طالبان امن بھی جنگ سے قائم کرنا چاہتے ہیں:زلمے خلیل زاد
واشنگٹن(مانیٹرنگ ڈیسک، نیوز ایجنسیاں امریکی محکمہ دفاع پینٹاگون نے کہا ہے کہ امریکہ، طالبان کیساتھ طے شدہ معاہدے کے مطابق افغانستان میں امریکی فوج کی تعداد میں کمی کے منصوبے پر کاربند ہے۔سکریٹری دفاع کے اسسٹنٹ برائے پبلک امور جوناتھن ہوف مین نے پینٹاگون کی ایک بریفنگ میں کہا کہ امریکی فوج افغانستان میں اپنی تعد اد8ہزار600 کی سطح پر لانے کیلئے عمل پیرا ہے۔ ہوف مین نے کہا کہ اس حوالے سے پیش رفت جاری ہے۔ ہمیں توقع ہے کہ طالبان سے معاہدے کے تحت طے شدہ وقت کے اندر اس کو حاصل کرلیا جائیگا۔دوسری طرف اسی روز امریکی نمائندہ برائے مصالحت زلمے خلیل زاد نے بھی صحافیوں سے گفتگو میں تصدیق کی کہ امریکہ صورتحال کی بنیاد سے مشر و ط فوجی انخلا کے سلسلے میں معاہدے کے پہلے مرحلے پر عملدرآمد جاری رکھے ہوئے ہے۔ہمیں معاہدہ کے بعد 135دن کے اندر فوجیوں کی تعداد کو 8ہزار 600کی سطح پر لانا ہے۔ امریکی حکا م کے یہ بیانات رواں ہفتے کے شروع میں افغانستان میں کئی ہلاکت خیز حملوں کے چند دن بعد سامنے آئے ہیں، ان حملوں سے جنگ زدہ ملک میں امریکہ کی امن کی کو ششوں پر شکو ک و شبہات نے جنم لیا ہے۔خلیل زاد نے ایک کانفرنس کال میں کہا کہ وہ جلد ہی تناؤ اور تشدد میں کمی لانے اور طالبان قیدیوں کی رہائی میں تیزی لانے پر زور دینے کیلئے دوبارہ اس خطے کا دورہ کررہے ہیں۔امریکی خصوصی مندوب نے یہ بھی انکشاف کیا کہ بین الاافغان مذاکرات شروع کرنے کیلئے نئی تاریخ پر بھی بات چیت جاری ہے تاہم ا س حوالے سے ا نہو ں نے مزید تفصیلات نہیں بتائی۔ادھر افغان امور میں امریکہ کے خصوصی نمائندے نے طالبان کیساتھ کئی مرحلوں میں مذاکرات کرنے کے بعد اب اعتراف کیا ہے کہ طا لبا ن ایک جنگ پسند گروہ ہے، طالبان ملک میں جنگ بندی معاہدے کے مخالف ہیں اور امن بھی جنگ کے ذریعے قائم کرنا چاہتے ہیں۔بین الاقوامی خبر رساں ادا ر ے نے آئی آر آئی بی کی رپورٹ کے حوالے سے کہا ہے کہ افغانستان کے امور میں امریکہ کے خصوصی نمائندے زلمئے خلیل زاد نے افغانستان کے مختلف علاقوں پر طالبان کے حملو ں کی جانب اشا ر ہ کرتے ہوئے کہا کہ طالبان اس ملک میں جنگ بندی معاہدے کا مخالف ہیں اور امن بھی جنگ کے ذریعے قائم کرنا چاہتے ہیں۔دریں اثنا افغانستان کی قومی سلا متی کے ادارے نے بدھ کے روز کہا تھا کہ طالبان نے ڈھائی ماہ قبل امریکہ کے ساتھ نام نہاد امن معاہدے پر دستخط کرنے کے باوجود اب تک افغانستان کے مختلف علاقوں پر3 ہزار 712مرتبہ حملے کئے۔افغان حکام کا کہنا ہے کہ طالبان گروہ دیگر دہشت گرد گروہوں کے حملوں کیلئے حالات سازگار بنا کر ملک میں جاری جارحیت سے اپنے اپنا دامن نہیں جھاڑ سکتا، اسلئے کہ افغا نستان میں ہونیوالے اکثر حملوں میں طالبان کا ہاتھ ہے۔واضح رہے افغانستان کے مختلف علاقوں پر طالبان کے حالیہ حملوں خاص طور سے کابل کے ہسپتال پر ہونیوالے حملے میں درجنوں افراد جاں بحق ہوئے ہیں۔
پینٹاگون