تھوڑے لکھے کو زیادہ جانیں!

 تھوڑے لکھے کو زیادہ جانیں!
 تھوڑے لکھے کو زیادہ جانیں!

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


جب ہم طالب علم تھے تو اساتذہ تلقین کرتے کہ پاکستان ٹائمز پڑھا کرو، اس سے تم لوگوں کی انگریزی درست ہو گی چنانچہ یہ اور اس وقت کے دوسرے ایک دو اخبارات لائبریری میں ملتے اور ہم دوچار دوست دیکھ لیا کرتے تھے، دسویں جماعت میں ہمارے انگریزی کے ٹیچر عبدالرزاق تھے وہ بہت ہمدرد اور مہربان استاد تھے جو طالب علم پڑھائی میں بہتر ہوتا وہ ان کی زیادہ توجہ کا مستحق ٹھہرتا تھا، میں جب ساتویں جماعت میں اسلامیہ ہائی سکول شیرانوالہ گیٹ میں داخل ہوا تو محترم رزاق صاحب انگلش ہی پڑھاتے تھے،اس کے بعد ان سے واسطہ دہم میں ہوا، یہ دور جمہوریت کا تھا اور اکثر پاکستان ٹائمز میں تبصرہ نظر سے گزرتا اور لکھنے والے تحریر کے ساتھ سرخی پر نظر پڑھتی تو یہ سرخی بھلی لگتی ”اسمبلی میں میاں ممتاز دولتانہ نے بہترین تقریر کی“ بعد میں اندازہ ہوا کہ یہ ڈائری یا پریس گیلری سے رپورٹر کی رائے ہوتی تھی، اس سے ہمارا تجسس بیدار ہوا، یہ غالباً 1953ء یا 54ء کا دور تھا، جب ہم چار دوستوں نے میاں ممتاز دولتانہ سے ملنے کی خواہش کی، میرے والد تحریک پاکستان کے معروف کارکن تھے، ان کو بتایا تو انہوں نے وقت لے دیا اور ہم چاروں دوست کوئین میری کالج کے ساتھ گلی سے ہوتے ہوئے ان کی حویلی نما کوٹھی پہنچ گئے۔ ہمیں محترم کی لائبریری میں بٹھایا گیا، کوئی کروفر نہیں تھا، وہ تب وزیراعلیٰ تھے تاہم ہم طلباء کے ساتھ ایک بزرگ کی طرح پیش آئے۔ ہماری تواضع ییلولیبل چاکلیٹ چاء اور بسکٹ سے ہوئی، پھر انہوں نے قریباً ایک گھنٹہ ہم سے بات کی اور بہت سی نصیحتیں کیں، بڑی بات یہ تھی کہ ان کی طرف سے تعلیم پر زور دیا گیا اور ہدائت کی کہ مسلمان تعلیم کے حوالے سے پیچھے رہے ان کی موجودہ نسل کو یہ کمی پوری کرنا چاہیے۔

حاصل ذکر یہ ہے کہ میرے ایک دوست نے میاں صاحب سے سوال کیا ”سر لیڈر کیسے بنا جاتا ہے“ ممتاز دولتانہ نے پلکیں اٹھا کر میرے اس ساتھی کی طرف دیکھا اور کہا، نوجوان! تمہارے اندر سیاسی جراثیم لگتے ہیں، یہ (میری طرف اشارہ کرکے) سیاسی رہنما کا بیٹا ہے،  اسے تو شوق نہیں لگتا، بہرحال اس کے بعد ان بزرگ اور ذہین سیاست دان نے بتایا“ ایک فارمولا ہے، اگر کسی نامعلوم یا غیر معروف کو لیڈر بنانا مقصود ہے تو اس کی مخالفت شروع کرا دو، اور یہ سلسلہ جاری رہے اس شخص کی طرف سے جواب نہ آئے، لوگوں کے اندر از خود تجسس پیدا ہوگا اور پھر جب اس فرد کو باہر عوام میں لائیں گے تو اس مخالفت کی وجہ سے جانا پہچانا ہوگا، اس کے جواب کا سلسلہ شروع ہو تو مخالفت بتدریج تھوڑی کم کر دو، لیڈر بنا بنایا مل جائے گا، بشرطیکہ خود اس کے اندر بھی کچھ ہو، میں نے پوچھا، سر! کیا سب ایسے ہی بنے ہیں تو وہ ہنس پڑے، بولے ”نہیں اکثر رہنما اپنی خدمت اور اہلیت کی وجہ سے عوام میں مقبول ہوتے ہیں۔


میاں ممتاز دولتانہ نے اس سلسلے میں اور بھی بہت کہا کچھ تاہم اس سوال اور جواب کا نتیجہ یا عمل یہ تھا کہ مخالفت بھی شہرت کا باعث بنتی ہے۔ دوسرے معنوں میں ”بدنام جو ہوں گے تو،کیا نام نہ ہوگا“ یہ اس دور کی بات ہے جب فون بھی خال خال تھا اور صرف چند اخبارات ہوتے  تھے اور آج کا دور جدید تو ہے ہی ٹیکنالوجی کا دور اور وہ بھی سیٹلائٹ اور آئی ٹی کا، اس میں اب میڈیا (حقیقی) کے علاوہ سوشل میڈیا نام کا مسئلہ بھی ہے جو اسی کام میں جتا ہوا ہے  کہ کس کی پگڑی کیسے اچھالنا ہے۔ اس سلسلے میں ایک دوڑ لگی ہوئی ہے۔ یہ گزارشات اس لئے کیں کہ ان دنوں ایک رہنما بہت زیر بحث ہیں، اگرچہ وہ خود بھی بولتے ہیں، کسی سے کم نہیں، لیکن ان کے مخالفین کی کوئی بات ”ذکر خیر“ کے بغیر مکمل نہیں ہوتی۔


طالب علمی اور حیدرآباد (سندھ) سے ہنرمندی کے ڈپلوموں کے بعد جب واپس لاہور  آیا اور صحافت  میں شمولیت حاصل ہو گئی، جیسے آگ لینے جانے والے کو معرفت مل جائے۔چنانچہ عملی میدان میں قدم رکھا تو سب پڑھا،سنا کام آنے لگا۔ مطالعہ کی عادت نے جو پرائمری ہی سے شروع ہو گئی تھی بہت مدد دی اور میں نے روزنامہ امروز سے یہ پیشہ شروع کرنے کے بعد جلد ہی عبور بھی حاصل کر لیا اور آج تک وابستہ ہوں، اس دوران جو تجربات ہوئے وہ زندگی کا اثاثہ بھی ہیں اور آج کے دور میں پچھتاوا بھی ہے کہ میں نے مکینیکل انجینئرنگ والا پیشہ کیوں چھوڑا اور لاہور کی محبت میں برطانیہ میں تربیت کی پیشکش کیوں ٹھکرا دی، اللہ بھلا کرے مسٹر ہیرنگٹن کا جنہوں نے میرے ڈپلومہ کے نتائج اور پریکٹیکل کا امتحان لیتے ہوئے مجھے یہ پیشکش کی تھی، میں لاہور کی محبت میں مبتلا تھا اس لئے سندھ چھوڑ آیا، حالانکہ اس خطے کی تہذیبی کہاوت ہے،  پَلّا مچھی کھا“ سندھ چھوڑ کے نہ جا“۔

اس پیشہ (صحافت) میں بہت دل لگا کہ اللہ کی کرم نوازی سے عزت و محبت بھی پائی، لیکن آج کے حالات دیکھ کر سوچتا ہوں کہ ”خودکردہ علاج رانیست“ کے مطابق جب میں نے شوق سے یہ پیشہ اختیار کر ہی لیا تو اب پچھتانا کیا میں نے جو گزارش ابتدا میں کی، میرے قارئین یقینا جان گئے ہوں گے کہ میں کیا کہنا چاہتا ہوں اور یہ میرا تجربہ بھی ہے اور سیاسی میدان میں جس کی برائی کی جائے وہ بھی اس کو فائدہ پہنچاتی ہے اور آج کل بھی یہی ہو رہا ہے۔ اگرچہ ہمارا تعلیمی سے لے کر صحافتی دور مہذب پن اور اخلاقیات کا دور رہا ہے اور دنیا سے اٹھ جانے والے سیاسی رہنما نہ صرف ایک دوسرے کے نام احترام سے لیتے تھے بلکہ سیاسی مخالفت کو ذاتی تعلقات پر کبھی ترجیح نہیں دیتے تھے۔ شادی بیاہ، غم، خوشی سانجھی ہوتی۔ میں نے متحارب حضرات کو بھی تقریبات میں ایک دوسرے کے ساتھ ملتے اور باہمی بات چیت کرتے دیکھا اور مشاہدہ کیا ہے لیکن آج سیاسی مخالفت دشمن کی حد تک پہنچ چکی ہے اور ایک دوسرے کو عزت سے بلانا گوارا نہیں کیا جاتا۔


آج میری ذہنی رو بہکی ہوئی ہے اسی لئے ادھر ادھر کی ہانک رہا ہوں، پرانا قصہ سنا کر دل کی بھڑاس نکالی ہے تو یہ عرض بھی کر دوں، راؤ سکندر اقبال (مرحوم) پیپلزپارٹی کے بہت بڑے جیالے تھے، مخدوم فیصل صالح حیات بھی مضبوط شخص تھے اور ان کے ساتھ تھے وہ بھی بھٹو کے دیوانے ہی تھے، لیکن ایک وقت آیا جب راؤ سکندر اقبال ہی کی قیادت میں یہ حضرات ”پیٹریاٹ“ ہو گئے اور محترمہ کو چھوڑ دیا، اقتدار کی کشتی میں سوار ہو گئے۔ راؤ سکندر اقبال کا غم تو مجھے معلوم ہے کہ ان کو پنجاب کی صدارت سے برے طریقے سے ہٹایا گیا، اس روز ہم سب راؤ صاحب کے صاحبزادے کی دعوت ولیمہ میں شریک تھے کہ دبئی سے میاں مصباح الرحمن (اس وقت لاہور کے صدر تھے)کو فون آیا اور محترمہ نے ان سے کہا کہ راؤ صاحب کو اطلاع  کر دو کہ ان کو پنجاب کی صدارت سے ہٹا دیا گیا ہے، میاں مصباح الرحمن نے بڑی کوشش کی کہ یہ بات اس وقت (جب دعوت ولیمہ تھی) نہ کہی جائے لیکن بی بی کو ضدتھی اور میاں مصباح نے مجبوراً راؤ سکندر اقبال کو بتا دیا جو سن کر سناٹے میں آ گئے تاہم خاموشی  سے وقت گزار دیا اور پھر وقت آیا کہ وہ ”پیٹریاٹ“  ہو گئے، ”تھوڑے لکھے کو زیادہ جانیں!“

مزید :

رائے -کالم -