سفر

حالیہ دنوں لاہور سے باہر جاناہوا۔ چند روزکے وقفوں سے تین سفر کئے۔سفر کی روداد میں کسی کیلئے شاید دلچسپی کا سامان ہو،کسی کیلئے معلومات ہوں کئی سال قبل ملاقات کے دوران ملک نسیم احمد آہیر نے گُڑگاؤں سے خوشاب مائیگریشن کا واقعہ سنایا تھا۔ 1862ء میں ان کے بڑے بزرگ اُس علاقے سے بیل گاڑیوں پراِس علاقے کی طرف رواں ہوئے۔ راستے میں رات کو قافلہ رکا، اہلِ کاررواں سو گئے تو چور بیل کھول کر لے گئے، صبح جاگنے پر ایک بزرگ نے بتایا، اسے خواب میں دکھایا گیا ہے کہ بیل فلاں ڈیرے پر بندھے ہیں، سب لوگ اس بزرگ کی نشاندہی پر وہاں پہنچے اور بیل لے آئے، اسی بزرگ کا کہنا تھا کہ اس کے خواب میں آنیوالے نے یہ مزید بتایا کہ سامنے جھاڑی میں میری ہڈیاں پڑی ہیں، ان کو بھی اٹھا کر ساتھ لے جاؤ مگر دفنانا نہیں ہے۔ جھولے میں رکھ کر چھت سے لٹکا دینا۔ یہ لوگ خوشاب میں آکر آباد ہو گئے۔ وہاں ان ہڈیوں کو جھولے میں رکھ کر جھولا چھت سے لٹکا دیا گیا ہے اس واقعہ کا چند ماہ قبل ایک بار پھر ملک نسیم احمدآہیر نے ہمارے ساتھ ویڈیو انٹرویو میں ذکر کیا۔ مقامی میڈیا کے لوگوں نے اس پر وی لاگ بنانے کی خواہش کی۔ مزار کا انتظام و انصرام آہیر کی صاحبزادی مریم آہیر کے پاس ہے انہوں نے رابطہ کرنیوالوں سے کہا کہ پہلا حق لاہور سے آنے والوں کا ہے لہٰذا ہم گزشتہ دنوں خوشاب میں ڈاکومنٹری بنانے گئے، جواب سوشل میڈیا پر موجود ہے۔
یہ مزار خوشاب میں آہیروں کے محلے میں ہے۔ صاحبِ مزار کا نام لال شاہ بخاری ہے،جھاڑی سے ملنے والی ہڈیاں بچے کی تھیں۔ مزار کے کلید بردار بابا نور محمد آہیر ہیں، ان کی عمر ایک سوسال سے زیادہ ہے۔وہ اس عمر میں بھی تندرست و صحت مند ہیں۔ ہمیں انہوں نے مزار کے سارے حصے دکھائے ہمارے ساتھ انہوں نے گفتگوبھی کی،ہنس مکھ اور جولی طبیعت کے شخص ہیں۔ نسیم احمد آہیر کے صاحبزادے علی آہیر، ان کے کزن شاہد آہیر اور غلام عباس آہیربھی ہمارے ساتھ رہے۔غلام عباس کا کہنا ہے، میرے کچھ وسوسے تھے،ایک مرتبہ صاحب جھولا ومزار خواب میں آئے۔ وہ شیر خوار تھے۔انہوں نے جو کچھ کہا اس سے وسوسے دور ہوگئے۔مزار کا فرش سنگ مر مر سے بنایا گیاہے۔ چار دیواری جاذبِ نظر ہے، کمرہئ مزار کے ایک کونے میں جھولا لٹک رہا ہے۔ پھول چڑھانے کے لیے کرسی پر کھڑے ہونا پڑتا ہے۔ کوئی سونگھ کر پھول نچھاور کرے تو جھولے سے واپس آجاتا ہے۔ مزار کے صحن میں چراغ جلایا جاتا ہے۔ دیسی گھی کے سوا چراغ نہیں جلتا۔ جمعرات کو زیادہ زائرین ہوتے ہیں۔ خواتین دوپہر کے بعد جاتی ہیں۔ 10محرم کو چادر تبدیل کی جاتی ہے۔مزار پر کوئی چڑھاوانہیں،کوئی نذرانے نہیں،کوئی عرس نہیں کوئی میلہ نہیں ہوتا۔مزار پر کوئی غلہ نہیں رکھا گیا۔ سارے اخراجات لنگر کے اہتمام سمیت آہیر برادری مل کر کرتی ہے۔
دوسرا سفر شور کوٹ کا تھا۔ وہاں میرے محترم استاد خالد لطیف خالد صاحب کا مسکن ہے۔ میرے دوست محمد رفیق بھی شور کوٹ میں سیٹل ہیں۔ وہ سعودی عرب سے آئے تو ان سے ملاقات کا وعدہ کیا تھا۔ رفیق سے شور کوٹ کینٹ میں ملاقات ہوئی۔ وہ رواں برس 19سال کے بعد مستقل پاکستان واپسی کا ارادہ رکھتے تھے مگر پاکستان کے مخدوش حالات خصوصی طور پر ان کے بقول مہنگائی کے سونامی کے باعث انہوں نے پروگرام سال دو سال کے لیے مؤ خر کر دیا۔ خالد لطیف خالد صاحب ایسے اساتذہ میں ہیں جو تعلیم ہی نہیں بہترین تربیت بھی کرتے ہیں۔
شور کوٹ جاتے ہوئے سوچا کہ آج کے دن سیاست سے دامن بچا کے رکھنا ہے۔ لاہور سے موٹروے لیا۔ تھوڑا فاصلہ طے کیا دیکھا سوئی ایک سو چالیس پر ہے تو سوچا چلیں اسی سپیڈ پر چلتے ہیں۔میں اکیلا ہی تھا۔ موبائل پر صوفیانہ وغیر صوفیانہ میوزک لگالیا۔ عموماً سفر کے دوران سیاسی تجزیے اور ویلاگ سنتا ہوں مگر آج سیاست سے دور رہنے کا سوچا تھا تو سفر بڑا خوشگوار گزرا واپسی پررات 8بجے ننکانہ صاحب قیام و طعام پر چند منٹ کے لیے رکا، سامنے چار پانچ بسیں اور دس بارہ کاریں کھڑی تھیں۔ان پر پی ٹی آئی کے بینرز اور پرچم لگے تھے۔ کارکن ٹولیوں میں گپ شپ لگا رہے تھے۔ چائے پی رہے تھے۔ کچھ نعرے لگا رہے تھے۔
یہ لوگ ایک رات کیلئے عمران خان کی حفاظتی ڈیوٹی پر زمان پارک جا رہے تھے۔ایک طرف کارکنوں کے درمیان سات آٹھ لیڈردائرے میں کرسیوں پر براجمان تبادلہ ئ خیالات کررہے تھے، میں نے ان سے گفتگو کی، ان کے مختصر مختصرانٹرویو کئے۔ یہ 8مارچ کی شب کا ابتدائیہ تھا۔ ان کی گفتگو سے پتہ چلا کہ عمران خان کی طرف سے جس ریلی کا اعلان کیا گیا تھا وہ دفعہ 144کی نذر ہو گئی۔پولیس نے لاٹھی چارج اور شیلنگ کی جس میں ایک کارکن جاں بحق ہو گیا۔ ان کی زبانی ہی معلوم ہوا کہ الیکشن کمیشن نے پنجاب میں انتخابات کا شیڈول جاری کر دیا ہے۔ ریلی کے دوران جاں بحق ہونے والے کارکن کا نام بعد میں علی بلال عرف ظلِِ شاہ معلوم ہوا۔ اس کی موت کا سن کر بہت افسوس ہوا۔ عمران خان 3نومبر کو وزیر آباد میں حملے میں زخمی ہونے کے بعد زمان پارک منتقل ہو گئے تھے۔ اس کے بعد سے ہم اپنے چینل پرکووریج کیلئے وہاں وہاں جا تے رہے ہیں۔ ظلِ شاہ وہیں ہوتا تھا۔ اس کے ساتھ ہماری چار پانچ بار آن کیمرہ گفتگو ہوئی۔ وہ عمران خان سے کئی لوگوں کی طرح ملاقات کا خواہش مندتھا۔ مگر زندگی کی بازی ہارنے تک اس کی عمران خان سے ملاقات نہ ہو سکی۔ جب بھی ہم گئے وہ وہیں موجود ہوتا ۔ وہ وہاں انتظامیہ کا حصہ بن چکا تھا۔
اس سیریز کا تیسرا سفر گجرات کے ایک گاؤں کا کیا۔ اس سفر میں میرے ساتھ دبئی سے آئے میرے بھائی لطیف بھی تھے ان کو دل کا مسئلہ ہے۔ بعض اوقات زیادہ تکلیف ہوتی ہے۔ وہ اپنے گاؤں گئے تو ہماری ایک بزرگ عزیزہ نے بتایا کہ اس نے کہیں سے تعویز لیا ہے۔ دوا بھی کھا رہی ہوں تعویز کے بعد درد نہیں ہوا۔ ہم بھی خواہشِ مسیحائی لئے وہاں جا پہنچے۔ اُس گاؤں میں ہم عابد حسین سے ملے۔وہ پڑھے لکھے زمیندار ہیں۔ تریسٹھ سال عمر ہے، ہلکی سی سفید داڑھی چہرے کی اُجلت و دمک میں اضافہ کرتی ہے۔کم و بیش ایسا ہی روحانیت سے معمور چہرہ علامہ خادم حسین رضوی کا تھا۔۔عابد حسین نے تعویز دیا، کلام پڑھی۔ وہاں کوئی وصولی نہیں ہوتی۔ غلہ نہیں رکھا گیا۔وہ دعا کے ساتھ ساتھ کئی عوارض کی دوا بھی دیتے ہیں۔ مگر کوئی ہدیہ لیتے ہیں نہ نذرانہ قبول کرتے ہیں۔ بھائی صاحب نے ان کے زیر اہتمام مسجد کی خدمت کی خواہش کی تو عابد حسین کا بڑی ملائمت سے کہنا تھا مسجد کیا آپ کے خرچے سے چلے گی، اُنکے گھرکے سامنے ان کی زمین پر فصلیں لہلہا رہی ہیں،ان کے تین صاحبزادے ہیں اور تینوں اعلیٰ سرکاری افسر ہیں،ان کی روحانی گفتگوفصاحت و بلاغت سے آراستہ و پیراستہ پائی۔