پوتے کی خبردو یا 5 کروڑ روپے ....بھارتی عدالت میں انوکھا مقدمہ
خالد نجیب خان
بچپن میں والدہ محترمہ نے معبود ایک ہونے کے بارے میں جو دلیل دی اُس کا توڑ تاحال کوئی نہیں دے سکا۔اُنہوں نے کہا کہ اگر معبود دو ہوتے تو یقینا دونوں ہی اپنی مرضی کرتے۔ ایک کہتا کہ سورج مشرق سے نکلے گا،دوسرا کہتا،ہر گز نہیں۔۔۔ سورج تو مغرب سے یا پھرشمال یا جنوب سے نکلے گا ۔ اِسی ایک بات پر جھگڑا ہوجاتا اور نتیجتاً سورج کبھی مشرق سے اور کبھی مغرب سے اور کبھی شمال یا جنوب سے نکلتا۔اِسی طرح غروب آفتاب پر بھی نزاع ہوتا۔اٗسی طرح موسموں کی ترتیب پر بھی جھگڑے ہوتے۔ مگر ایسا چونکہ نہیں ہوتااِس لیے یہ واضح دلیل ہے کہ دنیا کا نظام چلانے والی ہستی ایک ہی ہے، وہی ہمارا معبود ہے جسکو ہم اللہ تعالٰی یا اللہ میاں یا اللہ جی یا رب تعالٰی کہتے ہیں۔
والدہ محترمہ نے یہ بھی بتایا کہ اللہ کی صفات تواتنی ہیں کہ ہم تو اتنے قابل بھی نہیں ہیں کہ اُن صفات کوبیان کرسکیں لیکن اگر کوئی کرنے لگے تو دنیا جہان کی قلمیں ختم ہوجائیں گی سارے دریاؤں کی اگر سیاہی بنا دی جائے تو وہ ساری سیاہی ختم ہو جائے مگر اللہ کی صفات مکمل طور پر بیان نہیں ہوسکیں گی۔یہ باتیں اُنہوں نے ہمیں اُس وقت بتائیں تھیں جب ہم خود ذاتی طور پر تختی لکھنے کے لئے قلم دوات کا استعمال کیا کرتے تھے اور کلاس میں دوسرے بچوں کی دوات زیادہ اچھی لگنے پر ویسی ہی دوات کے حصول کی عرضی ڈالتے تو جواب ملتا جب یہ دوات ختم ہوجائے تو پھر ویسی ہی لے لینا۔مگر وہ دوات کبھی ختم ہی نہ ہوتی اور ہمیں نئی دوات حاصل کرنے کے لئے اُسے گم کرنا پڑتا۔اِس سے یہ احساس ہو گیاکہ ہمارا اللہ بے انتہا طاقتور اور بےشمار صفات کا حامل ہے۔بعد میں جب قرآن پاک کو سمجھنے کا موقع ملا تو یہ باتیں قرآن میں لکھی پائیں تو یہ سوال ذہن میں پیدا ہوا کہ آخر لوگ اللہ کو چھوڑ کر کسی اور کو کیوں پوجتے ہیں؟
پاکستان میں رہنے والے لوگ بےشک بہت خوش قسمت ہیں کہ ہمارا غیر مسلموں خصوصاً انتہا پسندہندوؤں کے ساتھ رابطہ نہ ہونے کے برابر ہے۔جبکہ ہماری پہلی نسلیں جن کا اُن سے رابطہ رہا ہےاُن کی ذہنی اذیت کا اندازہ ہمیں ہندوستان سے آنے والی خبروں سے ہوتا رہتا ہے۔
گزشتہ دنوں جب دنیا بھر میں کورونا وبا کا راج تھا تو ہندوستان سے خبر آئی کہ ریاست یوپی کے گاؤں شکلا پور میں کورونا دیوی نے جنم لیا ہے اور اُس کا مندر بھی بنا دیا گیا ہے۔ ایک سڑک کنارے بغیر کسی چھت کے رکھی مورتی کو مندر کا نام ملا تو کورونا وبا سے محفوظ رہنے کےلئے دور دراز سے زائرین آنے لگے اور لاک ڈاؤن کی پابندیاں خاک میں ملنے لگیں تو انتظامیہ کو ہوش آیا اور کورونا دیوی گرفتار ہوکر سرکار کی تحویل میں چلی گئی۔لاک ڈاؤن ختم ہونے اورکورونا وبا کی شدت کم ہونے کے بعد کورونا دیوی کی کوئی خبر ہم تک نہیں پہنچی مگر ایک اور خبر نے ہمیں حیران و پریشان کر دیا ہے۔اِس خبر کی تفصیل کچھ یوں ہے کہ " ایک عمر رسیدہ جوڑے نے اپنے بیٹے اور بہو کے خلاف اپنی نوعیت کے انوکھے مقدمے میں عدالت سے رجوع کیا ہے۔اُن کا مطالبہ ہے کہ اُن کا بیٹا ایک سال میں اگر اُنہیں پوتے یا پوتی کی نوید نہیں سناتا تو وہ 5 کروڑ روپے جرمانہ ادا کرے۔ سنجیو اور اُن کی اہلیہ سدھانا پرساد کے مطابق وہ اپنی زندگی بھر کی جمع پونچی بیٹے پر خرچ کر کر کے تھک چکے ہیں۔اُن کے بقول اُنہوں نے قرضے لے کر اپنے بیٹے کی تعلیم مکمل کرائی،اُسے امریکہ سے پائلٹ کا کورس کرایا اوراُس کی شاہانہ انداز میں شادی کرائی۔ اب وقت آ گیا ہے کہ اُن کا بیٹا اُس کی ادائیگی کرے۔ بھارت کے شہر دیہرایرہ دون کی ایک عدالت میں سنجیو اور اُن کی اہلیہ نے اپنےبیٹے اور بہو کے خلاف دائر کی گئی درخواست میں موقف اختیار کیا ہے کہ اُن کے بیٹے کی شادی کو 6 برس بیت گئے ہیں لیکن اُنہوں نے ابھی تک بچہ پیدا نہیں کیا۔درخواست گزاروں کا کہنا ہے کہ وہ چاہتے ہیں کہ اُن کا کوئی پوتا یا پوتی ہو جس کے ساتھ وہ وقت گزار سکیں تاکہ اُن کی تکالیف میں کمی آئے۔ سنجیو اور ان کی اہلیہ نے اپنی درخواست میں بیٹے سے مختلف مد میں معاوضے کی واپسی کا تقاضا بھی کیا ہے۔ جس میں بیٹے کی فائیو سٹار ہوٹل میں شادی، 80 ہزار ڈالر زمالیت کی لگژری کار اور ہنی مون کے لیے بیرونِ ملک بھیجنے کی مد میں اخراجات شامل ہیں۔والدین نے اپنے بیٹے سے پائلٹ کی تربیت حاصل کرنے کے لیے امریکہ بھیجنے کی مد میں آنے والے 65 ہزار ڈالرز کے اخراجات کی واپسی کا بھی مطالبہ کیا ہے۔سنجیو اور اُن کی اہلیہ کا کہنا ہے کہ انہوں نے قرضہ حاصل کر کے اپنا گھر تعمیر کرایا اور اب اکیلے رہنے پر مجبور ہیں۔ اُن کے بقول شدید مالی مشکلات سے دوچار ہونے کی وجہ سے وہ ذہنی تناؤکا شکار ہیں۔
بے شک اِس جوڑے کے ذہنی تناؤ کی سب سے بڑی وجہ اُن کی وہ توقعات ہیں جو اُنہوں نے اپنے بیٹے سے وابستہ کرلی تھیں،توقعات جتنی زیادہ ہوں گی زندگی میں پریشانیاں بھی اُتنی ہی زیادہ ہوں گی۔اب یہ عمر رسیدہ جوڑا یقینا عدالت سے ڈگری لے کر اپنے بیٹے اور بہو کے پاس جائے گا اور عین ممکن ہے کہ وہاں سے اُنہیں یہ پیغام موصول ہو "فنی خرابی کے باعث آپ کی مطلوبہ سہولت آپ کو فراہم نہیں کی جاسکتی تاہم ذرِ تاوان جلد ہی اقساط میں ادا کردیا جائے گا۔" یہ بات بھی بعید از امکان نہیں کہ نوجوان جوڑا مقدمے کی ڈگری جاری ہونے سے پہلے ہی ہندوستان سے جہاز اُڑا کر امریکہ تو لے جائے مگر واپسی پر جہاز کسی اور پائلٹ کے حوالے کردے اور عمر رسیدہ جوڑا ڈگری تھامے بیٹے، بہو اور پوتے کی راہیں تکتا خالق حقیقی سے جا ملے۔
.
نوٹ:یہ بلاگر کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔