میاں نواز شریف کے بیانئے نے اوورسیز پاکستانیوں کادل جلا دیا

میاں نواز شریف کے بیانئے نے اوورسیز پاکستانیوں کادل جلا دیا
میاں نواز شریف کے بیانئے نے اوورسیز پاکستانیوں کادل جلا دیا

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

جب بھارتی قابض افواج کے استبداد سے تنگ آ کر کشمیریوں نے ہتھیار اٹھا نے کا فیصلہ کیا تو پاکستانی قوم نے انکا ساتھ دیا۔ بھارتی سیاسی قیادت نے کشمیر ہاتھ سے جاتا دیکھا تو اپنی فوج پر سے دباؤ ختم کرنے کے لیے بغیر اعلان جنگ کے کشمیر کے جنوبی محاذ پر پاکستانی بین الاقوامی سرحد کو عبور کرتے ہوئے لاہور پر رات کے وقت پوری قوت سے حملہ کر دیا تحا۔بھارتی منصوبے میں ناشتہ لاہور میں کرنا شامل تھا ۔اس کے جرنیلوں کو خود پر بڑا بھروسہ تھا لیکن پاکستانی فوج نے انہیں بی آر بی نہر بھی پار کرنے نہ دی اور انکا شمشان گھاٹ بنا دیا گیا ۔ بھارتی سورمے جتنی تیاری کے ساتھ آئے تھے انکے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ پاکستانی فوج کی جوابی کارروائی اتنی خوفناک ہو گی ۔
اسی جنگ کے دوران سپاہی مقبول حسین کیپٹن شیر کی قیادت میں دشمن کے اسلحہ کا ایک ڈپو تباہ کر کے آ رہا تھا کہ واپسی پر اس شیر کی دشمن سے جھڑپ ہو گئی ۔ سپاہی مقبول حسین زخمی ہو گیا اور دشمن نے اس شیر کو اپنے پنجرے میں قید کر لیا ۔ جنگ بند ہو گئی ۔ قیدیوں کی لسٹوں کا تبادلہ کیا گیا تو بھارت نے سپاہی مقبول حسین کا ذکر نہ کیا ۔ پاک آرمی نے سپاہی مقبول حسین کو شہید سمجھ لیا ۔ ادھر بھارتی سورموں نے اس شیر پر تشدد کرنا شروع کر دیا تا کہ پاک آرمی کے راز اس شیر کی زبان پر آئیں ۔ بہت زور لگایا گیا لیکن اس شیر کی مردانگی کے سامنے ان کو ہمت ہارنی پڑی ۔ بھارتی سورمے اس ذلت پر مرہم لگانے کے لیے پاک آرمی کے شیر کو بولتے بولو پاکستان مردہ باد اور یہ شیر پوری قوت لگا کر پاکستان زندہ باد کا نعرہ لگاتا ۔ پھر ان بزدلوں نے اس شیر کی زبان کاٹ دی ۔ یہ شیر اپنے لہو سے جیل کی دیواروں پر لکھتا پاکستان زندہ باد ۔
40 سال بعد جب قیدیوں کو رہا کیا گیا تو یہ شیر بھی واہگہ بارڈر سے اپنے پیارے وطن میں داخل ہوا ۔ باقی قیدی اپنے اپنے گھروں کو چلے گئے ۔لیکن سپاہی مقبول حسین ایک آرمی کمانڈر کے آفس گیا سیلیوٹ مارا اور لکھ کر کہا سپاہی مقبول حسین 335139 آن ڈیوٹی سر ۔ جب تحقیقات کی گئیں اور اس شیر کی اصلیت پتا چلی تو سب آرمی آفیسرز نے اس شیر کو سیلیوٹ کیا ۔
ایک طرف سپاہی مقبول حسین اور اس جیسے کتنے شیر دل بیٹوں نے ہمارے پیارے وطن پاکستان کی عزت کی خاطر اپنی جانیں داؤ پر لگائیں
تو دوسری طرف یہ سن کر کلیجہ منہ کو آگیا کہ ایٹمی دھماکوں کا اعزاز لینے والے نواز شریف نے اسی پیاری دھرتی کی عزت کے ساتھ کھلواڑ کرنے کی کوشش کر کے پوری قوم کا سر شرم سے جھکا دیا ۔
  نواز شریف کون ہیں ؟ انہیں پاکستان نے اتنا بڑا ناما ور کام دیا کہ ان کی لوہے   کی بھٹی  کارخانوں میں بدل گئی    ۔ 1958 میں اس بھٹی کو اتفاق فاؤنڈری میں تبدیل کیا گیا اور پھر رفتہ رفتہ یہ فاؤنڈری کاروبار میں تبدیل ہو گئی ۔ پھر شریف فیملی اقتدار میں آ کر اس پاک دھرتی کو لوٹنے میں مصروف ہو گئی ۔ پیسہ لوٹ کر باہر کے ممالک میں کاروبار کیا گیا ۔ آج اس شریف فیملی کا یہی چراغ ملکی سلامتی کے لیے خطرہ بن چکا ہے۔ ملک کی سلامتی اور عزت کو پس پشت ڈال کر انڈیا میں اسی نواز شریف نے کاروبار کیا ۔ اپنی شوگر ملز میں مبینہ طور پر بھارتی ایجینٹس کو چھپایا ۔
جب اگست 2016 میں ڈاکٹر طاہر القادری صاحب نے کہا کہ نواز شریف نے اپنی ملز کے اندر بھارتی ایجینٹس کو پناہ دے رکھی ہے تو قادری صاحب کا اس وقت مزاق اڑایا گیا ۔ ابھی اقتدار سے نکالے جانے کی وجہ سے موصوف اپنا   توازن کھو بیٹھے ہیں اور ڈان کے سرل المیڈا کو   انٹرویو دینے کے بعد یہ کہہ کر میاں صاحب نے  کہ ممبئی حملوں میں پاکستا ن کا ہاتھ تھا ،پوری قوم کو دنگ کردیا اس بات سے ایک دفعہ دوبارہ ثابت ہو گیا کہ ڈاکٹر قادری نے جو کہا ٹھیک ہی  کہا ہے  ۔ میاں نواز شریف کا یہ بیان سن کر میرا سر اس وجہ سے شرم سے جھک گیا ہے کہ اس بیان کے بعد بارسلونا میں ایک انڈین نے مجھے کہا کہ ہم ناں کہتے تھے اب تو تمہارا سابق وزیر اعظم بھی کہہ رہا ۔کیا آپ جان سکتے ہیں اس وقت  ایک تارکین وطن پاکستانی کے دل میں کتنے آرے چلے ہوں گے ۔ممبئی حملوں کے پاکستان پر الزام لگائے جانے پر ہم اس بات کا دفاع کرتے آرہے تھے کہ پاکستان اس میں ملوث نہیں۔پاکستان پرامن ملک ہے جو دوسرے ملکوں میں مداخلت نہیں کرتا ۔اگرچہ یہی حقیقت ہے تاہم  میاں نواز شریف کے اس بیانئے نے ہم سب کو کہیں کا نہیں چھوڑا۔اوورسیز پاکستانی جو پہلے اپنا اور ملک کا اعتماد و تشخص بحال کرنے میں بڑی جدوجہد کرتے ہیں ،اب انہیں ایک نئے عذاب سے دوچار ہونا پڑے گا ۔ان پر دہشت گردی کا لیبل چسپاں رہا ہے،جسے اتارنے میں انہوں نے بڑا سنگ میل عبور کیا لیکن اس غدارانہ جملے نے ان کی مشکلیں بڑھادی ہیں ۔

۔۔

 نوٹ: روزنامہ پاکستان میں شائع ہونے والے بلاگز لکھاری کا ذاتی نقطہ نظر ہیں,ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

مزید :

بلاگ -