چیف الیکشن کمشنر کے لیے دو تجاویز

چیف الیکشن کمشنر کے لیے دو تجاویز
چیف الیکشن کمشنر کے لیے دو تجاویز

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

الیکشن 2013ءسیلاب کی طرح اپنے پیچھے بہت سی کہانیاں چھوڑ گیا ہے۔ کچھ کہانیاں وہی پرانی ہیں یعنی دھونس دھاندلی، دھمکیاں، غنڈہ گردی، جعلی ووٹ، نقلی ووٹر، گنتی کی غلطیاں....اِس بار انتخابات میں ایک نئی کہانی، پہلی بار زیادہ شد و مد کے ساتھ سننے میں آئی ہے۔ اس کہانی کا تعلق کالج اساتذہ سے ہے۔ ہر دفعہ کی طرح اس بار بھی ملک بھر کے کالجوں کے لیکچراروں (گریڈ 17) اسسٹنٹ پروفیسروں(گریڈ 18) ایسوسی ایٹ پروفیسروں (گریڈ 19) اور پروفیسروں (گریڈ 20) کو الیکشن کمیشن کے حکم پر ریٹرننگ افسروں نے پولنگ اسٹیشنوں پر پریذائیڈنگ آفیسر مقرر کیا۔الیکشن کوئی بھی ہو، یہی کالج اساتذہ، قومی خدمت کے جذبے کے تحت آگے آتے ہیں اور الیکشن کے عمل کو مکمل کرنے میں الیکشن کمیشن کی معاونت کرتے ہیں۔ لیکن پچھلے چند برسوں سے الیکشن ڈیوٹی خوف ناک حد تک رسوا کن ہو چکی ہے اس ڈیوٹی کی ادائیگی کے دوران میں مرد و خواتین کالج اساتذہ کی ”پذیرائی‘ جس انداز میں کی جاتی ہے وہ انتہائی قابل مذمت ہے۔ ریٹرننگ افسران، ملزموں اور مجرموں کے مقدمات سن سن کر اتنے سنگدل اور بے حس ہو چکے ہیں کہ انہیں اپنے سامنے کھڑے ہوئے پریذائیڈنگ آفیسر بھی ملزم اور مجرم محسوس ہوتے ہیں۔ انہی معاملہ نافہم ریٹرننگ افسران نے الیکشن ڈیوٹی کو قید بامشقت بنا دیا ہے۔ بظاہر تو پریزائیڈنگ افسروں کو وہ دفعہ تیس کے مجسٹریٹ کے اختیارات دے دیتے ہیں لیکن دفعہ تیس کے ان مجسٹریٹوں کے ساتھ یہ جوڈیشل بیورو کریسی جو سلوک کرتی ہے وہ ناقابل بیان ہی نہیں شرم ناک بھی ہے۔ یہ لوگ اپنے اختیار کے نشے میں اس قدر چور ہوتے ہیں کہ کسی پروفیسر کو ہتھکڑی لگوا دیتے ہیں، کسی کے منہ پر تھپڑ رسید کر دیتے ہیں کسی کو ہتھکڑی لگا کر اپنی عدالت کے اندر چکر لگواتے ہیں .... خدا جانے یہ جج صاحبان کون سے پروفیسروں سے پڑھ کر جج بنے ہیں؟ ریٹرننگ افسران کے دل کی اس وقت تک تسکین ہی نہیں ہوتی جب تک وہ معزز اور محترم کالج اساتذہ کے کندھوں پر انتخابی سامان سے بھری ہوئی بوریاں نہ دیکھ لیں۔ انتخابات سے ایک دن پہلے یہ انتخابی سامان کی تقسیم جس ذلت آمیز انداز میں کرتے ہیں اس کی شاید چیف الیکشن کمشنر جناب فخر الدین جی ابراہیم کو خبر نہیں۔ اگر ان کے علم میں یہ بات ہوتی تو دوسرے معاملات کی طرح وہ اس میں بھی ضرور کوئی تبدیلی لاتے۔ صبح آٹھ بجے بلا کر یہ ریٹرننگ آفیسر رات کے بارہ بجے پروفیسروں کے ہاتھ میں سامان تھماتے ہیں۔ اس میں مرد و خواتین کی کوئی تخصیص نہیں۔ جب یہ ریٹرننگ افسر انتخابی سامان کی ترسیل میں تاخیر کریں تو انہیں کوئی سزا نہیں ملتی لیکن اگر ایک سینئر پروفیسر رزلٹ بنانے اور ان تک پہنچانے میں تھوڑی سی تاخیر کرے تو اسے ہتھکڑی لگوا دیتے ہیں۔ الیکشن 2013ءمیں اس طرح کے کئی واقعات رپورٹ ہوئے ہیں۔
الیکشن 2013ءمیں پنجاب کے پروفیسروں کے ساتھ اتنا برا سلوک ہوا ہے کہ ان کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوتا نظر آ رہا ہے۔ وہ سڑکوں پر مظاہرہ کر رہے ہیں۔ ضمنی اور بلدیاتی انتخابات کے بائیکاٹ کی دھمکی دے رہے ہیں۔
چیف الیکشن کمشنر جناب فخر الدین جی ابراہیم اگر حقائق جاننے کے آرزو مند ہیں تو عرض ہے کہ کالج اساتذہ کا سادہ سا مطالبہ ہے کہ انتخابی سامان اٹھا کر پولنگ اسٹیشن تک پہنچانے اور دوبارہ پیک کر کے اسے ریٹرننگ افسر کو لوٹانے کی ذمہ داری ان سے لے لی جائے۔ اس کا حل یہ ہے کہ جس طرح سکیورٹی ایجنسیوں کی گاڑیاں گارڈز کی نگرانی میں نقد رقم مختلف بنکوں میں پہنچاتی ہیں اسی طرح ان کمپنیوں کی خدمات حاصل کر کے ان کے ذریعے انتخابی سامان بحفاظت پولنگ اسٹیشنوں پر پہنچا دیا جائے اور پولنگ ختم ہونے کے بعد یہی گاڑیاں یہ سامان دوبارہ وصول کر لیں اور ریٹرننگ افسروں کو جمع کرا دیں ۔ پریذائیڈنگ افسروں کے پاس صرف بیلٹ پیپروں کی گنتی کا گوشوارہ ہونا چاہئے۔ اتنی سی بات ہے جس پر عمل کر کے کالج اساتذہ میں پائی جانے والی بے چینی ختم کی جا سکتی ہے۔
کالج اساتذہ میں پائی جانے والی بے چینی کی دوسری وجہ الیکشن ڈیوٹی کا شرم ناک معاوضہ ہے۔ سب سے بڑے افسر کو 1450روپے اور باقیوں کو 1300روپے ملتے ہیں۔ مختلف مقامات پر انتخابی عمل کی تربیت، مختلف اوقات اور مقامات پر ریٹرننگ افسر کے سامنے پیشی، سامان کی وصولی کے لئے سارا دن لمبی قطار میں کھڑا ہونا، تمام دن پولنگ اسٹیشن پر موجودگی، پھر انتخابی سامان اور رزلٹ جمع کرانے کے لئے ساری رات عدالتوں کی راہداریوں میں دھکے کھانا اس ساری مشقت کا صلہ ہے صرف 1450روپے۔ اس کے لئے لفظ شیم بہت چھوٹا ہے۔ پریذائیڈنگ افسر کا کم از کم معاوضہ دس ہزار روپے ہونا چاہئے۔ ایسا ہو جائے تو شاید ہی کوئی سرکاری ملازم ہو گا جو الیکشن ڈیوٹی دینے کے لئے تیار نہ ہو۔
چیف الیکشن کمشنر صاحب! پروفیسر صاحبان آپ سے عزت اور احترام چاہتے ہیں۔ اگر آپ ان کا یہ چھوٹا سا مطالبہ پورا نہ کر سکے تو آنے والے ضمنی اور بلدیاتی انتخابات میں آپ کو بہت سی مشکلات پیش آ سکتی ہیں۔

مزید :

کالم -