ذوالفقار چیمہ بطور مزاح نگار
یقین محکم، عمل پیہم، محبت فاتح عالم کی عملی تصویر سابق آئی جی ذوالفقار احمد چیمہ کو اللہ تعالی نے بہت سی صلاحیتوں سے نوازا ہے۔ ایک دبنگ اور دیانتدا ر پولیس افسر کی حیثیت سے انہوں ایسے کئی ٹاسک پورے کیے جو شاید دوسروں کے بس کی بات نہ تھے۔ قلم اٹھایا تو اس شعبے میں بھی اپنا لوہا منوایا۔ اپنے کالموں میں حساس معاملات پر لگی لپٹی رکھے بغیر کھل کر رائے دی۔ اب ان کی مختلف تصانیف کا سلسلہ جاری ہے۔ اس سے پہلے بھی ان کی کتابیں ہاتھوں ہاتھ فروخت ہو چکی ہیں۔ ”پس پردہ“ کے عنوان سے طنز و مزاح پر شائع ہونے والی کتاب کے پچھلے تمام ریکارڈ توڑنے کے امکانات ہیں۔ اعلیٰ پائے کے نثر نگار کے طور پر ان کی شناخت بنے ایک زمانہ گزر چکا۔ اب انہوں نے ادب کی مشکل ترین صنف طنز و مزاح کے میدان میں طبع آزمائی کی ہے۔ ان کی تحریروں کو پڑھ کر پتہ چلتا ہے کہ مصنف غیر معمولی قوت مشاہدہ رکھتے ہیں۔ مزاح کی روح ہی یہی ہوتی ہے کہ آپ ان معاملات کو روانی اور آسانی کے ساتھ ضبط تحریر میں لائیں جن سے عام آدمی کو پالا پڑتا ہے۔ ان کو لطیف پیرائے میں بیان کردیں تو پڑھنے والا مسلسل مسکرانے پر مجبور ہو جاتا ہے۔“ پس پردہ“ ایسا ہی ایک شاہکار ہے۔یہ بات زبان زد عام ہے کہ کر پٹ پولیس اہلکار انہی عناصر کو معززین علاقہ قرار دیتے ہیں جو ان کے ٹاؤٹ ہوں۔
مصنف نے ایسے ہی ایک قصے کا ذکر کرتے ہوئے تحریر کیا ہے کہ ”معززین علاقہ سے اچھے مراسم رکھتا ہے، ہم طے شدہ وقت پر احمد پور پہنچے تو پنڈال سے باہر کچھ لوگ استقبالیہ قطار میں کھڑے تھے جنہیں ڈی ایس پی نے معتبرین و معززین قرار دیا اور ایس ایچ او نے ان کا تعارف کرانا شروع کر دیا۔ سب سے پہلے ایک شخص ہار لیے کھڑاتھا، وہ ہار پہنا نے کے لیے آگے بڑھا مگر میرے انکار پر اس نے وہی ہار ڈی ایس پی کے گلے میں ڈال دیا۔ایس ایچ او نے کہا ”سر یہ بٹ صاحب ہیں، ان کا سٹیل کا بزنس ہے اور علاقے میں بڑے اثر و رسوخ کے مالک ہیں۔“ بٹ صاحب نے ایک دو خوشامدانہ فقرے بولے مگر ان کی ٹاؤٹانہ گفتار ان کے مشکوک کردار کوچھپانے کی بجائے نمایاں کرتی رہی۔اس کے بعد واسکٹ اور چپل پہنے ایک مونچھ بردار شخص کھڑا تھا، جس کے بارے میں بتایا گیا کہ یہ خان صاحب ہیں،علاقے کی معزز شخصیت ہیں اور غریبوں خصوصاََ بیوگان کی فلاح و بہبود میں خصوصی دلچسپی لیتے ہیں۔ اس کے بعد جو شخص تھا اس کے سر پر دستار اور آنکھوں میں رسہ گیرانہ افتخار تھا، بتایا گیا کہ وہ چودھری صاحب ہیں۔پھر ایک شخص نظر یں جھکائے ہوئے کھڑا تھا،اس کا تعارف کرایا گیا کہ ”یہ میاں صاحب ہیں اور ان کا ٹمبر کابہت بڑا کاروبار ہے۔“اگلا شخص بوسکی کا کرتا اور گلے میں زنجیر پہنے کھڑا تھا۔
اس کے چہرے پر خاندانی وقار کی بجائے بدمعاشانہ پھٹکار نمایا ں تھی، “ پیر صاحب کوہستانی کے عنوان سے ایک مضمون میں ایسے پیروں کی اپنی حالت اور وہاں آنے والے افراد کابہت دلچسپ انداز میں ذکر کیا گیا ہے جیسے“ بوسکی کے کھڑکھڑاتے سوٹ میں ملبوس ایک رکن اسمبلی تشریف لائے۔ان سے پیر صاحب نے مسئلہ پوچھا تو پہلے ذرا شرمائے پھر بولے،”حضور جعلی ڈگری کا کیس چل رہا ہے،مدد فرمائیں۔“پیر صاحب نے پوچھا،”ڈگری کہاں سے لی تھی؟“اس پر وہ مزید جھینپ گئے پھر کہنے لگے،”ٹھہر جائیں ابھی بتاتا ہوں۔“جیب سے کاغذ نکالا اور پڑھ کریونیورسٹی کاایک ایسا نام بتایا جسے سن کر پیر صاحب بھی اور وہ خود بھی ہنس پڑے مگر پھر سنبھل کر بولے،”لیکن جناب اسے جعلی ثابت کرنے کے لیے میرے مخالف کے پاس ثبوت کوئی نہیں ہے۔“اسے بھی تعویذ عطا کیا گیا۔ایک بیورو کریٹ نے آکر بتایا کہ اس کے خلاف کرپشن کاکیس چل رہا ہے،”کیس تو جھوٹا ہی ہوگا ناں؟“پیر صاحب نے پوچھا،”جناب ایف آئی اے والے ثابت کچھ نہیں کرسکتے۔“افسر نے جواب دیا، ”یہ دو تعویذ لے جائیں ایک خود پی لیں دوسرا جج کی کرسی تلے رکھ دیں۔“پیر صاحب نے کہا،”اس کے بعد ایک اور سیاستدان آیا، جسے شکایت تھی کہ ایک ٹی وی اینکر جب اسے بلاتا ہے تو زیادہ وقت خود بولتا رہتا ہے اور سوال کی بجائے تقریر کرتا ہے۔“پیر صاحب نے تعویذ دیتے ہوئے کہا اْسے جو ”اوپر والوں“سے ہدایت ملی ہیں وہ تو اس نے پوری کرنی ہیں۔
وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کو گفتار کا غازی کہا جاتا ہے۔ ایک مقام پر ان کا ذکر کچھ یوں کیا گیا ہے“شادی کی ایک تقریب میں پی ٹی آئی کے ایک ممبر قومی اسمبلی نے کہا، ”آمگر شاہ صاحب بات کو کھینچتے بہت ہیں، دو منٹ کی بات دو گھٹنے میں مکمل کرنا ان کا پسندیدہ مشغلہ ہے۔ پھر انہوں نے قومی اسمبلی میں شاہ محمود کی ایک تازہ تقریر کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ وزیر خارجہ نے کہا۔”جناب سپیکر!اپوزیشن کے معزز ارکان نے کہا ہے کہ وزیرخارجہ بتائیں کہ کشمیری مسلمانوں کی حالت زار کے ازالے کے لیے حکومت پاکستان اور خصوصاََ وزارت خارجہ نے اب تک کیاکیا ہے اور اس کے کیا نتائج برآمد ہوئے ہیں؟جناب سپیکر:اپوزیشن کے دوستوں کو یہ معلوم ہونا چاہئے تھاکہ ہم کوئی فارغ نہیں بیٹھے ہوئے، ہم یہ وقت کو کلا چھپا کی کھیلنے یا ٹک ٹاک میں ضائع نہیں کرتے رہے۔ اپوزیشن کے معزز ارکان کویہ معلوم ہونا چاہئے تھاکہ ان کا وزیر خارجہ وقت کا صحیح اور درست مصرف کررہا ہے۔میں ان کی خدمت میں عرض کرتا ہوں کہ جب سے مودی نے آئین کے ساتھ کھلواڑ کیاہے میں بحیثیت وزیر خارجہ اس روز سے سو نہیں سکا،اب کئی شکی مزاج لوگ کہیں گے کہ شاہ محمود تو بیماری کے باعث نہیں سوسکا، اسے تو نہ سونے کا عارضہ لاحق ہے۔ جناب سپیکر!ایسے الزامات حقائق کے منافی ہیں، اگر کوئی بیماری تھی بھی تو اس کا تسلی بخش علاج ہوچکا ہے، ایلو پیتھی سے نہ سہی حکیم صاحب کی دوائی سے بیماری جاتی رہی ہے، یہ ضروری نہیں کہ آپ ہمیشہ ڈاکٹروں سے ہی علاج کرائیں۔
ویسے بھی آج کل کے ڈاکٹروں کا پسندیدہ مشغلہ مسیحائی نہیں، لڑائی ہے یا مار کٹائی ہے۔ اس لیے اگر کوئی جید حکیم مل جائے تو اس کی دوا سے بھی شفا مل سکتی ہے کیونکہ مریض کو دوا سے نہیں شفا سے غرض ہوتی ہے۔ جیسا کہ ملتان کے حکیم دلگیر کے ہاتھ میں شفا ہے جناب والا!اگر آپ کو بلکہ آپ کو نہیں اپوزیشن والوں کو ضعف جگر کی بیماری لاحق ہو یا دیرینہ قبض ہوتوحکیم دلگیر کی کھیر نسخہئ اکسیر ہے۔“ اب ہال میں اپوزیشن بنچوں سے آوازیں آنے لگیں۔ ”کھیر پر نہیں کشمیر پر بات کریں۔“ اس طرح کی مزید دلچسپ تحریریں پڑھنے کے لیے ”پس پردہ“ کا مطالعہ ضروری ہے۔ ہم اس کالم کے ذریعے مزاح نگاروں کو مبارک باد دیتے ہیں کہ ان کی صفوں میں ایک شاندار لکھاری کا اضافہ ہو گیا۔ آخر میں ایک مشورہ ہے کہ اگر ذوالفقار چیمہ کی ان مزاحیہ تحریروں پر ڈرامائی تشکیل کی جائے تو لوگوں کو گھر بیٹھے ٹی وی پر معیاری اور شائستہ طنز و مزاح پر مبنی پروگرام دیکھنے کو مل سکتے ہیں۔ موجودہ حالات میں یہ اس لیے بھی ضروری ہے کہ گھٹیا جگتوں اور تیسرے درجے کی جملہ بازی اور طنز و مزاح کے نام پر پھکڑپن مبنی ڈراموں اور پروگراموں سے لوگ تیزی سے بیزار ہورہے ہیں۔