آگے کیا ہو گا؟

آگے کیا ہو گا؟
آگے کیا ہو گا؟

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

گزشتہ روز لاہور اور اسلام آباد سے جو خبریں بڑی معلوم ہوئیں وہ یہ کہ لاہور ہائی کورٹ نے تحریک انصاف کے رہنما اور سابق سینئر صوبائی وزیر علیم خان کی درخواست منظور کرتے ہوئے ان کو ضمانت پر رہا کرنے کا حکم دیا اور وہ رہا بھی ہو گئے۔ دوسری طرف اسلام آباد ہائیکورٹ نے چھ مختلف انکوائریوں اور ریفرنسوں میں سابق صدر آصف علی زرداری اور ان کی ہمشیرہ فریال تالپورکی عبوری ضمانتوں میں توسیع کر دی اور ایسا محسوس ہوا کہ آصف علی زرداری اور فریال تالپور جیل میں نہیں گھر پر ہی میٹھی عید(عیدالفطر) منا لیں گے کہ آصف زرداری نے گزشتہ پیشی پر کہا تھا ”یہ تو جج صاحبان پر منحصر ہے کہ عید گھر پر ہوتی ہے یا جیل میں“ مطلب یہ تھا کہ عدالت سے ضمانت مل گئی تو جیل نہیں جائیں گے حالانکہ خبروں سے یہ احساس ہوتا ہے کہ ان کو ہر ممکن طور پر اندر کرنے کی خواہش کہیں پل رہی ہے۔ تاہم اس میں ابہام بھی ہے جو اتنا اہم نہیں۔

زرداری اور فریال تالپور کی توسیعی ضمانت 15مئی تک تھی۔ نیب نے ان کو ایک تحقیقات میں 16مئی کو طلب کیا تھا۔ اس سے تو یہی ظاہر تھا کہ نیب نے 15مئی والی پیشی کا انتظار کیا کہ ضمانت میں توسیع کا جو فیصلہ ہونا ہے، ہو جائے تو پھر ہی سابق صدر سے بات کی جائے، ویسے جو رپورٹ اسلام آباد ہائی کورٹ میں پیش کی گئی اس کے مطابق تو آصف علی زرداری کے خلاف سولہ سے زائد انکوائریاں ہو رہی ہیں اور الزام منی لانڈرنگ، اثر و رسوخ کے استعمال سے قرض حاصل کرنا اور کک بیکس جیسے ہیں، اب تو ان کے خلاف ایک نئی انکوائری بھی شروع کی گئی۔


نیب نے مختلف انکوائریوں کے دوران بعض میں پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری سے بھی سوال کئے اور اب پھر ان کو 17مئی کے لئے طلب کیا تھا۔ اس کےلئے انہوں نے تحریری معذرت کی کہ نوٹس تاخیر سے ملا اور مصروفیت کی وجہ سے آ نہ سکیں گے۔ اس لئے اگلے ہفتے کا کوئی دن مقرر کر لیا جائے۔ بلاول کی طلبی کی خبر پر بھی سابق صدر سے سوال کر لیا گیا تو وہ بولے ”بلاول، بی بی (شہید) کا بیٹا ہے، اسے انگاروں پر تو چلنا ہو گا‘ اب صورت حال یہ ہے کہ علیم خان کی ضمانت ہوئی تو انہوں نے نیب کے طریق کار پر سوال اٹھا دیا اور کہا ”عجیب بات ہے کہ نیب والے پکڑ کر پہلے جیل میں ڈالتے اور پھر ثبوت اکٹھے کرتے ہیں“ ان کا کہنا تھا کہ وہ چالیس روز تک جیل رہے، اس کا حساب کون دے گا؟

علیم خان نے اس سلسلے میں اپنی پارٹی میں بات کرنے کا اعلان کیا، اس سے قبل جو بھی نیب کی طرف سے بلایا گیا اس نے بھی یہی موقف اختیار کیا حتیٰ کہ آصف علی زرداری اور خواجہ سعد رفیق کا بھی یہی سوال ہے۔ وفاقی وزیر قانون نے نیب قوانین کو بہتر بنانے کے لئے قانون میں ترمیم یا نئے قانون کی تدوین کی بات کی۔ یہ دلچسپ ہے کیونکہ ہر دو جماعتوں (پیپلزپارٹی +مسلم لیگ (ن)) نے اپنے دور میں احتساب کا نیا قانون لانے کی بات کی ۔ بِل کی تدوین بھی ہوئی تاہم دونوں جماعتیں بعض شقوں پر متفق نہ ہوئیں اور قانون لٹک گیا اور اب یاد آ رہا ہے، بہرحال اب اگر تحریک انصاف اسے موثر قانون بنانا چاہتی ہے تو قومی اسمبلی میںاتفاق رائے سے ایسا کرلیا جائے دوسری صورت میں حکمران جماعت تو سادہ اکثریت سے نیا مسودہ منظور کر ہی سکتی ہے، تاہم احتساب کو سب مانتے ہیں تو احتسابی قانون پر بھی سب کو اتفاق کر لینا چاہیے۔

بات کرنا تھی، بلاول بھٹو زرداری سے متعلق جو سوالات بلاول سے کئے گئے جن کا انہوں نے تحریری جواب بھی دیا تھا، ان سے تو یہ مترشح ہوا کہ نیب والے ان سے ان کے اپنے اخراجات کا حساب مانگتے ہیں اور ان پر کس کھاتے سے خرچ ہوا اس کے جواب دہ بھی وہ ہیں، اگر یہی مثالی انکوائری ہے تو پھر سب کو منتظر رہنا چاہیے کہ بلاول کے بعد بختاور بھٹو زرداری اور آصفہ بھٹو زرداری کی باری کب آتی ہے کہ وہ بھی تو محترمہ اور آصف علی زرداری کی طرف سے دیئے گئے اخراجات سے ہی پڑھ کر جوان ہوئے اور اب تک کراچی۔ لاہور۔ ملتان اور اسلام آباد کے جن گھروں میں رہتے ہیں وہ بھی تو آصف علی زرداری ہی نے بنائے چاہے کسی کا نام بلاول ہاﺅس ہی کیوں نہ ہو، البتہ نوڈیرو والی حویلی مستثنیٰ ہے کہ یہ ذوالفقار علی بھٹو کی بڑی بیگم امیر بیگم کو ورثے میں ملا گھر جو انہوں نے محترمہ بے نظیر بھٹو کو گفٹ کر دیا تھا۔


انہی حالات میں جب آصف علی زرداری یا بلاول سخت بات کرتے ہیں تو یہی جواب ملتا ہے تکلیف ہوئی تو چیخ نکلی نہ کچھ کرتے تو نہ ہوتا۔
اب تو بات آصف علی زرداری کے حوالے سے ہوئی ہے کہ انہی کو سیاسی گورو مانا جاتا ہے اور وہ اب کہتے ہیں کہ حکومت مخالف تحریک چلائیں گے۔ جواب ملتا ہے۔

”شوق سے چلاﺅ، آپ کے لئے کوئی باہر نہیں نکلے گا“ اب پھر تحریک کی بات کی گئی ہے تو حالات نے مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کو ایک صفحے پر لا کر کھڑا کر دیا ہے اور ہر دو کی طرف سے ایسی بات کی جا رہی ہے، تاہم بہت بڑا سوالیہ نشان ہے کہ کیا ایسے حالات ہیں، جواب میں یہ تو کہا گیا جی! ہاں عوام بھوک سے پریشان ہیں، راہ ہموار ہے، تاہم سنجیدہ فکر حلقوں کے مطابق ممکن نہیں کہ ہر دو فریقوں پر اعتماد بھی نہیں، یوں بھی ”ڈیل“ کا شک تو رہتا ہے، اس لئے جو دوست کچھ ہونے کے منتظر ہیں وہ تحمل سے انتظار کریں کہ بھوک سے انقلاب کی راہ تو ہموار ہوتی ہے ضرورت لیڈرسپ کی ہوتی ہے۔

مزید :

رائے -کالم -