گُل محمد اب کیا کرے گا؟

گُل محمد اب کیا کرے گا؟
گُل محمد اب کیا کرے گا؟

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


جن لوگوں نے بچپن سے اردو بولی، سُنی اور پڑھی، وہ خلیل خاں کی فاختہ اور گُل محمد دونوں سے واقف ہوں گے۔ خلیل خاں کا نام تو زورِ کلام کی خاطر لے لیا ہے، ورنہ متاثر تو مجھے صرف گُل محمد نے کیا جو ’زمین جنبد نہ جنبد گُل محمد‘ کی رُو سے کورونا رُت میں بھی اپنی جگہ سے نہیں ہلتا۔ مَیں تو ہر اُس شخص میں ایک چھوٹا موٹا گل محمد دریافت کرنے کی کوشش کرتا ہوں جو پبلک کے اصرار کے باوجود اپنی روش تبدیل نہ کرے۔ روش کا تعلق زندگی کے کسی بھی شعبے سے ہو سکتا ہے۔ جیسے میرے دادا نے ڈاکٹروں کے منع کرنے کے باوجود دنیا چھوڑنے سے ٹھیک دس منٹ پہلے زندگی کا آخری سگریٹ پیا۔ ہمارے استاد بشیر احمد صمصام کو شیروانی اور ٹوپی کے بغیر گھر سے باہر نکلتے کبھی کسی نے نہ دیکھا۔ خود مَیں ملازمت کے دوران پارکنگ کی سہولت کو اچھی تنخواہ پہ ترجیح دیتا رہا ہوں۔


اِسی ضد یا مستقل مزاجی کی جھلک بسا اوقات ہمارے لسانی رویوں میں بھی دکھائی دے جاتی ہے۔ ایک پرانے فیشن کے بزرگ میرے اسکول، کالج کے زمانے تک فاؤٹین پین کو انڈپنڈنٹ کے نام سے پکارتے تھے۔ لاہور کے لاکھوں شہری آج بھی قرطبہ چوک کو مزنگ چونگی، شاہراہ سلطان آغا خان سوئم کو ڈیوس روڈ اور جیلانی پارک کو ریس کورس کے طور پر ہی جانتے ہیں۔ اِس کے برعکس راولپنڈی میں ایوب پارک کو ’ٹوپی رکھ‘ اور لیاقت باغ کو کمپنی باغ کہنے والے اب ’ٹا ویں ٹاویں‘ رہ گئے ہیں۔ ہاں، جڑواں شہر اسلام آباد میں اکثر شاہراہیں، گلی کوچے اور محلے چونکہ ناپ تول کے اعشاری نظام کے مطابق حروفِ تہجی اور اعداد سے موسوم ہیں، اس یے یہ خدشہ سرے سے نہیں کہ نام بدل دینے سے عوامی تخیل پہ ضرب لگے گی یا لوگوں کے جذبات مجروح ہو ں گے۔


یہ مت سمجھیں کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ زبان میں آنے والی تبدیلیاں کسی عمارت، سڑک یا بستی کے نام تک محدود ہوا کرتی ہیں۔ تبدیلی کا یہ مسلسل مگر نا محسوس عمل اِس سے کہیں زیادہ ہمہ گیر ہے۔ یہ اندازہ اکہتر بہتر برس پہلے کا وہ اردو روزنامہ دیکھ کر لگایا جا سکتا ہے جس میں ’قائد اعظم محمد علی جناح رحلت فرما گئے‘ کی شہ سرخی شائع ہوئی تھی۔ پھر ایک ذیلی خبر جس میں تعزیتی قرار داد کے بجائے ’ریزولیوشن‘ اور مسلم لیگ کے صدر کے لئے ’پریذیڈنٹ‘ کی اصطلاح استعمال ہوئی۔ ’رحلت فرمانا‘ اردو روزمرہ کا حصہ ہے تو سہی، مگر ہمارے دیکھتے دیکھتے یہ پیرایہ ء اظہار روحانی شخصیات سے مخصوص ہو کر رہ گیا ہے۔ وگرنہ ہر خاص و عام آج کل ’انتقال کرتا‘ ہے یا سرکاری ڈیوٹی پہ ہو تو شہید ہوتا ہے۔ اسی طرح اِن خبروں میں قائد کے لئے ’وہ‘ کی بجائے تعظیماً ’آپ‘ کا لفظ بھی ہے، جو اب قریب قریب متروک ہو چکا ہے۔


اردو جملوں کی ساخت پہ غور کریں تو ہمارے اکثر ڈھانچے ہندی یا دیگر مقامی زبانوں کے مشابہہ دکھائی دیں گے۔ یہی معاملہ چلنا پھرنا، اٹھنا بیٹھنا، کھانا پینا اور جینا مرنا جیسے سادہ افعال کا ہے۔ اسی سبب آزادی سے پہلے کی فلمی کہانیاں، مکالمے اور گیت بلا لحاظ مذہب، شمالی ہندوستان میں سب کی سمجھ میں آجایا کرتے۔ موجودہ صدی سے بارہ سال پہلے لندن میں بی بی سی ہندی سروس کے عمر رسیدہ سا تھیوں سے تعارف ہوا تو اُن سے گفتگو میں ایک مزا تھا۔ مزا کیوں نہ ہوتا جب ہمارے احباب میں تقابلی لسانیات کے ماہر ڈاکٹر گوتم سچدیو، عظیم آرٹسٹ بلراج ساہنی کے جانشین کیلاش بدھوار، دیوان سنگھ مفتون کی ’ناقابل فراموش‘ والے ڈاکٹر متھرا داس کے صاحب زادے شوتو پاوا اور اونکار ناتھ سری وستاو جیسے براڈکاسٹر بھی تھے جنکی اردو نواز ی نے انہیں فراق گورکھپوری کا پاکٹ ایڈیشن بنا دیا تھا۔


بے تکلفی کے اِس ماحول میں گڑ بڑ اُس وقت ہوتی جب ہندی سروس کے یہ سینئر رکن پہلے تو قبل از تقسیم کی ملی جلی زبان کی تعریف کرتے اور پھر کبھی کبھار ہماری نشریات کو جناتی زبان کہہ کر نئی اردو کاا مذاق اڑانے لگتے۔ اِس پر ہماری جوابی کارروائی بھی زوردار ہوا کرتی۔ مجھے یاد ہے کہ اردو سیکشن کے سید یاور عباس نے ہندی پروگراموں میں حصہ لینے والے میرے دوست شفیع نقی جامعی کو دونوں اطراف کے اہل ِ زبان کی بھری محفل میں یہ فی البدیہہ شعر سنا کر تمسخر کا نشانہ بنایا تھا کہ:
شفیع، چھوڑ دو انداز ہندی والوں کے
اٹھو گے حشر میں ورنہ ’تتا تتا‘ کرتے
دراصل پاکستان کے وجود میں آنے سے جہاں جداگانہ قومیت کی بدولت ہماری لسانی پہچان کی خواہش میں تیزی آئی، وہیں اعلی سطح پر اردو کو ذریعہء تعلیم بنانے کی گنجائش سے فلسفہ، تاریخ، صحافت، سیاسیات، اقتصادی اور سماجی علوم کی اصطلاحات میں بھی ایک انقلاب برپا ہوا۔ یہ الگ بات کہ اس کے پھیلاؤ کا سطحیت کے بہاؤ میں بہنے والے ہمارے انگریزی خواں دوستوں کو پورا اندازہ نہیں۔ آپ اس نصابی مواد کو جناتی زبان کہہ لیں یا کوئی اور لیبل لگا دیں، لیکن اِس میں کوئی شک نہیں کہ مغربی تصورات کے نظری اور تخئیلی مترادفات تلاش کرنے کے لئے ہم نے شوق سے ایران اور دنیائے عرب ہی کا رخ کیا۔ روز مرہ کی بولی ٹھولی کو، جس کا سب سے بڑا دشمن مشتاق یوسفی کے بقول، غزل کا اسلوب رہا، ’لینگویج آف آئیدیاز‘ میں بدلنے کے لئے شاید ہمارے پاس یہی ایک فطری راستہ تھا۔


کیا اس طویل عمل میں ہم نے انگریزی سے تعصب برتتے ہوئے اِس کے خلاف بند باندھنے کی کوشش کی؟ پیشہ ور ترجمہ نگاروں کو معیار بنائیں تو ممکن ہے سوال کا جواب ’ہاں‘ میں ملے۔ اِس کے برعکس عمومی رویہ دیکھیں تو کم پڑھے لکھے لوگوں سے لے کر بالادست ایلیٹ تک ہماری ’کوڈ سوئچنگ‘ یا اپنی زبانوں میں انگریزی ٹوٹے لگانے کی عادت نے بھی جن لطائف کو جنم دیا وہ اپنی مثال آپ ہیں۔ ابتدا تو اُسی دن ہوگئی تھی جب اردو میں دلچسپی رکھنے والے ایک انگریز افسر نے نیم ہندوستانی لہجے میں ’کھولٹا پانی‘ اور ’ابلٹا پانی‘ کا فرق پوچھا اور مقامی اردلی نے اُسے یہ کہہ کر چپ کرادیا کہ صاحب، ہمیں یہ تو پتا نہیں، ہم تو اسے ’بوائلنگ واٹر‘ کہتے ہیں۔ اردو کے اُن الفاظ کی فہرست جن پہ ’دوہری شہریت‘ کا شبہ نہیں پڑتا، طوالت کے خوف سے حذف کر رہا ہوں، مگر ایک قصہ ایسا ہے کہ سنا نہ سکا تو چین نہیں آئے گا۔


اِس کے مر کزی کردار ہیں بی بی سی لندن، وائس آف امریکہ اور پاکستان ٹیلی ویژن کے نامور پروڈیوسر عارف وقار جنہیں اردو یا پنجابی میں بات کرتے ہوئے انگریزی کا لفظ بولنا ناگوار گزرتا ہے۔ عارف صاحب، جو نئے نئے ولایت سے واپس آئے تھے، نیشنل کالج آف آرٹس میں لیکچر دینے کے لئے اپر مال سے روانہ ہوئے اور رکشہ والے کی آسانی کی خاطر کہہ دیا کہ عجائب گھر کے پاس اتار دینا۔ منزل ِ مقصود پر پہنچ کر ڈرائیور کو کرایہ ادا کر رہے تھے کہ اُس نے ڈرتے ڈرتے کہا ”لگتا ہے آپ کہیں باہر رہ کر آئے ہیں“۔ ”کیسے پتا چلا؟‘‘ عارف وقار نے چونک کر پوچھا۔ ”اوہ ایس لئی کہ تُسیں عجائب گھر کہیا سی، ہُن ایہنوں میوزیم کہندے نیں“۔
رہی سہی کسر میرے پنجاب یونیورسٹی کے شاگردوں نے پوری کردی۔ آپ سوچیں گے کہ تدریسی منظر سے طویل غیر حاضری کے سبب نوجوانوں سے گفتگو کرنا آپ کے کالم نویس کے لئے اب ناممکن ہے۔ نہیں یہ بات نہیں، بلکہ مَیں نے تو اپنے مطالعے، مشاہدے اور تجربے کی روشنی میں نشری صحافت کے چیدہ چیدہ نکات ذہن نشین کرانے کی پوری کوشش کی۔ کسی نہ کسی.ممتاز براڈکاسٹر کی اپنی آواز میں ’زندہ‘ ساؤنڈ بائیٹ بھی پیش کرتا رہا۔ پھر عمر کے فرق کے باوجود چند ایک لطیفے بھی کامیابی سے سنا دیے۔ اہم نکتہ یہ ہے کہ اِس دوران جہاں طلبہ و طالبات نے مجھ سے کچھ نئی باتیں سیکھیں، وہاں اُن کی بدولت میری اپنی لفظیات میں بھی دلچسپ نوعیت کا اضافہ ہوا۔


مثال کے طور پر کالج یا یونیورسٹی کی تعلیم کے دوران اپنے سے اگلی جماعت والوں کو ہم بھی سینئر سمجھا کرتے تھے۔ یہ بھی سن رکھا تھا کہ فلاں صاحب عہدے کے لحاظ سے سینئر ہیں، پھر یہ کہ ہماری تقرری تو ایک ساتھ ہوئی لیکن میرٹ کی وجہ سے وہ اوپر ہو گئے یا یکساں گریڈ کے باوجود مَیں جس پوسٹنگ پہ ہوں وہ ذرا اونچی خیال کی جاتی ہے۔ یہ سب تو معلوم تھا۔ تازہ انکشاف یہ ہے اگر کوئی اسٹوڈنٹ آپ سے ایک سال آگے ہے تو وہ ہوا سینئر اور اگر دو سال آگے ہے تو وہ ہوگا سُپر سینئر۔ گویا آدمی نہ ہوا، صابن ہو گیا جس کی قیمت بڑھا کر سائز چھوٹا کردیا گیا اور شاعر کو کہنا پڑا:
اِس کو میں کھاؤں کہ اب اِس سے نہاؤں، انور
ٖفیصلہ ہو نہ سکا جسم کے تر ہونے تک
کتنا رقبہ تھا، جو اب رہ گیا ٹافی جتنا
جانے کیا گزری ہے صابن پہ سُپر ہونے تک
اسی طرح ہمارے زمانہء طالب علمی میں استاد کلاس لیتے تھے اور پڑھنے والے کلاس میں حاضر ہوتے تھے۔ اگر آج کوئی لڑکا یا لڑکی یہ کہے کہ ”سر، مَیں نے آپ کی کلاس لی ہے“ تو مطلب ہوگا کہ اُس نے بطور طالبعلم آپ کی کلاس یا آن لائن لیکچر میں شرکت کی۔ ہو سکتا ہے اِس کے پیچھے اُسی روزمرہ کو دخل ہو جس کے تحت انگریزی میں ممتحن امتحان ’دیتا‘ ہے اور امیدوار امتحان ’لیتا‘ ہے۔ بہر حال، پہلی بار جب کسی نوجوان نے میری کلاس لی تو فوری تاثر یہ ملا کہ مذکورہ نوجوان استاد مقرر ہو گیا ہے۔ اب آئندہ کے لئے وعدہ ہے کہ زندگی میں میرا عمومی رویہ جو بھی ہو، مَیں زبان کے معاملے میں اپنے اندر کے گل محمد کو ’کورونا آئسولیشن‘ کی زنجیریں پہنا کر ہی چھوڑوں گا۔

مزید :

رائے -کالم -