گندم ایکسپورٹ پالیسی کے اعلان کی ضرورت
پاکستان میں گندم اور آٹا دو اہم موضوعات ہیں کہ گندم کا تعلق کسان اور انسان سے ہے اور ہمارے خطے میں اس کی اہمیت اس لئے بھی زیادہ ہے کہ یہ ہم سب کی روزمرہ کی غذا ہے، جس کے ہونے یا نہ ہونے سے بہت کچھ ہو جاتا ہے۔ میاں شہباز شریف وزیراعلیٰ پنجاب کی حیثیت سے جب بھی آئے انہوں نے گندم، اس کی خریداری اور کسانوں کے حالات بہتر بنانے کی طرف بہت توجہ دی۔ اس سال پنجاب کے محکمہ خوراک کے پاس21لاکھ ٹن گزشتہ سال کی گندم ہونے کے باوجود گندم کی Aggressive خریداری کرنا شہباز شریف کے ہمت اور حوصلہ کی بات ہے،جبکہ پورے مُلک میں بھی اضافی گندم20سے25لاکھ ٹن کی مقدار میں موجود ہے۔ دو ہی صورتیں تھیں یا تو21لاکھ ٹن کی موجودگی میں آہستہ آہستہ خریداری کی جاتی، جس سے ذخیرہ اندوز مافیا مارکیٹ کرپشن کرنے میں کامیاب ہو جاتا اور گندم بچ جانے کے بعد اس مافیا کے تاثرات یہی تھے کہ مارکیٹ 900سے1000 روپے من تک آ جائے گی، مگر اس سال دوسری حکمت عملی اختیار کی گئی، جو کامیاب رہی ہے اور اس کا سہرا وزیراعلیٰ کو تو جاتا ہے، مگر ان کی ٹیم کے اہم افراد کو بھی کریڈٹ دینا چاہئے، جن میں وزیر خوراک بلال یٰسین، سیکرٹری خوراک ڈاکٹر پرویز احمد خاں اور ڈائریکٹر خوراک جناب آصف بلال لودھی شامل ہیں۔
ان حضرات نے وزیراعلیٰ کی دلیرانہ پالیسی کے آگے اپنی خدمات اس انداز سے پیش کیں اور ایسی مناسب حکمت عملی اختیار کی کہ آج بارہ روز میں محکمہ خوراک20لاکھ ٹن سے زائد گندم خرید چکا ہے اور اس کا عملی منظر نامہ یہ بنا ہے کہ گندم کے نرخ مناسب سطح پر رہے ہیں اور مارکیٹ کریش نہیں ہوئی، بلکہ1250 اوسطاً نرخ رہے، جو ایک بہت اہم کامیابی ہے۔ مجھے کوئی حیرت نہیں ہو گی اگر محکمہ خوراک پنجاب اپنے ٹارگٹ کو حاصل کر لے، کیونکہ 30لاکھ ٹن کے قریب باردانہ کاشت کاروں میں تقسیم ہو چکا ہے اور باردانہ کی تقسیم کا سلسلہ ابھی جاری ہے گویا کاشت کاروں نے1300روپے من گندم فروخت کی ہے، جو اچھی بات ہے اور یہ خریداری کسان کے دعویٰ کا مداوا بھی کر رہی ہے۔ اس طرح کی خریداری کے بعد پنجاب کے پاس55سے60لاکھ ٹن تک کے ذخائر ہو سکتے ہیں، جو شاید اس سے بھی بڑا چیلنج ہے۔ گندم کی کمی ہو تو آٹے کی کمی ہوتی ہے۔ آٹا مہنگا ہوتا ہے، مگر اس بار حالات مختلف اور سوچیں بھی مختلف ہیں۔
گندم کی صورت حال کی وجہ سے آٹے کی مارکیٹ پہلے بھی صارف کے لئے خوش بخشی تصور کی جا رہی ہے کہ گزشتہ سال785 روپے میں20 کلو آٹا ملتا تھا جبکہ آج کل730 روپے میں مل رہا ہے، چیلنج کی طرف آئیں تو محسوس یہ ہوتا ہے کہ گندم کی کھپت اس سال بھی کم ہی رہے گی، کیونکہ حکومت کی خریداری مہم کے بعد بھی مارکیٹ میں گندم کافی بچے گی اور کسی قسم کا کوئی ایسا خطرہ نہیں ہو گا کہ حکومت سے فلور ملوں والے بہت جلد گندم کے لئے رجوع کریں۔ ایسی صورت حال میں55لاکھ ٹن گندم کا کیا ہو گا۔ وزیراعلیٰ ہمیشہ رمضان المبارک میں عام صارفین کے لئے سٹینڈرائزڈ نرخوں پر آٹا فراہم کرواتے ہیں۔ اگر اس کی پالیسی میں کوئی نقص نہ ہوا اور گندم ایشو کرنا چیلنج ہی ہو گا،اگر خریداری کا چیلنج پورا ہو سکتا ہے تو یہ ٹیم باصلاحیت ہے وہ یہ بھی کر گزرے گی، مگر اس میں وفاق کا کردار بہت اہم ہو گا۔
اٹھارویں ترمیم سے پیار کرنے والے تو بہت ہیں، مگر کیا وہ یہ بتا سکتے ہیں کہ منسٹری آف فوڈ اور ہیلتھ میں وفاق کے نہ ہونے کے برابر کردار سے کیا فرق پڑا ہے یہ جو اضافی گندم50لاکھ ٹن کے قریب گزشتہ سال کی پڑی ہے، یہ اُسی کا نتیجہ ہے۔ اب تو میرے مخالفین بھی پاکستان ویٹ بورڈ کے قیام کا مطالبہ کر رہے ہیں جو بہت اچھی بات ہے۔ ہمیں اس سلسلے میں مستقل بنیادوں پر کام کی ضرورت ہے۔ وزیراعلیٰ نے پہلے بھی وفاق سے کوشش کر کے ایک دو ماہ کی ایڈہاک ایکسپورٹ پالیسی بنوائی، جس کا کوئی خاص فائدہ نہیں ہوا۔ اس بڑے چیلنج سے نپٹنا بھی آپ نے ہی ہے، کیونکہ فلور ملنگ سیکٹر بالکل تباہی کے دہانے پر ہے اور موجودہ حالات نے اگر کسی کو نقصان پہنچایا ہے، تو وہ پنجاب کی فلور ملنگ انڈسٹری ہے۔ میری تجویز یہ ہے کہ آپ وفاقی حکومت سے یہ پالیسی بنوائیں کہ جب ہمیں یقین ہے کہ ہمارے پاس 40سے50لاکھ ٹن گندم گزشتہ سال کی پڑی ہے اور موجودہ فصل کی صورت حال بھی سب کے سامنے ہے۔
وفاقی حکومت کو واضح پالیسی برائے گندم ایکسپورٹ2015ء دینی چاہئے، جس کے تحت پاکستان اس سال40لاکھ ٹن گندم کی برآمد کا عالمی سطح پر مروجہ طریقہ کار کے مطابق اعلان کرے۔ اس میں سے 15لاکھ ٹن نجی شعبہ کو دیا جائے اور25لاکھ ٹن سرکاری سطح پر برآمد کی جائے۔ نجی شعبے کی ایکسپورٹ میں فلور ملوں کو آٹا برآمد کرنے میں بھی سہولتیں دی جائیں اور سبسڈی یا ری بیٹ کو120ڈالر فی ٹن پر لے جایا جائے۔ ایک بار پاکستان یہ سب کرنے میں کامیاب ہو جائے تو سٹاکس میں توازن آنے سے مُلک کا مالی خسارہ، پنجاب اور سندھ کا مالی خسارہ کم ہو گا۔ میاں محمد نواز شریف بھی اس چیلنج کو قبول کریں اور اقتصادی رابطہ کمیٹی سے بھی کہیں کہ گندم امپورٹ کا نہیں ایکسپورٹ کا وقت ہے اور ان فیصلوں کے نتیجے میں بہتری بھی ہو گی۔ اکثر حکمران یہ سوچتے ہیں کہ اگر ہم نے گندم برآمد کر دی تو آٹا کہیں مہنگا نہ ہو جائے، ایک طرف تو یہ ایک سیاسی سوچ ہے جسے معیشت کی بہتری پر فوقیت نہیں دی جا سکتی۔ دوسرا اس سوچ کی ضرورت اس لئے بھی نہیں کہ صورت حال شیشے کی طرح واضح ہے اور اگر اس سال40لاکھ ٹن نہیں تو پھر کبھی نہیں، ہاں ایسی صورت میں یہ یقین ہم دلاتے ہیں کہ آٹا مہنگا نہیں ہو گا اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ آٹے والوں نے ہمیشہ ہی حکومت کا ساتھ دیا ہے اور اس یقین اور جذبہ کے ساتھ کام کرتے ہیں کہ یہ مُلک، یہ کسان، یہ لوگ، یہ عوام اور یہ حکومت ہماری ہے۔ قدم بڑھائیں اور گندم ایکسپورٹ پالیسی2015ء کا اعلان آئندہ چند روز میں کر دیں خدا بہتر کرے انشا اللہ۔