سری لنکا پلس تو نہیں ہو رہا؟؟
سمجھ نہیں آ رہی کہ اس خوف کی تحریری تصویر کب بناؤں جس نے ہمیں غیر محسوس طریقے سے چاروں طرف سے گھیر لیا ہے۔ آج ہم ایک بظاہر آزاد قوم آزاد وطن کے باسی کی حیثیت سے زندہ ہیں، سلامت ہیں، مگر کب تک؟ خوف سے بھرا یہی وہ سوال ہے جو اندر سے لرزا رہا ہے۔ بظاہر ہمارے حالات اسی طرف لے جا رہے ہیں جس طرف ہمارے خطے کا نسبتاً چھوٹا ملک سری لنکا چلا گیا ہے۔ سری لنکا چاروں طرف سے سمندر میں گھرا چھوٹا سا ملک ہے جس کا رقبہ محض 25 ہزار مربع میل ہے اور آبادی دو کروڑ 21 لاکھ کے قریب ہے بدھ مت کے ماننے والے 70 فیصد سے زائد ہیں۔ ہندو 12.6 فیصد اور مسلان تقریباً دس فیصد ہیں جبکہ عیسائی آبادی ساڑھے سات فیصد ہے۔ سیاحت کے لئے پسندیدہ کہلانے والا یہ ننھا سا ملک خوشحال دکھائی دیتا تھا مگر بیرونی قرضوں نے آہستہ آہستہ جکڑ لیا۔ اندرونی سیاسی اور فرقہ وارانہ جتھے بندی اور مارا ماری نے اس کی معیشت کو کھوکھلا کر دیا۔ کہا جاتا ہے کہ دیوالیہ ہونے کے آخری مرحلے کو مکمل ہونے میں چند ہفتے لگے۔ یہ ملک اتنا چھوٹا ہے کہ مزید ٹوٹ کر جغرافیائی طور پر شائد مزید چھوٹا نہیں کیا جا سکتا۔ اگر ایسا ہو سکتا تو شمالی علاقہ (جافنا وغیرہ) کو بھارت ہڑپ کر چکا ہوتا۔ بھارتی صوبے تامل ناڈو کی زبان اور ثقافت اس علاقے سے ملتی جلتی ہے جن دنوں جافنا میں بغاوت اور خانہ جنگی چل رہی تھی ان دنوں تامل ناڈو ہی فسادیوں کا بیس کیمپ بنا ہوا تھا۔ پاک فوج کی مدد سے اس بغاوت کو نہ کچلا جاتا تو بھارتی عزائم پورے بھی ہو سکتے تھے۔ سری لنکا خانہ جنگی سے تو نکل آیا مگر اس کی معیشت قرضوں کے بوجھ سے نہ نکل سکی۔ سیاسی استحکام نہ آ سکا۔ یہی کیفیت ہماری ہے قرضوں کا بوجھ بھی ہے اور سیاسی عدم استحکام بھی۔ کہتے ہیں کہ مہاتما بدھ کا پسندیدہ ملک سری لنکا محض 49 دنوں میں مکمل دیوالیہ ہوا۔ فروری سے پہلے عالمی مالیاتی اداروں اور ماہرین کو تو شائد اندازہ ہو مگر عام آدمی کے گمان میں یہ صورتحال نہیں تھی سری لنکا (پرانا نام سیلون) کو تو معاشرتی افراتفری اور سیاسی عدم استحکام کا ہی سامنا تھا ہمیں تو دہشت گردی نے بھی گھیر رکھا ہے۔
اس کی تازہ لہر نے ہم وطنوں کا خون تو بہایا ہی تھا، چینی مہمانوں کو بھی نہ بخشا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ ملک میں چینی حکومت کے تعاون سے چینی زبان سکھانے کے جو ادارے کنفیوشس انسٹیٹیوٹ کے نام سے قائم تھے ان کے تمام چینی اساتذہ واپس وطن (چین) چلے گئے ہیں۔ ان اداروں میں باقاعدہ کلاسز جاری رکھنا مشکل ہو گیا ہے۔ اس کے پاکستانی ڈائریکٹر نے بتایا ہے کہ اب پاکستانی اساتذہ طلبہ کو آن لائن پڑھایا کریں گے۔ اسی لہر میں بم دھماکوں کی زد میں عسکری جوان اور افسر بھی آ رہے ہیں۔ پشاور میں نا معلوم افراد کی فائرنگ سے دو سکھ قتل ہو گئے ہیں۔ میران شاہ میں خود کش حملے سے 3 فوجی جوانوں کے ساتھ تین بچے بھی شہید ہو گئے ہیں۔ ملک میں دہشت گردی اور خودکش دھماکوں کی تاریخ خاصی طویل ہے اس کی تفصیل میں جائے بغیر تازہ ترین صورتحال پر غور کرنے کی ضرورت ہے مگر اس غور و خو ض کا وقت کس کے پاس ہے؟ ہمارے اکابرین تو سیاست سیاست کھیل رہے ہیں۔ جلسے پہ جلسہ الزامات پر الزامات، بہتانوں پر بہتان۔ اللہ اللہ خیر سلا۔ عوامی کی سمجھ بھی نہیں آ رہی اتنی ”ویلی“ ہے کہ ہر کسی کا جلسہ بھرپور ہو رہا ہے۔ کپتان جہاں جاتا ہے عوام کا جم غفیر ہوتا ہے۔ مریم اور حمزہ بھی بڑے بڑے جلسے کر رہے ہیں۔ گجرات کے جلسے نے تو اچھے اچھوں کو حیران کر دیا۔ عوام ادھر بھی ہیں اور ادھر بھی۔ ایسے شواہد تو نہیں ہیں کہ عوام کو ہانک کر گاڑیوں میں بھر کر لیجایا جاتا ہو۔ دوسرے علاقوں سے عوام کی درآمد کے شواہد بھی نہیں ملتے۔ ایسا بھی نظر نہیں آتا کہ خان کے ماننے والوں کا ایک ہجوم ہے جسے وہ ساتھ ساتھ لئے پھرتا ہو۔ آج اس شہر کل اس شہر۔ لگتا ہے کہ ہر شہر کا اپنا ہجوم ہوتا ہے جو جلسہ گاہ پہنچ جاتا ہے۔ بسوں میں بھر بھر کر لانے کا رواج ختم ہوتا دکھائی دیتا ہے۔ پھر بھی جلسوں کا انتظام جس پیمانے پر کیا جاتا ہے ایک ایک جلسے پر لاکھوں، کروڑوں کا خرچ آتا ہوگا۔ یہ خرچ تقریباً ہر روز کیا جا رہا ہے۔ ایک مہنگا شغل ہے جو تسلسل سے جاری ہے۔
اس میں ملکی معیشت اور عوامی فلاح و بہبود کہیں بہت پیچھے رہ گئی ہیں۔ ایک خطرہ ہے جو بڑھتا جا رہا ہے۔ سری لنکا کا مسئلہ تو محض اقتصادی اور مالی طور پر دیوالیہ ہو گیا۔ اس کا جغرافیائی مسئلہ نہیں ہے۔ اس کی سلامتی کو اس طرح خطرات درپیش نہیں جس طرح ہمیں درپیش ہو سکتے ہیں جب بھی حالات دگرگوں ہوتے ہیں سوشل میڈیا پر مولانا ابوالکلام آزاد کی پیش گوئیاں چلنے لگتی ہیں کہ پہلے مشرقی پاکستان الگ ہوگا (جو ہو گیا) پھر مغربی پاکستان کے ٹکڑے ٹکڑے ہوں گے۔ اس کے لئے کوششیں کی جا رہی ہیں۔ ستم بالائے ستم یہ ہے کہ جو ملک کو اکٹھا دیکھنے کے دعوے کرتے نہیں تھکتے وہ بھی صرف الیکشن کی تیاری کر رہے ہیں۔ جلسے کر رہے ہیں تقریریں کر رہے ہیں اور حکومت؟ حکومت کے کیا کہنے ”لاکھ کہیں کہ ہے، پر نہیں ہے“ والا قصہ ہے۔ حکومت کی حالیہ تبدیلی بھی عجیب ہوئی ہے۔ پہلی حکومت رہی نہیں اور دوسری حکومت ابھی تک پوری طرح بن نہیں پا رہی اور عوام؟ عوام تو ”ٹک ٹک دیدم۔ دم نہ کشیدم“ کی تصویر بنے منتظر فردا ہیں سب اسی جمع تفریق میں الجھے ہیں کہ اگر فلاں ملک سے مدد مل جائے تو بچ جائیں گے اگر فلاں مالیاتی ادارے کا قرضہ منظور ہو جائے تو زندگی کچھ بڑھ جائے گی۔ ورنہ کھڈا میرے پیچھے ہے اور کھائی میرے آگے والا منظر ہے۔ سلامتی کہیں دکھائی نہیں دے رہی۔ اس بحرانی کیفیت میں تو سیاست دوسری تیسری ترجیح ہونی چاہئے۔ پہلی ملکی سلامتی۔ دوسری ملکی استحکام ہونی چاہئے۔ اب ہم تو یہ بھی نہیں کہہ سکتے کہ ایمپائر انگلی کھڑی کر کے سیاستدانوں کو ہی آؤٹ کر دے یا سیٹی بجا کر وقفہ کر دے کہ اس دوران کچھ خوراک شوراک سے توانائی بحال ہو جائے تھوڑا استحکام آ جائے پھر دوسرے کوارٹر کا کھیل شروع کر لیں۔ مگر سچ جانیئے تو مہنگائی سے تنگ آئے عوام کا اچھا خاصا حصہ اسی طرح سوچتا ہے کہ نعرے، تقریریں، دشنام طرازیاں، بہتان بازیاں روک کر خوشحالی، سکون اور چین کا راستہ ہموار کرنے پر توجہ دی جائے ورنہ خدانخواستہ یہاں سری لنکا پلس (Pluss) بھی ہو سکتا ہے۔ خدانخواستہ۔ اللہ نہ کرے۔ اللہ نہ کرے۔