اس سے پہلے کہ ہم شام کی مہم پر بات کریں، اس ماحول اور ان واقعات پر بات کرنابھی ضروری ہے کہ جس میں عالمی سطح پر یہ مہم اور خالد بن ولیدؓ کی فتوحات عمل پذیر ہورہی تھیں۔ قرآن میں سورہ روم میں’’ غلبت الروم‘‘ کے حوالے سے جو آیات آئی ہیں، وہ فارسی اور رومی سلطنتوں کے آپس میں تصادم کے حوالے سے ہیں۔ قرآن میں یہ درج ہے کہ رومیوں اورایرانیوں کی جو جنگ جاری ہے، اس میں رومیوں کو شکست ہوگئی ہے، لیکن کچھ ہی عرصے بعد رومی خود کو منظم کرکے دوبارہ حملہ کریں گے اور ایرانیوں کو شکست ہوگی اور مسلمان خوش ہوجائیں گے۔ قرآن پاک میں رومی اور فارسی سلطنتوں کی آپس کی جنگوں کے متعلق بات کی گئی ہے کہ جو اس وقت کی عالمی طاقتیں تھیں اور صدیوں سے قائم تھیں۔ یعنی دنیا کے تمام تجارتی راستے مشرق وسطیٰ ،افریقہ، یورپ اور مشرق کی طرف ایران سے لیکر خراسان اورہند کی سرحد تک کے تمام علاقے انہی دو بڑی سلطنتوں میں تقسیم تھے۔ قرآن پاک میں خاص طور پر بڑی قوتوں کے تصادم اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونیوالی صورتحال کا ذکر کرنے کا مقصد یہ ہے کہ مسلمان عالمی سطح پر ہونیوالی تبدیلیوں اوربین الاقوامی طاقتوں کے مابین تصادم کے نتیجے میں وقوع پذیر ہونے والے حالات و واقعات پر نظر رکھیں ۔ عالمی جغرافیائی سیاست اور حربی حکمت عملی کو سمجھنا اور اس سے فائدہ اٹھانا، ہمارے دین اور ایمان کا حصہ بنادیا گیا ہے۔
حضرت خالدبن ولیدؓ۔اسلام کے عظیم سپہ سالار کے حالات زندگی... قسط 5 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
دوسری طرف حضورﷺ نے کچھ بشارتیں عطا فرمائی تھیں۔ ایران کے خسرو پرویز نے جب حضورﷺ کا نامہ مبارک، یعنی خط، پھاڑ کر پھینکا تو اسی وقت حضورﷺ نے فرمادیا تھا کہ کچھ ہی عرصے میں اس خط کی مانند اس کی ریاست بھی ٹکڑے ٹکڑے ہوجائے گی۔ پھر حضرت سراقہؓ کو کسریٰ کے کنگن پہننے کی بشارت اور مسلمانوں کو قسطنطنیہ فتح کرنے کی نوید ملنا۔۔۔۔ اس طرح کے بہت سے حالات و واقعات رونما ہوئے تھے کہ جن کی وجہ سے مسلمانوں کو ایمان کی حد تک یقین تھا کہ کچھ ہی عرصے میں مسلمان فارس اور روم جیسی عظیم سلطنتوں کے ساتھ ٹکرائیں گے اور ان پر غالب بھی آجائیں گے۔
فتنہ ارتداد کے خاتمے کے بعد جزیرہ نما عرب میں اسلام کا مکمل طور پر غلبہ ہوچکا تھا، مگر اس وقت تک مسلمانوں نے کوئی عسکری مہم جزیرہ نما عرب سے باہر نکل کر نہیں کی تھی۔ اس کے لیے غیر معمولی فراست ، تدبر اور جرأت کی ضرورت تھی۔ایرانی سلطنت کہ جو کئی صدیوں سے قائم و دائم تھی، اب اس کے خلاف ایک مہم روانہ کی جانی تھی۔ اسکے لیے حضرت سیدنا خالد بن ولیدؓ سے بہتر انتخاب ہو ہی نہیں ہوسکتا تھا۔یہاں ایک بات بہت اہم ہے۔جنگی قانون کاایک بنیادی پہلو یہ ہے کہ جب ایک ملک دوسرے ملک پر حملہ کرتا ہے تو عسکری تناسب ۵ بمقابلہ ۱ یا کم از کم ۳ بمقابلہ ۱ ہونا چاہیے۔یعنی آپ کی فوج دشمن کی فوج سے پانچ گنا یا کم از کم تین گنا زیادہ ہونی چاہیے تاکہ اس کے دفاع کو روندنے کے بعد بھی آپ کے پاس اتنی اضافی فوج موجود ہو کہ آپ اس کے ملک پر قبضہ کرکے اس کا نظم و نسق چلاسکیں۔دنیا کی تمام فوجیں آج بھی اسی حکمت عملی پر عمل کرتی ہیں۔
رومی اور فارسی سلطنتیں بھی اسی طریقہ کار پر کاربند تھیں۔یہ فیصلہ کرنے کیلئے کہ میدان جنگ میں فتح یا شکست کس کا مقدر ہوگی، ان کے نزدیک بھی عددی اور عسکری برتری بہت اہمیت کی حامل تھیں ۔ان کے تمام جرنیل اپنی فوجی اور عسکری حکمتِ عملی کی بنیاد اسی بات پر رکھتے تھے کہ عددی برتری کس کے پاس ہے اور فوجی ہتھیار اور سازو سامان کس کے پاس زیادہ ہے۔ایک بہت بڑا عنصر کہ جو مسلمانوں کے حق میں جاتا تھا، وہ یہ تھا کہ روم اور ایران ایک دوسرے سے لڑ لڑ کر تھک چکے تھے۔ کئی برس سے ان کی آپس میں خون ریز جنگیں چل رہی تھیں۔سلطنت فارس کے حوالے سے ایک اور اہم عنصر یہ تھا کہ وہاں طوائف الملوکی پھیلی ہوئی تھی۔ اس کا مرکز کمزور ہوچکا تھااورصوبے بکھر رہے تھے۔اگرچہ ابھی بھی افواج فارس بہت بڑی طاقت کی صورت میں اپنی جگہ موجود تھیں، لیکن ان کا مرکز کمزور ہونے کی وجہ سے ایسی فیصلہ سازی کہ جو ایک مضبوط سلطنت کو اکٹھا رکھنے کیلئے ضروری تھی، کا فقدان تھا۔
ان حالات میں کہ جب حضرت خالد بن ولیدؓ کوایران پر یلغار کرنے کیلئے بھیجا گیا تو انہوں نے وہ کچھ کیا کہ جو اس سے پہلے یا اس کے بعد حربی و عسکری تاریخ میں کبھی نہیں دیکھا گیا۔ انہوں نے تمام جنگی قوانین نئے انداز سے لکھے۔چودہ سو سال گزرنے کے باوجود آج بھی دنیا حضرت خالد بن ولیدؓ کی جنگوں سے سبق سیکھتی ہے۔اس میں کوئی شبہ نہیں کہ بعد میں آنیوالی مسلمان سلطنتوں نے سیدنا خالد بن ولیدؓ کی اتنی قدر نہیں کی کہ جتنی مغربی دنیا اپنے سپہ سالاروں اور جرنیلوں کی کرتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ دنیا کے بڑے بڑے جرنیل ا ور سپہ سالار مثلاً سکندر اعظم، ہینی بال، چنگیز خان، تیمور حتیٰ کہ جدید دور کے نامور جرنیل بھی جیسے رومیل، منٹگمری، ڈگلس میکارتھر وغیرہ شامل ہیں، سیدنا خالدؓ کے سامنے طفل مکتب نظر آتے ہیں۔
جب مسلمانوں نے عراق(جو اس وقت سلطنت فارس کا صوبہ تھا) پر حملہ کیا تو جو فوج بھی مسلمانوں کے مقابلے پر آئی، وہ ان سے کم از کم پانچ گنا بڑی ہوتی ۔ حالانکہ جنگی اصول تو یہ تھا کہ یلغار کرنے والی فوج کو پانچ گنا زیادہ ہونا چاہیے۔لیکن یہاں دفاعی فوج پانچ گنا زیادہ ہوتی۔ اس کے علاوہ مسلمانوں کے پاس عسکری وسائل، سازو سامان اور ہتھیاروں کا تناسب بھی خطرناک حد تک کم ہوتا۔ مسلمانوں کی وہ فوج ایک غیر معمولی فوج تھی کہ جس میں نہ کوئی افسرتھا نہ کوئی جوان۔جس کی ضرورت ہوتی ،اس کو افسر لگا دیا جاتا۔جب وہ معزول ہوتے تو سپاہیوں کی صف میں آجاتے ۔یہ تمام فوج جذبہء جہاد سے سرشاراور رضا کار فوج تھی کہ جس کو تنخواہیں بھی نہیں ملتی تھیں۔ اس فوج کے پاس اتنی بڑی مہم کیلئے نہ جنگی سازو سامان تھا اورنہ ہی وسائل ۔جس کو گھوڑا مل گیا وہ گھوڑے پر سوار ہوگیا، جس کو اونٹ مل گیا، وہ اونٹ پر بیٹھ گیا۔ان کے پا س تیر اندازی کے سامان ، تلواروں اور نیزوں کے علاوہ کوئی جدید بھاری جنگی سازو سامان بھی نہ ہوتا۔
مسلمانوں کی فوج میں نہ کوئی ہاتھی تھے اور نہ ہی منجینقیں، نہ ہی گھوڑوں سے چلنے والے جنگی رتھ۔فوج کے پاس کوئی باقاعدہ یونیفارم بھی نہیں تھے ،فقط پھٹے پرانے کپڑے ۔یہاں تک کہ ڈھالیں (Shields) بھی نہ ہونے کے برابر تھیں۔بعض اوقات تو تلواریں بھی بغیر نیام کے ہی ہوتیں۔ان کے گرد صرف کپڑا لپٹا ہوتا۔ اندازہ کیجیے یہ وہ فوج تھی کہ جو سیدنا حضرت خالد بن ولیدؓ کی قیادت میں جزیرہ نما عرب سے نکل کر دنیا کی عظیم ترین سلطنت فارس کو چیلنج کرنے جارہی تھی۔
عراقی مہم کے دوران جو جنگیں لڑی گئیں ان میں ہلاکتوں کا تناسب انتہائی حیران کن تھا۔ ایک طرف سلطنتِ فارس کی مضبوط فوج تھی اور دوسری طرف یہ پھٹے پرانے کپڑوں میں ملبوس ایک رضا کار فوج کہ جو جذبہ جہاد سے سرشار تھی، کہ جس نے اس وقت کی معلوم عسکری حکمت عملیوں کی دھجیاں اڑا کر رکھ دیں۔ ان کے پاس نہ وسائل تھے، نہ ہی عددی برتری ۔ یہ جنگ بھی اپنے وطن سے سینکڑوں میل دور جا کر لڑ رہے تھے کہ جس کی وجہ سے رسد اور کمک کا راستہ بھی خاصا طویل ہوگیا تھا، مگر اس کے باوجود جب جنگ ہوتی، تو ہلاکتوں کا تناسب کچھ یوں ہوتا کہ جیسے پچاس ہزار دشمن جہنم واصل اور صرف چار سو مسلمان شہید ، یعنی ہلاکتوں کا تناسب ہی عقل دنگ کردینے والا ہوتا۔آج تک دنیا کے تمام عسکری ماہر یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ اس قدر قلیل فوج کے ساتھ مسلمان کس طرح اتنی بڑی تعداد میں دشمنوں کو ہلاک کرنے کے قابل ہوتے تھے ، جبکہ ان کا اپنا نقصان نہ ہونے کے برابر ہوتا۔ دنیا کا کوئی سپہ سالار یا جرنیل تاریخ کے کسی بھی دور میں ایسی مثال پیش نہیں کرسکتا کہ جیسی خالد بن ولیدؓ نے کرکے دکھائی۔(جاری ہے )
حضرت خالدبن ولیدؓ۔اسلام کے عظیم سپہ سالار کے حالات زندگی... قسط 7 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں