بیجنگ میں ’نیا پاکستان ‘
’بیلٹ اینڈ روڈ فورم ‘ میں شرکت کے لئے وزیراعظم کے طیارے میں پہنچے تو ایسا عجب منظر دیکھنے کو ملا جو پاکستانی صحافیوں نے پہلے کبھی نہ دیکھا تھا۔ ایک ایک کر کے چاروں صوبوں کے وزرائے اعلیٰ جہاز میں سوار ہو گئے۔ایک رات قبل یہ سن گن تو ملی تھی کہ چاروں وُزرائے اعلیٰ وزیراعظم کے ساتھ بیجنگ جائیں گے لیکن کسی نے اس خبر پرکچھ زیادہ اعتبار نہ کیا تاہم صبح سویرے یہ منظر اپنی آنکھوں سے دیکھنے کو مل گیا، یقین کرنے کے سوا اور کوئی چارہ نہ رہا۔ تھوڑی ہی دیر میں وزیراعظم کی آمد بھی ہو گئی اور جہاز نے چین کے لئے پرواز بھر لی۔ اس ہی جہاز میں کابینہ کے نمایاں ترین وزراء اور اہم ترین محکموں کے سربراہان کی بھی بڑی تعداد موجود تھی۔رواں دور حکومت میں یہ پہلا موقع تھا کہ ملک کے چاروں صوبوں کے نمائندے وزیراعظم کے ہمراہ کسی ملک کا سفر کر رہے تھے۔
بیجنگ پہنچتے ہی ایک اور انتہائی حیران کن منظر دیکھنے کو ملا۔ پانچ سال قبل پوسٹ گریجویشن کے لئے قریباً دو سال چین میں گزارے تھے، رہائش تو شنگھائی میں تھی لیکن دو مرتبہ بیجنگ جانے کا بھی اتفاق ہوا۔ اس زمانے میں بیجنگ میں فضائی آلودگی کی شدت اتنی تھی کہ سانس لینا دوبھر ہو تا تھا۔ لوگ دھوئیں کی وجہ سے کئی کئی دن صاف آسمان دیکھنے کو ترستے تھے لیکن اس مرتبہ آسمان نیلا شفاف اور فضاء آلودگی سے بہت حد تک پاک محسوس ہوئی۔ انکشاف ہوا کہ حکومت نے بیجنگ کے قریب زیادہ آلودگی پھیلانے والی صنعتوں کی منتقلی کا عمل شروع کر دیا ہے۔ پھر بیلٹ اینڈ روڈ کانفرنس کے لئے کئی روز پہلے ہی باقی ماندہ انڈسٹری بھی عارضی طور پر بند کر وا دی گئی۔شہر کی سڑکیں بھی لش پش نظر آئیں۔غرضیکہ چین سے کسی بھی مسئلے کے فوری حل کی توقع رکھی جا سکتی ہے۔
وزیر اعظم نواز شریف نے چین میں اپنی مصروفیات کا آغاز چینی وزیراعظم اور پھر چینی صدر سے ملاقات کر کے کیا۔ ان دونوں ملاقاتوں میں پاکستان کے چاروں صوبائی وزراء اعلیٰ بھی شامل تھے۔ وزیراعظم نے بھی اس بات پر زور دیا کہ ان کی یہاں موجودگی اس بات کا ثبوت ہے کہ پاکستان میں سی پیک اور چین سے تعلقات پر مکمل اتفاق رائے موجود ہے۔ اس سے قبل وزیراعلیٰ کے پی کے پرویز خٹک نے غیر رسمی گفتگو کرتے ہوئے انکشاف کیا کہ وہ یہاں صرف جذبہ خیر سگالی کے تحت آئے ورنہ چند روز پہلے ہی وہ دورہ چین کے دوران82یادداشتوں پر دستخط کرکے گئے تھے، تاہم انہوں نے خدشہ ظاہر کیا کہ جب ان معاہدوں پر عملدرآمد کا مرحلہ آئے گا تو وفاقی حکومت کی جانب سے گارنٹیوں کی ضرورت پڑے گی، عین ممکن ہے اس موقع پر وفاقی حکومت ان کے ساتھ’’ ہاتھ‘‘ کر جائے۔
رات کو کھانے کے لئے ہوٹل کے ریستوران میں پہنچے تو پلاننگ کمیشن کے سربراہ احسن اقبال صحافیوں کے ساتھ وہیں آ بیٹھے۔ پرویز خٹک آئے تو وہ بھی اسی میز پر آگئے۔ چند لمحوں بعد وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق کی بھی آمد ہو گئی۔ ایسے میں وزیراعلیٰ پرویز خٹک کا خدشہ احسن اقبال کے سامنے رکھا گیا۔ انہوں نے فوری جواب دیا کہ کچھ عرصہ قبل کے پی کے حکومت کو پشاور میٹرو بس منصوبے کے لئے وفاقی حکومت کی گارنٹی درکار تھی۔ درخواست کی گئی کہ جلد از جلد فراہم کر دی جائے، کیونکہ یہ ایشین ڈویلپمنٹ بینک کے ٹینڈر کے لئے درکار ہے۔ احسن اقبال کا کہنا تھا کہ اس کام میں ایک دن کی بھی تاخیر نہ کی گئی اور ریکارڈ رفتار سے گارنٹی جاری کر دی گئی اور آئندہ بھی اسی طرح کام کیا جائے گا بشرطیکہ صوبہ اس کی ذمہ داری لینے کے لئے تیار ہو۔ وزیراعلیٰ کے پی کے نے بھی ان کے موقف کی تصدیق کی۔
کھانے کے دوران خواجہ سعد رفیق وقتاً فوقتاً پرویز خٹک کو ’’اکسانے‘‘ کی کوشش کرتے رہے لیکن جیسے ہی ماحول میں تلخی پیدا ہونے کے آثار نظر آنے لگتے، خود ہی فوری ’’بیک ٹریک‘‘ کر جاتے۔ پرویز خٹک بھی اْن کی ’حرکتوں ‘ سے محظوظ ہوتے رہے۔ یہ پاکستانی سیاستدانوں کا انوکھا روپ تھا جس میں سیاسی مفادات کی بجائے قومی مفاد زیادہ نمایاں تھا۔ بیجنگ میں پاکستانی سفیر کی جانب سے عشائیے میں بھی وزراء اعلیٰ سمیت تمام سیاستدانوں نے شرکت کی، کیا خوب منظر تھا کہ سب مل کر کھا رہے تھے پھر بھی سب کو پسند آرہے تھے۔
اگلے روز وزیراعلیٰ شہباز شریف کو ہوٹل کی لابی میں پاکستانی صحافیوں نے گھیر لیا۔ انہیں پیغام پہنچایا گیا کہ سی پیک منصوبوں کے حوالے سے وزیراعلیٰ کے پی کے وزیراعظم سے ون ٹو ون ملاقات کرنا چاہتے ہیں تاکہ رہے سہے تحفظات بھی دور ہو جائیں۔ وزیراعلیٰ شہباز شریف نے حامی بھر لی کہ وہ خود ذاتی طور پر وزیراعظم سے یہ درخواست کریں گے۔ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں سیاست چلتی رہتی ہے لیکن یہاں پر ہم سب اکٹھے ہیں۔ کسی پاکستانی سیاستدان کی جانب سے اس جذبے کا اظہار بھی نئی بات تھی۔ اس رواداری اور سیاسی پختگی پر جہاں ہر کوئی حیران تھا وہاں سب کو بے حد خوشی بھی تھی کہ جو تبدیلی پاکستانی اپنے ملک میں ڈھونڈ تے رہے وہ چین میں مل گئی۔ بیجنگ میں ’ نئے پاکستان ‘ کی بنیاد رکھ دی گئی، وہ پاکستان جہاں ذاتی مفاد اور سیاستی چپقلش اندھی نفرت کا باعث نہیں بنتی بلکہ یہ قومی مفاد کی حدوں میں قید ہو جاتی ہے۔ خدا کرے یہی رویے اپنے ملک میں بھی برقرار رہیں اور یہ چین کی ’آب و ہوا ‘ کا وقتی اثر نہ ثابت ہو۔