انتخابی مہم کاموسم

انتخابی مہم کاموسم
 انتخابی مہم کاموسم

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

آصف زرداری کی خیبر پختونخوا میں چلت پھرت،کپتان کی ملک بھر میںآمدو رفت اورنواز شریف کی تعمیراتی منصوبوں میں کھپت و صرف انتخابی مہم کے موسم کی نوید دینے چلی ہے۔مولانا فضل الرحمان تو خیر منطق کی مورت ہیں اور شرع و آئین پر ہی ان کامدار سہی۔ پختونخوا کے ایک جلسہ عام میں فرمایا انہوں نے کہ ہمارے امیدوار کے خلاف ووٹ دینا گناہ ہے۔مولانا کی سیاست میں غیر سے جو بھی رسم وراہ ہو،وہ عوام کالانعام کو بھی تھوڑاپوچھتے رہیں تو کیا گناہ ہو۔سندھ اور پختونخواکی نسبت پنجاب پھر بھی کشادہ کہ یہاں تھوڑا بہت عوامی فلاح اور قومی ارتقا کا گماں ہوتاہے۔ زرداری صاحب کے سندھ اور کپتان کے پختونخوا میں تو چاندنی میں بھی ویرانی کاسماں ہوتا ہے۔دونوں صوبوں میں کتنے لوگ ہیں جن کے تن پر چیتھڑا نہیں،پیٹ میں ٹکڑانہیں اور خدا سے توکچھ چھپا نہیں۔


آنے والے عام انتخابات کی بساط زرداری صاحب کے ذہن میں کچھ اور ہی نقشہ رکھا کئے۔کم لوگ ہی آشنا ہوں گے کہ وہ بازی پلٹنے پر تلے بیٹھے ہیں۔ان کے دل کے نہاں خانے میں اک سپنا بکل مارے بیٹھا ہے کہ ہو نہ ہو اب پھر میدان ان کے ہاتھ میں رہے۔بالائی پنجاب چھوڑ کر بقیہ تمام علاقوں پر انکی نگاہ ٹکی ہے کہ کیسے اور کیونکر یہاں سے کوئی نشست ہاتھ لگے گی۔کراچی میں الطاف کی گرفت ٹوٹ جانے پر بھی وہ شاداں و فرحاں کہ چند ایک نشستیںیہاں سے بھی اچکی جاسکتی ہیں۔پرانے عوامی نمائندگان اور کارکنا ن جو بوجوہ ان سے خفاہوئے ،انکی دل جوئی کا وافر ساماں بھی اب ان کی حکمت عملی کاحصہ ٹھہرا۔شاہ جیونہ کے فیصل صالح حیات کی واپسی ۔۔۔زرداری صاحب کی منظم منصوبہ بندی کی خبر دیتی ہے۔جوں جوں عام انتخابات کا سمے قریب آتا جائے گا ۔۔۔ووں ووں پی پی کا بلبل نغمہ سنج ہو گاکہ ہمارے آنگن میں بس بہار آیا چاہتی ہے۔سیاسی کھیل کو سمجھنے والے بینا لوگ دیکھا کئے کہ زرداری صاحب اپنے دھیمے لہجے سے پوری طاقت کے ساتھ میدان میں اترنے کا فیصلہ کر چکے۔دیکھئے شکست یا جیت تو نصیب کی بات ہے البتہ دل ناتواں مقابلہ خوب کرنے کی ٹھان چکا۔


گزرے انتخابات کہ جس کی بدولت اقتدار کا ہما نواز شریف کے سر پر آن بیٹھا تھااورانہی انتخابی نتائج کے ضمن میں کپتان نے دھاندلی کا اسطورہ تراشا تھا۔۔۔آنے والے انتخابات کم ازکم پی پی کے لئے اس سے قطعی الگ تھلگ اورمختلف ہوں گے۔تب پی پی کی حکومت تھی اور لوڈ شیڈنگ کا دیوآدم بو آدم بو کر رہا تھا۔تلخ ترین سچ ہے کہ اس وقت پورا ملک اندھیروں میں ڈوبا ہوا تھااورروٹی دس دس روپے کی بکا کئے۔دہشت گردی کے بھیڑیوں کا بھٹ چوپٹ کھلا تھااورآئے دن لاہور،کراچی اورپختونخوا کے اکثر شہر لہو سے لالہ رنگ تھے۔کوئٹہ کا کلیجہ کٹ رہا تھا ،کراچی کرچی کرچی تھااورلاہورلہولہان تھا۔پھر عدالت نے بھی حکومت کی مشکیں کس رکھی تھیں کہ کوئی دن جاتا تھا جب صور اسرافیل نہ پھونکا گیا ہو۔یوسف رضا گیلانی کی پھیکی اورپھسپھسی کارکردگی اور کرپشن کی کہانیاں ہونٹوں سے نکل کر کوٹھوں پرچڑھی ہوئی تھیں اور رہی سہی کسر راجہ رینٹل ایسے وزیراعظم نے پوری کر دی تھی۔ان دنوں تو ایسا لگتا تھا کہ ہر انہونے کھرے کا کھوج ملتان میں ملتا ہے۔پی پی اورآصف زرداری کی ہائے قسمت کہ اب کی بار صورت ایسی نہیں۔۔۔پی پی پر ہی کیا موقوف کہ ن لیگ کے لئے بھی صورت ایسی ویسی نہیں۔نوازشریف کے دوسرے دو ادوار کی نسبت ان کا یہ تیسرا عہد اچھا خاصا سیاسی زاد راہ رکھتا ہے۔چیتے کی آنکھ رکھنے والے میاں شریف کے سپوت بھی بڑے سیانے ہیں۔میاں صاحب عوام کے مجمع عام میں جو یہ کہتے ہیں کہ ہمارے منصوبے نظر آتے ہیں۔۔۔وہ بے سبب اور عبث نہیں۔بس بابامژگاں وا کر کے دیکھنے کی ضرورت ہے ۔آنکھ کھول کر فلک دیکھ،فضا دیکھ!


کپتان کے خیرخوا اتنا کریں کہ کسی طرح ان کی احتجاجی شورش تو فرو ہو۔انہیں حکومت اور وزارت عظمیٰ کے تصور میں نہ رات میں نیند ہے اور نہ دن کو قرار۔سوچا جانا چاہئے کہ کیا بلا ان کے سر پر سوار ہے؟چندے کے بندے اوردام کے غلام بھلا انہیں کیوں سمجھائیں گے کہ خان صاحب اپنے گھر خیبرکی خبر لیجئے۔

سیاسیات سے شغف رکھنے والے شائقین خوب شناسا ہیں کہ خیبر کے میدان میں معرکہ آرائی مولانا فضل الرحمان اور ولی خان کی اے این پی کے درمیان برپا ہو گی۔پارٹی سربراہ کتنا ہی دانا و بینا ہو۔۔۔اس کو عام انتخابات میں عوامی معاملے کی اصل حقیقت سے آگہی تو ہوتی نہیں۔چار و ناچاراسے اپنی نوکر شاہی کی روداد کی پابندی کرنی پڑتی ہے۔نوکر شاہی اور وہ بھی اس کی روداد؟ایسی رودادکی بابت توکو ئی باخبر مخبرسے پوچھے کہ مکھی کو ہاتھی اورکنکر کو پہاڑ بنا دیا جاتا ہے۔کپتان کا دماغ تو ویسے ہی عرش معلی سے بھی پرے رہتا ہے اور روداد انہیں جہانگیر ترین،علیم خان یا شاہ محمود قریشی ایسے گھاک اور خرانٹ لوگوں سے ملے تو پھر کیا کہنے!کہا جاتا ہے کہ اندھیرے میں کئے گئے فیصلے اندھے کی لاٹھی ہوتی ہے ،لگی لگی اور نہ لگی نہ لگی۔


اپنے جماعتی منشور ،سیاسی فلسفہ اور مخصوص صورتحال میں انتخابی مہم چلانا ہر سیاسی جماعت کا حق ہوا کئے۔دنیا بھر کے اقوام و ممالک میں سیاسی جماعتیں مخالفین سے چھیڑ چھاڑ کرتی ہیں کہ یہ طریقہ کار مروج و متداول ہے۔کوئی بھی سیاسی جماعت مخالفت میں ایک خاص حد سے آگے نہیں بڑھتی لیکن کپتان؟کپتان کو چھوڑیئے کہ ان کے نالے بھی نرالے رہے اور سیاسی الجبرابھی ہنوز لا ینحل ٹھہرا۔زرداری صاحب کو مگر کیا سوجھی کہ اگر دھاندلی ہوئی توہمارے کارکنان پولنگ اسٹیشنوں پر قبضہ کر لیں گے۔خاکم بدہن!گماں گزرتا تھاکہ ڈھاکہ میں کوئی شیخ مجیب بول رہا ہو۔طیش نہیں تحمل،جوش نہیں ہوش اور خرافات نہیں حقیقت کہ عام انتخابات سے قبل سینٹ کے انتخابات بھی زرداری صاحب کی توجہ چاہتے ہیں۔اڑتی چڑیا کے پرگن لینے اوردیوار کے اس پار دیکھنے والوں کا دعوی ہے کہ ان انتخابات سے بلوچی سردار کو کوئی خاص دلچسپی نہیں۔ کیوں؟دلوں،نیتوں او ر مستقبل کا حال تو صرف اللہ جانتا ہے البتہ اب زرداری صاحب کے لئے عام انتخابات میں بھی کوئی کھیر کہاں۔بھائی کیا عجب زرداری صاحب کی مفاہمت،اے این پی اور چودھری برادران مل جل کر کھیر پکا ڈالیں۔پھر؟تاثر تو یہی ہے کہ اگر پی پی کبھی جیتی توقائدایوان تو بلاول ہونگے۔جی نہیں !زرداری صاحب کے دماغ میں جو بساط بچھی ہے ،اس کے پتے کچھ ایسے بکھرے ہیں کہ دیکھنے والوں کو بھی کچھ سجھائی اور پکڑائی نہ دے کہ معاملہ اب اور ہے:
کوئی دن گر زندگانی اور ہے
اپنے جی میں ہم نے ٹھانی اور ہے

مزید :

کالم -