کیا عمران خان کی زندگی خطرے میں ہے؟

  کیا عمران خان کی زندگی خطرے میں ہے؟
  کیا عمران خان کی زندگی خطرے میں ہے؟

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


 سیالکوٹ کے احتجاجی جلسے میں چیئرمین عمران خان نے وہی بات کہی جس کا حوالہ میں اور میرے علاوہ بہت سے دوسرے لکھاری ایک عرصے سے دیتے چلے آئے ہیں۔ اب ان کے قریبی ساتھیوں نے ان کو یاد دلایا  ہے تو اچھا کیا ہے۔ وہ خود کئی بار کہہ چکے ہیں کہ اگر مجھے اقتدار سے باہر کیا گیا تو میں زیادہ ’خطرناک‘ہو جاؤں گا۔ اسی ’خطرناکی‘ کا توڑ کرنے کے لئے ان کے مخالفین نے بند کمروں میں بیٹھ کر جو سازش کی ہو گی وہ کوئی ایسی انوکھی یا ناقابلِ یقین بات نہیں۔ پاکستان میں ایسا کئی بار ہو چکا ہے لیکن اس بار اگر ایسا ہوا تو ملک کے حالات مزید دگرگوں ہو جائیں گے۔ ہمارا ملک ایک طویل عرصے سے انسرجنسی کا شکار ہے اور اس بارے میں دو رائیں نہیں ہو سکتیں کہ اس شورش (انسرجنسی) کی پشت پر کون کون سی اندرونی اور بیرونی طاقتیں ہیں۔
اندرونی طاقتیں وہ ہیں جو پاکستان کو اپنی خاندانی جاگیر سمجھتی ہیں۔ ہم چونکہ صد ہا سال سے غلامی کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے ہیں اس لئے حضرت اقبال کی اردو اور فارسی شاعری میں آزادی کی برکات اور غلامی کی ذلتوں کا جو تذکرہ کیا گیا ہے وہ اقبال کے دور کی مسلم اشرافیہ کو تو شائد سمجھ آ گیا ہوگا لیکن عوام کی اکثریت کو یہ فلسفہ بہت اجنبی لگتا ہے۔ ہم غلام ابنِ غلام ابنِ غلام ہیں اور ”شوقِ غلامی“ ہماری رگ و پے میں سرائت کر چکا ہے۔ ایک اور شاعر نے اسی طرف یہ کہہ کر اشارہ کیا تھا:
رکھنے لگا مرجھائے ہوئے پھول قفس میں 
شاید کہ اسیروں کو گوارا ہو اسیری


گزشتہ پون صدی سے پاکستان پر دو خاندان حکومت کرتے آ رہے تھے۔ ایک ’عسکری خاندان‘ تھا اور دوسرا خود ساختہ شخصی خاندان۔ عسکری خاندان کا پہلا تاجدار فیلڈ مارشل تھا جس کے والد برطانوی فوج میں ایک JCO تھے۔ ایک صوبیدار صاحب کے گھر میں پرورش پانے والا بچہ خال خال ہی آزادی اور غلامی کے ادق امتیاز کا ادراک کر سکتا ہے۔ رسالدار تو ایک عہدہ ہے، میں اس کی بات نہیں کر رہا۔ ہمارے درجنوں جرنیل فوج کے نچلے عہدیداروں کی اولاد ہیں۔ اس میں کوئی برائی والی بات نہیں بلکہ یہ ایک اچھی بات ہے لیکن دیکھنا یہ ہے کہ جب اگست 1947ء سے ماقبل پاکستان میں آزادی کی تحریک چلی تھی تو اس میں ایوب خان کے خاندان نے کس کا ساتھ دیا تھا؟ 
 ایوب خان کی فکر جوں جوں جوان ہوتی گئی انہوں نے پاکستان کو آزارِ غلامی سے نکالنے کی کوشش کی لیکن پاکستانی جمہور کا ادراکِ آزادی ابھی اس قابل نہ تھا کہ وہ اس ایوبی انقلابِ فکر کا احساس کرتا۔ چنانچہ ایوب خان کی ناکامی نے پاکستان کی جمہوری غلامی کو قبول کرنے کا موقع دے دیا…… ذوالفقار علی بھٹو کے بعد اب تک جو کچھ اس ’جمہوری غلامی‘ کے صدقے میں ہمارے نصیب میں آیا اس کو ہم سب جانتے ہیں۔


پاکستان کا ایک اور فوجی آمر ضیاء الحق تھا۔ ان کا حسب نسب بھی ہم سب کو معلوم ہے۔ لیکن انہوں نے بھی بہت جلد پاکستانی جمہور کی غلامانہ ذہنیت کو بھانپ لیا، مذہب کا کارڈ استعمال کیا اور ایک غیر فطری موت کا شکار ہوئے۔ ان کے بعد پرویز مشرف چوتھے فوجی آمر تھے۔ (دوسرے فوجی آمر یحییٰ خان کا ذکر بعد میں) وہ بھی ایک بیورو کریٹ کے بیٹے تھے۔ ان کا عسکری کیرئیر شاندار تھا لیکن کسی بھی پاک بھارت جنگ میں انہوں نے کوئی ایسا تمغہ حاصل نہ کیا جو ان کی ذاتی دلیری اور جنگ جویانہ جرائت کا ثبوت بنتا۔
ان چاروں فوجی آمروں میں ایک بات مشترک تھی۔ ان کو معزول کئے جانے یا ان کی موت کے بعد ان کا جانشین ان کے خاندان کا کوئی دوسرا فرد نہ بن سکا۔ ایوب خان، یحییٰ خان، ضیاء الحق اور پرویز مشرف کے بعد پاکستان کی حاکمیت غیر عسکری افراد کے ہاتھ آئی جن کو سیاستدان کہا جاتا ہے۔ یہ سیاستدان جب پاکستانی سنگھاسن پر بیٹھے تو انہوں نے اپنی ”آل اولاد“ کو اپنا جانشین مقرر کیا۔ بادشاہت میں تو یہ وتیرہ تھا کہ جب باپ مرتا تو بیٹا / بیٹی عنانِ اقتدار سنبھال لیتی تھی، اس کا باقاعدہ اعلان کیا جاتا تھا اور مساجد میں ان کے نام کا خطبہ پڑھا جاتا تھا۔ لیکن جب طرزِ حکمرانی نے جمہوریت کا لبادہ اوڑھا تو مساجد میں خطبات پڑھنے کی بجائے پارلیمان کا ادارہ استعمال کیا گیا۔…… پارلیمنٹ چونکہ عوام کی نمائندگی کرتی ہے اس لئے عوام نے اپنی دیرینہ خوئے غلامی کا ثبوت دیتے ہوئے اپنے جمہوری حکمران کی جگہ اس کی  آل اولاد کو ”تختِ نشین“ کرنا بہتر گردانا…… یہ سلسلہ بڑی ’خوش اسلوبی‘ سے چل رہا  تھا۔ دو خاندان باری باری اسی ”آل اولاد‘ فارمولے پر عمل پیرا تھے کہ عمران خان نے اچانک کہیں سے نمودار ہو کر ساکن جھیل میں پتھر پھینک دیا۔ اب اس جھیل کی لہریں رُکنے کا نام نہیں لیتیں۔ ان کا محیط اور ان کی موٹائی کا حجم کم ہونے لگتا ہے تو جھیل کی مخلوق میں ہاہا کار مچ جاتی ہے۔


عسکری آمروں اور شخصی تاجداروں کے بعد پاکستان کی تاریخ میں عمران خان وہ واحد لیڈر ہے جس کی کوئی آل اولاد اپنے والد کی جگہ سنبھالنے کو تیار نہیں۔ اب انہوں نے یہ اعلان کیا ہے کہ اگر میں ہلاک کر دیا جاؤں تو اپنے ہلاک کنندگان / قاتلوں کا نام اور ان کا مقام ایک آڈیو میں محفوظ کر رہا ہوں۔ فیصل آباد کے جلسے میں انہوں نے حاضرین سے مخاطب ہو کر کہا کہ آپ اُن قاتلوں سے انتقام لیں …… بندہ پوچھے کہ ایک عام آدمی یا عوامی اژدھام کس طرح انتقام لے سکتا ہے؟…… ان کے قتل کے بعد ملک میں توڑ پھوڑ ضرور ہو گی۔ بے نظیر کے قتل کے بعد بھی یہی کچھ ہوا تھا، لیکن دوچار ہفتوں کے بعد ”سکون“ آ گیا تھا اور لوگ اپنے معمولاتِ زندگی پر واپس چلے گئے تھے…… عمران خان کو موت سے ”ڈرنا“ چاہیے۔(میں بے وقت موت کی بات کر رہا ہوں)…… ان کا مشن ان کی ذات کے گردا گرد گھومتا ہے۔ وہ جس انقلاب کی بات کرتے ہیں جب تک وہ آ نہیں جاتا، خان صاحب کو زندہ رہنا ہوگا!


مسلمان کا ایمان ہے کہ زندگی اور موت کا ایک وقت، ایک لمحہ مقرر ہے۔ لیکن کسی بھی جاندار کو اس لمحے، اس وقت کی خبر نہیں، اس لئے: ”ذوقِ حفظِ زندگی ہر چیز کی فطرت میں ہے“۔…… مرتے دم تک اپنے ایک ایک سانس کی حفاظت بھی ہمارے ایمان کا حصہ ہے۔ علاوہ ازیں خان صاحب کو ایک اور وڈیو بنا کر بھی محفوظ کر دینی چاہیے جس میں یہ درج ہو کہ ان کی موت کے بعد ان کے جانشین کا انتخاب کیسے کیا جائے گا؟۔
دوسرے اپنی جان کی حفاظت کے لئے ان کو اپنا ایک ”حفاظتی دستہ“ تشکیل دینا چاہیے۔ آج عمران خان یا کسی بھی عوامی نمائندے کو قتل کرنا ایک آسان ترین ایکسرسائز بن چکی ہے۔ دنیا بھر کی تواریخ ایسے واقعات سے بھری پڑی ہیں …… کس کس کا نام لیا جائے…… جب امریکی صدر کینیڈی کو بھی اس ناگہانی موت سے مفر نہیں تو پھر ہُما شُما کا تو ذکر ہی کیا۔ ہمارے اپنے برصغیر میں ایسے ناگہانی قتلوں کی درجن بھر سے زیادہ مثالیں موجود ہیں۔ خان صاحب کے جو جانثار اپنے سینے پر ہاتھ مار کر کہتے ہیں کہ وہ خان صاحب پر چلنے والی گولی اپنے سینے پر روکیں گے تو یہ جذبہ جس قدر قابلِ تحسین ہے اسی قدر ناقابلِ عمل بھی ہے!…… یہ محض بڑھک ہے……


پبلک جلسوں کا انتظام و انصرام کرنے والوں کو وی وی آئی پی کی سیکیورٹی کے لئے ایک فول پروف SOP بنانا چاہیئیں۔ اس حفاظتی دستے کی تعداد، اس کی تنظیم، اس کے اخراجات، اس کی ٹریننگ اور اس کی ریہرسل وغیرہ کا بندوسبت بھی اس SOPکا حصہ ہونا چاہیے۔ یہ صرف خان صاحب کی ذات کے لئے نہ ہو بلکہ دوسرے VVIPیا VIPمقررین اور شرکائے جلسہ کے لئے بھی ہو۔ سیالکوٹ والے جلسے میں کہا گیا تھا کہ واک تھرو گیٹس کی چیکنگ کا کوئی خاطر خواہ بندوبست نہیں تھا۔ حکومتِ وقت کو اس پر بھی توجہ دینی چاہیے۔ اگر کسی جلسے میں کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش آ جائے تو اس کا ردعمل اس واقعے / سانحے سے بھی زیادہ خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔ ہمیں اندرونی اور بیرونی سازشوں سے خبردار رہنا چاہیے۔ جس تواتر اور تسلسل سے عمران خان امریکہ کا نام لے لے کر ”لیٹرگیٹ“ واقعے کو نمودہ (Exposed) کر رہے ہیں وہ ”ہاتھی کی آنکھ“ سے پوشیدہ نہیں رہ سکتا…… اس کا بھی کوئی اُپائے کیجئے!

مزید :

رائے -کالم -