جب سقراط نے ایک فوجی کی حیثیت سے سپارٹا اور ایتھنز کی جنگ میں حصہ لیا
مصنف : ملک اشفاق
قسط : 1
سقراط کی سوانح کے ذرائع
سقراط کی زندگی کے بڑے حصے کے متعلق ہمیں معلومات 3 راویوں کے ذریعے پہنچی ہیں۔ ان راویوں میں ایک تو سقراط کے زمانے کا مشہور ڈرامہ نگار ارسٹوفینز ہے۔ اس نے اپنی کامیڈی ”بادل“ میں سقراط کا خاکہ اڑایا ہے۔دوسرا راوی سقراط کا شاگرد افلاطون ہے۔ اس نے اپنے ”مکالماتِ سقراط“ میں سقراط کی سیرت اور اس کی تعلیمات کو اپنے خاص رنگ میں پیش کیا ہے۔تیسرا راوی ایتھنز کا سپاہی منش رئیس زادہ زینوفن ہے۔ وہ سقراط کے خاص معتقدوں میں سے تھا۔اس نے اپنے ”مذاکرات“ میں سقراط کی زندگی کے حالات اور افکار و خیالات کو جس حد تک وہ انہیں سمجھ سکا سیدھے سادے الفاظ میں بیان کر دیا ہے۔
افلاطون نے سقراط کی اصل تصویر کو تخیل اور عقیدت کی رنگ آمیزی کے ساتھ پیش کیا ہے۔زینوفن کا بیان واقعات کی صحت کے اعتبار سے زیادہ قابل بھروسا ہے لیکن زینوفن سقراط کی شخصیت اور تعلیم کے حوالے سے سطحی قسم کی سادہ گفتگو کرتا ہے۔اس کے علاوہ تحقیق و تفتیش سے سینکڑوں لوگوں نے سقراط کی زندگی اور فکر پر بہت کچھ لکھا ہے۔اس کے فکر کے مثبت پہلوﺅں پر عرب محققین نے بہت سی شرحیں بھی لکھیں ہیں۔
سقراط کی ابتدائی زندگی
یونان کا عظم الشان فلسفی اور اخلاقیات کا مبلغ سقراط 469 قبل مسیح میں ایتھنز میں پیدا ہوا۔ اس کا والد سوفرونسکس (Sopheroniscus) انتہائی تخلیقی ذہن کا مالک، مجسمہ ساز اور سنگ تراش تھا۔سقراط نے ابتدائی تعلیم کے بعد اپنے باپ کی پیروی کرتے ہوئے سنگ تراشی کا ہی پیشہ اپنایا لیکن وہ اپنے طبعی رحجان کی وجہ سے اس پیشے کو زیادہ دیر نہ اپنا سکا۔ اس کی والدہ کا نام فیناریٹی (Phaenarete)تھا۔ اس کی والدہ بہت ہی سمجھ دار اور بااخلاق خاتون تھی۔وہ اگرچہ پیشے کے لحاظ سے دایہ تھی لیکن اس نے اپنے بیٹے سقراط کو اخلاقی اقدار سے آراستہ کر کے اس کی تربیت بہت ہی پاکیزہ ماحول میں کی اور اسے سچ کی خوبیوں سے آشنا کیا۔سقراط کا خاندان ہنرمند اور فنکاروں کا خاندان تھا۔ اس لیے اس خاندان کی ایتھنز میں بہت عزت و توقیر تھی۔
ایتھنز میں شہریوں کو ہر قسم کی تعلیم مادری زبان میں ہی دی جاتی تھی۔ بنیادی تعلیم میں یونانی قدیم شعراءکے کلام کو نصاب تعلیم کا حصہ بنادیا گیا تھا۔ اس کے علاوہ ریاضی، جیومیٹری اور فلکیات کی بھی تعلیم دی جاتی تھی۔ اس کے علاوہ موسیقی اور جسمانی ورزشیں تعلیم کے لازمی مضامین تھے۔قیاس کیا جاتا ہے کہ سقراط نے اس مروجہ نصاب کو ضرور پڑھا ہو گا۔ ایتھنز کے قانون کے مطابق ہر شہری کو فوجی تربیت حاصل کرنا لازمی تھا۔ اس طرح سقراط نے بھی ایک فوجی کی حیثیت سے سپارٹا اور ایتھنز کی جنگ میں حصہ لیا۔ اس جنگ میں سقراط نے بہادری کے بہت سے کارنامے دکھائے تھے لیکن 40 سال کی عمر کے بعد سقراط کی شخصیت میں نمایاں تبدیلی پیدا ہوئی اور سقراط نے غورفکر، تدبر اور بصیرت سے اپنے فلسفیانہ افکار کا پرچار کرنا شروع کیا اور وہ ایک فلسفی کے طور پر مقبول ہو گیا۔ اس کا سوال جواب کا خاص انداز سچائی تک پہنچنے میں بہت مددگار تھا۔(جاری ہے )
نوٹ : یہ کتاب ” بُک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں )۔