے پر مجبور ہیں۔ یہ اسی حکومت کے دور میں ہوا ہے کہ مہینے کا اکٹھا سامان لانے کا رواج ختم ہوتا جا رہا ہے۔ لوگوں کی قوتِ خرید ہی باقی نہیں رہ گئی‘ ان لوگوں کی خاص طور پر جو دیہاڑی دار ہیں اور پورا دن فٹ پاتھوں پر بیٹھ کر مزدوری کی تلاش میں رہتے یا جو اعلیٰ تعلیم کے باوجود کم پیسوں والی نوکری کرنے پر مجبور ہیں۔
ان مصیبت کے ماروں کو اس سیاسی اُٹھک بیٹھک سے کیا غرض ہو سکتی ہے جو اس وقت ملک میں جاری ہے۔ کہنا مجھے بھی وہی ہے جو چودھری شجاعت حسین صاحب نے کہا ہے کہ حکومت اور اپوزیشن ملک کے اعلیٰ ترین مفاد میں اسلام آباد میں اپنے اپنے جلسے منسوخ کر دیں۔ انہوں نے حکومت کی جانب سے جلسے کے انعقاد کے اعلان پر بجا طورپر حیرانی کا اظہار کرتے ہوئے یہ بھی کہا کہ اپوزیشن تو جلسوں کی سیاست کرتی ہی ہے مگر اس وقت حکومت بھی اس کے مقابلے میں جلسے کرنے لگ گئی ہے جو اس کا کام نہیں۔ تحریکِ عدم اعتماد سیاسی معاملہ ہے تو اس کو پارلیمنٹ کے اندر آئینی انداز میں نمٹائیے۔ لا یعنی سیاسی جلسے بند ہونے چاہئیں۔ جلسے کرنے ہیں تو ملک‘ عوام اور ان کے مسائل کی بات کیجئے۔