شاہ جی کو آخری سلام
مَیں مولوی سعید اظہر کا یہ احسان کبھی نہیں بھلا سکتا کہ اس نے شاہ جی، سید عباس اطہر کے اِس دُنیا سے رخصت سے چند روز قبل اُن کے سرہانے کھڑے ہو کر میرا آخری سلام اتنی محبت اور خلوص کے ساتھ پہنچایا کہ شاید مَیں خود بھی ویسا اظہار نہ کر پاتا۔ مَیں نے مولوی سے درخواست کی تھی اور مولوی نے میری درخواست پہنچانے کا وعدہ کر رکھا تھا۔
مجھے پتہ چل چکا تھا کہ شاہ جی اِس دُنیا میں نہیں رہے اور مَیں اپنے دل کا غبار نکالنے کے لئے یہاں امریکہ سے فون کر رہا تھا۔ مولوی صاحب بتا رہے تھے کہ مَیں نے اپنی ساری توانائی جمع کر کے پوری قوت سے شاہ جی کو بتایا تھا کہ اظہر زمان آپ کے لئے کتنا تڑپ رہا ہے۔ وہ بھی آپ کے سبھی چاہنے والوں کی طرح برابر کا بے چین ہے۔ اُس وقت شاہ جی نے بولنا چھوڑ دیا تھا اور بات کو کم کم سمجھتے تھے۔ اِس عالم میں مولوی سعید اظہر اُن سے مکالمہ کرتا تھا، جو زیادہ تر یک طرفہ ہی ہوتاتھا۔ مولوی صاحب کا کہنا ہے کہ مَیں اُن کے رسپانس اور ری ایکشن کو سمجھنے کا عادی ہو گیا تھا، اِس لئے مَیں پورے وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ مَیں شاہ جی کے ذہن پر تمہارے پیغام کی بوچھاڑ کر کے رسائی حاصل کرنے میں کامیاب ہو گیا تھا۔ اُن کی آنکھوں میں ایک خاص چمک نظر آئی، جس سے مجھے اندازہ ہوا کہ پیغام رجسٹر ہو گیا ہے۔
شاہ جی کے موبائل پر جو نمبر محفوظ تھے، اُن میں میرا نمبر بھی شامل تھا، اِسی لئے اُن کی بیگم کی طرف سے اُن تمام نمبروں پر ایک پیغام ٹیکسٹ کیا گیا، جو میرے لئے بہت تکلیف دہ تھا، جس میں بتایا گیا تھا کہ شاہ جی بستر ِ مرگ پر ہیں۔ مَیں نے مولوی سعید اظہر کو فون کر کے گلہ کیا کہ آپ تو بہت تسلیاں دیتے تھے، لیکن یہ کیسا پیغام ہے؟ انہوں نے کہا کہ مَیں یہ الفاظ استعمال کرنا نہیں چاہتا، لیکن اُن کی حالت اب خاصی تشویش ناک ہے۔ مَیں سمجھ گیا اور اِس بُری خبر کا، جسے مَیں سننا نہیں چاہتا تھا، انتظار شروع کر دیا۔
میرا شاہ جی کے ساتھ مولوی سعید اظہر، مظفر شیخ یا اسلم خان جیسے خاص دوستوں جیسا قریبی تعلق کبھی نہیں رہا۔ 2000ءمیں امریکہ منتقل ہونے کے بعد تو یہ تعلق کبھی کبھار کی ٹیلی فون کال تک محدود ہو گیا تھا، لیکن اس سے پہلے ایک زمانہ تھا، جب کئی سال بلا ناغہ ان سے روزانہ رابطہ رہتا تھا۔ مَیںدیال سنگھ مینشن میں پرانی پریس کلب کی چھت پر جمنے والی اُن کی مجلسوں میں شرکت کا کوئی موقع ضائع نہیں کرتا تھا۔ اُن کے ساتھ کب اور کہاں کتنا وقت گزارا،اِس کی تفصیل بیان کرنے کا موقع نہیں ہے، کیونکہ اُن کے ساتھ مل کر کم آوارہ گردی نہیں کی، البتہ دو منظر بہت شدت سے یاد آ رہے ہیں۔ لاہور میں ریگل چوک پر جب ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں پی این اے کے جلوس میں شریک نوجوانوں پر گولی چلی، تو اسے شاہ جی سمیت ہم سب نے پرانی پریس کلب کی چھت پر انتہائی رسک لیتے ہوئے سوراخوں میں سے دیکھا۔
ضیاءالحق کے زمانے میں جب پہلی بار بے نظیر بھٹو لاہور آئیں ،تو ایئر پورٹ سے آنے والا جلوس ہم نے فورٹریس سٹیڈیم کے سامنے کھڑے ہو کر دیکھا۔ شاہ جی تب روزنامہ ”پاکستان“ کے ایڈیٹر تھے اور منو بھائی اُن کے کالم نگار تھے۔ مَیں اُس وقت شاہ جی کے پاس آیا ہوا تھا۔ شاہ جی، منو بھائی ا ور ایک دو اور دوستوں کے ہمراہ ہم سب دو تین رکشوں میں جیل روڈ پر واقع دفتر سے روانہ ہوئے۔ بعد میں صدر بننے والے فاروق لغاری کو ہم نے وہاں بے نظیر بھٹو کی گاڑی کے ساتھ لٹکے ہوئے دیکھا۔ شاہ جی نے اُس وقت کالم نگاری شروع نہیں کی تھی۔ منو بھائی اُس وقت پاپولر کالم نگار تھے، اِس لئے پیپلزپارٹی کے جیالے لپک لپک کر منو بھائی سے بڑے احترام سے ملتے اور ساتھ تکلفاً شاہ جی اور دوسرے لوگوں سے بھی ہاتھ ملا لیتے تھے۔
محبت اور خلوص شاہ جی میں اتنا کہ سنبھالا نہ جائے، جس پر مہربان ہوں تو انہیں سمجھ نہیں آتا تھا کہ اس کے لئے کیا کر گزریں۔ کمال کے مجلس باز، جن کی کہانیاں ختم ہونے کا نام نہیں لیتی تھیں۔ اپنوں اور مخالفوں سب کے ساتھ کوئی نہ کوئی چھیڑ چھاڑ جاری رکھتے۔ وہ سب کا مکمل نام لیتے تھے، جو اُن کے منہ سے بہت بھلا لگتا تھا۔ پھر اُن کی مجلس میں شریک سبھی لوگ دوسروں کا مکمل نام لینے کے عادی ہو گئے۔ وہ اصطلاحیں ایجاد کرنے کے بہت شوقین تھے۔ انہوں نے اپنے مخالفین کے لئے ”مشقتی“ کی اصطلاح رائج کی، لیکن پھر طنز یا لاڈ کے طور پر اس کا دائرہ اپنوں تک بھی وسیع کر دیا۔
مجھے اِس بات کا اطمینان ہے کہ انہوںنے تین مرتبہ مجھے مدد کے لئے پکارا اور تینوں بار مَیں سرخرو ہوا۔ مَیں نے سر کے بل اُنہیں لبیک کہا۔ وہ دوستی اور ٹریڈ یونین میں بڑے دھڑے باز تھے۔ ٹریڈ یونین کی سیاست میں وہ جو چال چلتے تھے، اسے مات دینا بہت مشکل ہونا تھا۔ وہ منہاج برنا کی بادشاہت کا زمانہ تھا، جن کے سامنے عباس اطہر معمولی قوت کے ساتھ ابھرے اور دیکھتے ہی دیکھتے اُن کے لئے بہت بڑا چیلنج بن گئے۔ شادی سے پہلے فراغت کے اس دور میں ہمیں بھی ٹریڈ یونین کا شوق چرایا۔ تب ایک ہی یونین ہوتی تھی، منہاج برنا کا راج تھا۔ اس کے مخالف ایک دھڑا ضیاءالاسلام انصاری اور رشید صدیقی کا تھا اور دوسرا دھڑا عباس اطہر کا تھا۔ ہم رشید صدیقی والے کیمپ میں داخل ہو کر سیاست میں آ گئے۔ پہلے مرحلے میں ہم پنجاب یونین آف جرنلسٹس کی مجلس عاملہ کے رکن منتخب ہو گئے۔ انہی دنوں عباس اطہر سے تعارف ہوا۔ اُن کی شخصیت مجھے بہت دلکش لگی، لیکن مَیں اُن کے کیمپ میں شامل نہ ہوا، لیکن عملاً سیاست موافقت کی ہی تھی کہ ضیاءگروپ اور عباس اطہر گروپ دونوں انتخابات میں منہاج برنا کے خلاف متحد ہو کر چلتے تھے۔
دوسرے مرحلے میں پی یو جے کا جائنٹ سیکرٹری منتخب ہو گیا۔ اس وقت سید عباس اطہر ”مساوات“ کے ایڈیٹر تھے۔ انہوں نے اپنے مخالف تین رپورٹروں، الطاف احمد قریشی، چودھری خادم حسین اور ہمراز احسن کو نیوز روم ٹرانسفر کر دیا۔ تب چودھری خادم حسین سے میری ذاتی دوستی ہو چکی تھی، ان رپورٹروں کی حمایت میں منہاج برنا نے ملک گیر ہڑتال کی کال دے دی، ہم ویسے بھی برنا کے خلاف تھے اور اصولی طور پر مَیں اس کال کے بھی خلاف تھا۔ اُس وقت میری ہارون الرشید سے بہت گہری دوستی تھی، جو عباس اطہر کا دوست تھا اور اُن کے کیمپ میں بھی شامل تھا۔
مَیں تب شاہ جی کو بہت پسند کرتا تھا، لیکن اُن سے قربت یا دوستی نہیں تھی، پتہ نہیں شاہ جی نے ہارون سے کہا یا ہارون نے خود ہی آئیڈیا پیش کیا کہ اگر اظہر زمان برنا کی کال کے خلاف احتجاجاً استعفا دے دے، تو عباس اطہر کی بطور ایڈیٹر اخلاقی پوزیشن مضبوط ہو جائے گی۔ اُس وقت مَیںاور ہارون الرشید عموماً اکٹھے ہی چلتے پھرتے تھے، لیکن اِس مقصد کے لئے ہارون نے شاہ جی سے وعدے کے مطابق دو تین روز اس طرح گزارے کہ وہ ہر وقت مجھے اس کام کے لئے قائل کرنے پر لگا رہتا اور مَیں دل ہی دل میں ہنستا کہ مَیں تو ہر وہ کام کرنے کے لئے پہلے سے ہی تیار ہوں، جس سے شاہ جی کو فائدہ پہنچ سکتا ہو۔
مَیں نے استعفا دے دیا۔ اپنے اُبھرتے ہوئے ٹریڈ یونین کیریئر کو اپنے ہاتھوں سے خود ہی ختم کر دیا۔ شاہ جی خوش ہو گئے۔ ہارون الرشید نے اس کا کریڈٹ لیا اور مَیں شاہ جی کو کبھی یہ نہ بتا سکا کہ مَیں نے استعفا ہارون کے کہنے پر نہیں، بلکہ شاہ جی کو پسند کرنے کی بناءپر اُن کی حیثیت مضبوط کرنے کے لئے دیا تھا۔ رشید صدیقی مجھ سے ناراض ہو گئے کہ اُن سے مشورہ نہیں کیا۔ چودھری خادم حسین نے تمام دوستی بالائے طاق رکھتے ہوئے مجھے کہا کہ میرا دل چاہتا ہے کہ تمہیں ابھی پریس کلب کے باہر جنگلے سے نیچے پھینک دوں۔ مجھے خلاف عادت چودھری خادم حسین کو یہ جواب دینا پڑا کہ غلطی سے مجھے ہاتھ نہ لگا دینا کہ کہیں میرے اندر کا جنگجو آرائیں بیدار نہ ہو جائے۔
اب دوسرے موقع کا سن لیں۔ سید عباس اظہر ایئر مارشل اصغر خاں کے لئے روزنامہ ”آزاد“ کو بہت تھوڑی مدت میں شروع کرنے کا وعدہ کر چکے تھے۔ مَیں اس وقت پی ٹی وی لاہور میں نیوز پروڈیوسر کے طور پر کام کر رہا تھا۔ نیوز سٹاف کی ابھی برائے نام بھرتی ہوئی تھی، ہنگامی طور پر مدد کے لئے شاہ جی نے، جن لوگوں کو آواز دی اُن میں میرے علاوہ ضیاءالاسلام انصاری بھی شامل تھے۔ مَیں نے ضیاء الاسلام انصاری کی طرح اُن کے ساتھ دوستانے میں رضاکارانہ طور پر کام شروع کر دیا۔ تین بجے مَیں ٹی وی چلا جاتا اور نو بجے کے بعد پھر آ جاتا۔ اخبار باقاعدہ شروع ہوا اور سٹاف مکمل ہو گیا، تو ان سے اجازت چاہی۔ انہوں نے اجازت دینے کی بجائے میری خواہش کے برعکس پارٹ ٹائم جاب دے دی۔ مجھے میری سہولت کے مطابق شفٹ انچارج بنا دیا تاکہ مَیں ٹی وی کا اصل جاب بھی کر سکوں۔
تیسری بار مَیں اُن کے جو کام آیا، وہ بہت نازک تھا۔ ضیاءالحق کے دور میں شاہی قلعے میں قید کاٹ کر وہ عارضی طور پر رہا ہوئے تھے۔ اُن کے خلاف ایک بڑا مقدمہ چلانے کی تیاری ہو رہی تھی۔ اس وقت ضیاءالاسلام انصاری نے ایک بہانہ بنا کر اُن کو امریکہ کا ویزا دلانے کامنصوبہ بنایا۔ مَیں نے اُن کے خلاف تفتیش کے حقائق کو چھپا کر اُن کو بغیر انٹرویو پانچ سال کا ملٹی پل ویزا دلانے کی سفارش کر دی۔ گلبرگ میں امریکن سنٹر کے عارضی دفتر کے سامنے سڑک کی دوسری طرف شاہ جی بے چینی کے ساتھ ٹہل رہے تھے۔ مَیںنے شام کے اندھیرے میں ویزا لگا ہوا پاسپورٹ خود پیدل چل کر خاموشی سے اُن کی جیب میں ڈال دیا۔ اُن کا اِس موقع پر کہا ہوا یہ فقرہ میری زندگی کا سرمایہ ہے کہ” اظہر زمان! تم نے یہ کام بہت میٹھے انداز میں کر دیا ہے“۔
مَیں نے زندگی میں ایک بار اُن کو تنگ بھی بہت کیا۔ میری امریکن سنٹر کی ملازمت ابھی جاری تھی کہ ستمبر1985ءمیں سرکاری پروگرام پر امریکہ گیا۔ شاہ جی اس وقت نیویارک میں تھے۔ میرا نیو یارک میں بھی تین چار روز قیام کا پروگرام تھا، مَیں صرف ایک رات ہوٹل میں ٹھہرا، اگلے روز شاہ جی، خان بیگ ملک اور چند دوسرے دوستوں کے ہمراہ آ کر میرا سامان اپنے فلیٹ پر لے گئے۔ مَیںنے بہت کہا کہ چونکہ یہ میرا سرکاری پروگرام ہے، اِس لئے ہوٹل چھوڑ کر مجھے فائدے کی بجائے نقصان ہو گا، لیکن وہ نہ مانے۔ پھر مَیں شکاگو چلا گیا۔ میرے شیڈول کے مطابق مجھے وہاں سے پھر نیو یارک آنا تھا اور نیو یارک سے واپس پاکستان جانا تھا، مَیں اپنا پروگرام تبدیل کرا کر شکاگو سے ہی پاکستان چلا گیا۔ شاہ جی پہلے سے طے شدہ فلائٹ کے مطابق اپنے دوستوں کے ساتھ ایئر پورٹ پر میرا انتظار کرتے رہے۔
مَیںنے پاکستان پہنچنے کے کافی روز بعد اُن سے فون کر کے معذرت کر لی۔ میری توقع کے برعکس وہ مجھ سے ذرا بھی ناراض نہیں ہوئے، مجھے یقین ہے اپنی روایتی فراخدلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے انہوں نے ایک بار پھر مجھے معاف کر دیا ہو گا کہ مَیں وہاں خود نہیں پہنچا اور مولوی سعید اظہر کے ذریعے اپنا آخری سلام بھیج دیا۔ یہ مولوی سعید اظہر کا حوصلہ ہے۔ میرا دل جانتا ہے کہ یہ آخری سلام کہنا کتنا مشکل کام ہے۔