’’ میرے پاس اب 2 ہی آپشن ہیں کہ یا تو سیاست سے ہی دستبردار ہوجاؤں یا پارٹی سے درخواست کروں کہ ۔ ۔۔ ‘‘ بالآخر سپیکر قومی اسمبلی نے بھی خاموشی توڑدی

’’ میرے پاس اب 2 ہی آپشن ہیں کہ یا تو سیاست سے ہی دستبردار ہوجاؤں یا پارٹی ...
’’ میرے پاس اب 2 ہی آپشن ہیں کہ یا تو سیاست سے ہی دستبردار ہوجاؤں یا پارٹی سے درخواست کروں کہ ۔ ۔۔ ‘‘ بالآخر سپیکر قومی اسمبلی نے بھی خاموشی توڑدی

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

اسلام آباد(آئی این پی)سپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق نے کہا ہے کہ میرا حلقہ 6حلقوں میں تقسیم ہوچکا ہے، میرے حلقے کے ووٹرز کو پرویز ملک ، خواجہ سعد رفیق ، خواجہ احسان اور حمزہ شہباز کے حلقوں میں تقسیم کردیا گیا لہذا اب دو ہی اپشن ہیں کہ یا تو میں سیاست سے دستبردار ہوجاﺅ یا پارٹی سے درخواست کروں کہ میرے مستقبل کافیصلہ کیا جائے۔انہوں نے کہا کہ ہم نے عدلیہ کو کبھی نہیں کہا کہ آپ کے پاس لاکھوں مقدمات زیر التواءہیں آپ ان مقدمات کا فیصلہ کریں۔

سپیکر کاکہناتھاکہ کھینچا تانی اورسیاست دانوں کو مینج کرنے کے نتائج اچھے برآمد نہیں ہونگے، ماضی میں سیاسی اکھاڑ پچھاڑ کرنے کے تمام تجربات ناکام ہوچکے ہیں، جمہوری عمل کے تسلسل سے سیاسی نظام بہتر ہوگا، بطور اسپیکربیوروکریسی کے رویے کے باعث قومی اسمبلی سے احتجاجاً واک آﺅٹ کیا، آئندہ انتخابات منصفانہ نہ ہوئے تو 4کی بجائے 40حلقے کھولنا ہوں گے۔گزشتہ 5سالوں کے دوران نمایاں قانون سازی کے علاوہ کئی اہم سنگ میل عبور کیے ہیں، قومی اسمبلی کی تاریخ میں پہلی بار سات قوانین مشترکہ اجلاس میں منظور کیے جن میں چار پرائیویٹ ممبر بل شامل ہیں، بطور اسپیکر قومی اسمبلی ہر بین الاقوامی فورم پر مسئلہ کشمیر بھرپور طور پر اجاگر کیا۔بدھ کو ان خیالات کا اظہار  سپیکرقومی اسمبلی نے پارلیمانی رپورٹرز ایسوسی ایشن کی جانب دی گئی الودعی تقریب سے خطاب سے کرتے ہوئے کیا ۔

یوٹیوب چینل سبسکرائب کرنے کیلئے یہاں کلک کریں

انہوں نے کہا کہ پاکستان نے جب تک پارلیمانی نظام کی جڑیں مضبوط نہیں ہونگی تب تک یہ بہترین طریقے سے نہیں چل سکے گا۔پھر اگر کھینچا تانی ، اکھاڑ پچھاڑ اور ارکان اسمبلی کو مینج کرنے کی کوشش کی جائے گی تو نتائج اچھے برآمد نہیں ہونگے، پرویز مشرف کے دور میں جنرل احتشام ضمیر نے 2002میں ہونے والے انتخابات کے نتجائج تیار کیئے اور بعد ازاں انہوں نے تسلیم کیا کہ سیاست دانوں کو مینج کرنے کا تجربہ اچھا نہیں رہا۔ سیاست دانوں سے وفاداریاں تبدیل کروانے کے تمام تجربات ماضی میں بری طرح ناکام ہوئے، پہلی مرتبہ موجودہ حکومت کو اقتدار سیاسی اور جمہوری حکومت سے منتقل ہوا تھا مستقبل میں دو یا تین انتخابات وقت پر ہوئے تو سیاسی نظام سنجیدہ ہوکر سامنے آئے گا۔ان کا کہنا تھا کہ جو سیاست دان سیاسی جماعتوں کے وفادار نہیں وہ عوام کے وفادار بھی نہیں ہوسکتے۔ صاف اور شفاف انتخابات سے ہی نظام میں تبدیلی آئے گی۔

انہوں نے کہا وہ اس بات سے اتفاق نہیں کرتے کہ پاکستان مسلم لیگ (ن) سمیت دیگر سیاسی جماعتوں میں مختلف آراءکا احترام نہیں کیا جاتا۔ انہوں نے مثال دیتے ہوئے کہا کہ رضا ربانی کے معاملے میں پیپلز پارٹی کے اندرون خانہ تفصیلی مشاورت کی جس کے بعد کوئی فیصلہ سامنے آیا۔پارٹی کے قائدین ارکان کی جانب سے پیش کیئے جانے والے خیالات کا احترام بھی کرتے اور انہیں سنتے بھی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ بھارت نے ابھی تک گاندھی خاندان سیاسی نظام کا بھرپور حصہ ہے۔ بنگلہ دیش میں بھی پرانے سیاست دان حکومت کررہے ہیں۔ امریکہ میں بھی بڑا بش اور چھوٹا بش حکمرانی کرچکے ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ پارلیمنٹ میں پوچھے جانے والے سوالات کا جواب دینا وزراءکی اجتماعی ذمہ داری ہوتی ہے۔انہوں نے بیوروکریسی کے رویے کے باعث بطور سپیکر احتجاج کیا اور واک آﺅٹ بھی کیا۔ اگر بیوروکریسی پارلیمنٹ کو عزت نہیں دے رہی تو عام آدمی کی بات کس طرح سنتے ہونگے۔ تعلیم اور صحت کے معاملات صوبوں کے پاس ہیں۔ 18ویں ترمیم کے تحت بہت سے اختیارات صوبوں کو منتقل ہوچکے ہیں۔ تاہم ابھی بھی کچھ اداروں میں بہتری ہونا باقی ہے۔

انہوں نے کہا کہ خلائی مخلوق کی شکل تک انہیں اندازہ نہیں یہ پارلیمنٹ خلائی مخلوق کا بھی ہے خلائی مخلوق بھی اس پارلیمنٹ کی حصہ دار ہے۔ان کا مزید کہنا تھا کہ اگر آئندہ انتخابات منصفانہ نہ ہوئے تو 4کی بجائے 40حلقے کھولنا ہوں گے۔ ہم سب کیلئے قومی سلامتی کا مفادمقدم ہے تاہم میڈیا کو بھی بیانات کو توڑموڑ کر پیش نہیں کرنے چاہیے۔ ان کا کہنا تھا کہ صحافی کے مسائل حل کرنے پر توجہ دی کہ دعا ہے کہ صحافیوں کو پیشہ وارانہ فرائض سرانجام دینے کے دوران جو مسائل درپیش ہوتے ہیں وہ بھی جلد حل ہوں۔انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان کی 14ویں قومی اسمبلی 2013 کے انتخا بات کے نتیجے میں معرض وجود میں آئی اور 31 مئی2018کو اپنی مدت مکمل کر نے جا رہی ہے۔گزشتہ 5سالوں کے دوران نمایاں قانون سازی کے علاوہ کئی اہم سنگ میل عبور کیے ہیں۔

موجودہ اسمبلی کی نمایاں کامیابیوں کے اہم پہلوﺅں کو اجاگر کرتے ہوئے سپیکر نے کہا کہ موجودہ اسمبلی نے 136قوانین منظور کیے جن میں 49 انتہائی اہمیت کے حامل ہیںجن میں قر آن پا ک کی لا زمی تعلیم کا بل ، گواہ کے تحفظ، سیکورٹی اور فوائدکا بل،معلومات تک رسائی کا بل، انتخابی اصلاحات کا بل، پبلک انٹرسٹ ڈسکلوز بل، او رہندو شادی ایکٹ جیسے قوانین شامل ہیں۔انھوں نے کہا کہ موجودہ اسمبلی نے چار آئینی آرٹیکلز بھی منظور کیے جن میں سے دو انسداد دہشتگردی اور دو انتخابی نظام بہتر بنانے سے متعلق ہیں۔ انھوں نے کہا کہ قومی اسمبلی کی تاریخ میں پہلی بار سات قوانین مشترکہ اجلاس میں منظور کیے جن میں چار پرائیویٹ ممبر بل شامل ہیں علا وہ ازیں مو جو دہ اسمبلی نے مجمو عی طور پر سولہ پرائیویٹ ممبر بل پاس سپیکرنے کہا کہ 2014کے دھرنے کے دوران تحریک انصاف کے ممبران اور بعد ازاںایم کیو ایم کے ممبران نے اپنے استعفے جمع کروائے لیکن قومی اسمبلی کے کسی بھی ممبر کو استعفو ں کی وجہ سے اپنی نشست سے محروم نہیں کیا گیا۔

انہوں نے کہا کہ قومی اہمیت کے حامل تمام معاملات پرایو ان میں سیر حاصل بحث کی گئی جس میں حزب اختلاف کو اپنا نقظہ نظر پیش کرنے کا بھر پور موقع فراہم کیا گیا۔انہوں نے کہا کہ موجود ہ اسمبلی کی آئینی مدت کے دوران 6بجٹ پیش کیے گئے جو اس اسمبلی کا ایک منفرد اعزاز ہے۔سپیکر نے کہا کہ قومی اسمبلی کی 34قائمہ کمیٹیوں جن میں سے 10کی سر براہی حزب اختلاف کو دی گئی کی کارکردگی انتہائی شاندار رہی۔انہوں نے کہا قائد حزب اختلاف کی سربراہی میں کام کرنے والی پبلک اکاﺅنٹس کمیٹی کو مزید فعال بنانے کے لیے اقدامات اٹھانے کے علاوہ پاک چین اقتصادی راہداری کمیٹی اور نیشنل سیکورٹی کمیٹی بھی تشکیل دی گئی۔گزشتہ پانچ سالوں میں اٹھائے جانے والے اہم اقدامات کا ذکر کرتے ہوئے سپیکر نے کہا کہ قومی اسمبلی میں کام کے طریقہ کار کو بہتر بنانے اور کارکردگی میں اضافے کے لیے متعدد اقدامات اٹھائے گئے جن میں اسٹرٹیجک پلان ،لجسلیٹیو ڈرافٹنگ کونسل کا قیام ملک کی اعلیٰ یونیورسٹیوں میں پارلیمانی سٹڈیز کے پروگراموں کو متعارف کرانا اور سیکرٹریٹ کے عملے کی استعداد کا ر میں اضا فے کے لیے سیکر ٹر یٹ کی سطح پر تر بیتی پروگراموں کا انعقاد شامل ہیں۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان کی پارلیمنٹ دنیا کی پہلی پارلیمنٹ ہے جس میں پائیدار تر قی کے اہداف کے حصول کے لیے مکمل طور پر ایک فعال سیکرٹریٹ قائم کیا گیا ہے۔انہوں نے کہا ہمارے لیے یہ بڑے اعزاز کی بات ہے کہ پاکستان کی پارلیمنٹ دنیا کی پہلی پارلیمنٹ ہے جسے مکمل طور پر شمسی توانائی پر منتقل کیا گیا۔سر دار ایاز صادق نے کہا ہے کہ پارلیمنٹ ہاﺅس میں پہلی دفعہ توانائی آڈٹ عمل میںلایا گیا جس سے ہمیں توانائی کے متبادل ذرائع تلاش کرنے میں مدد ملی۔ہیومین ریسورس پرگرامز کی تفصیلات سے آگاہ کرتے ہوئے سپیکر نے بتایا کہ سپیکر کا آفس سنبھالنے کے بعد ملازمین کی تر قی،ریٹا ئر منٹ اور دیگر معا ملا ت کو دیکھنے اور آئندہ کے لا ئحہ عمل بنا نے کے لیے سیکر ٹریٹ میں ہیو من ریسورس ڈپا ر ٹمنٹ قائم کیا۔

انہوں نے کہا کہ ملازمین کی تر قی کو سنیارٹی کم فٹنس کے طریقہ کا ر کے تحت یقینی بنا یا گیا تا کہ کسی کی حق تلفی نہ ہوسکے۔سپیکر نے کہا کہ قومی اسمبلی سیکرٹریٹ میں بھرتی کے عمل کو شفاف بنانے کے لیے انہو ں نے سیکر ٹر یٹ میں بھرتی کے اپنے تمام اختیارات (FPSC )فیڈرل پبلک سر وس کمیشن کو تفویض کر دیے ہیں۔انہوں نے کہا کہ دنیا میں پاکستان کے مثبت تشخص کو اجا گر کرنے کے لیے قومی اسمبلی میں دنیا کی دیگر پارلیمانوں کے ساتھ رابطوں کو فروغ دینے کے لیی88 فرینڈشپ گروپس تشکیل دیئے گئے۔انہوں نے کہا کہ گزشتہ 5 سالوں میں کثیر تعداد میں پارلیمانی وفود نے اپنے سپیکروں/ چیئر مینوں کی قیادت میں پاکستان کا دورہ کیا۔

انہوں نے کہا کہ ہماری پارلیمانی سفارت کا ری کی ایک اہم کا میا بی 2015کی دولت مشترکہ کی پارلیمانی کانفرنس کے انعقاد کے لیے پاکستان کا انتخاب اور اس کے سپیکر کو متفقہ طور پر دولت مشترکہ پارلیمانی ایسوسی ایشن کا صدر منتخب کرنا تھی۔انہوں نے کہا کہ ہم نے پاکستان کے کشمیر پر اصولی موقف کی وجہ سے دولت مشترکہ کانفرنس کے اسلام آباد میں انعقاد سے معذرت کی کیونکہ بھارت مقبوضہ جموں وکشمیر اسمبلی کے سپیکر کو کانفرنس میں مدعو کرنے کا مطا لبہ کر رہا تھا جوکہ پاکستان کے لیے نا قا بل قبول تھا سپیکر نے کہا کہ انہوں نے ہر بین الاقوامی فورم پر مسئلہ کشمیر کو بھر پو ر انداز میں اٹھایا اور مسلم ممالک کی پارلیمانی یونین میں مسئلہ کشمیر پر تین دفعہ مشترکہ قرار داد منظور کرانے میں کامیاب ہوئے۔انہوں نے کہا کہ پاکستان کی پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں نے نصف درجن سے زائد قراردادیں منظور کیں جن میں وادی کشمیر میں بھارتی افواج کی طر ف سے ریاستی دہشت گردی اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی شدید الفاظ میں مذمت کی گئی۔