سپریم کورٹ کی رائے کی کیا حیثیت ہوتی ہے؟ سینئر صحافی مجیب الرحمان شامی نے واضح کردیا
لاہور (ڈیلی پاکستان آن لائن) سینئر صحافی مجیب الرحمان شامی کا کہنا ہے کہ جب سپریم کورٹ کسی معاملے پر اپنی رائے دیتی ہے تو اس کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا، یہ نہیں ہوسکتا کہ ہائیکورٹ اس کو ماننے سے انکار کردے۔
نجی ٹی وی دنیا نیوز کے پروگرام "نقطہ نظر" میں گفتگو کرتے ہوئے مجیب الرحمان شامی نے کہا کہ وفاق میں کسی منحرف رکن نے شہباز شریف کو ووٹ نہیں دیا، وہاں سپریم کورٹ کا فیصلہ لاگو نہیں ہوتا۔ پنجاب میں 25 ارکان نے ووٹ دیے ہیں، سپریم کورٹ نے اکثریتی رائے یہ دی ہے کہ منحرف ارکان کے ووٹ شمار نہیں ہوں گے، حمزہ کے مقابلے میں امیدوار نے اسمبلی سے دستبرداری کرلی، سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد حمزہ کو یہ کہا جاسکتا ہے کہ وہ اعتماد کا ووٹ لیں۔
انہوں نے کہا کہ پنجاب میں اس وقت گورنر نہیں ہے، اگر سپیکر نے گورنر شپ سنبھال لی ہوتی تو وہ حمزہ سے اعتماد کے ووٹ کا مطالبہ کرسکتے تھے لیکن اب اگر وہ قائم مقام گورنر بنیں گے تو دوست مزاری قائم مقام سپیکر ہوجائیں گے، اس وقت الجھن تو پیدا ہوئی ہے لیکن معاملات سپریم کورٹ کی اکثریتی رائے کے مطابق چلیں گے۔
سینئر صحافی کا کہنا تھا کہ جب سپریم کورٹ اپنی رائے دیتی ہے تو یہ کسی دارالافتاء کی طرح نہیں ہے، کہ ایک مفتی صاحب نے رائے دی ، آپ کا دل کرے کہ مان لیں اور دل کرے تو نہ مانیں، سپریم کورٹ ملک کی سب سے بڑی عدالت ہے ، جب وہ رائے دیتی ہے تو اس رائے کا اپنا ایک وزن ہے ، اس رائے کو آپ نظر انداز نہیں کرسکتے، جب یہ معاملہ ہائیکورٹ میں آئے گا تو وہ یہ نہیں کہہ سکتی کہ ہم اس رائے کو نظر انداز کرتے ہیں۔
خیال رہے کہ سپریم کورٹ نے آرٹیکل 63 اے کی تشریح کے صدارتی ریفرنس کا فیصلہ سنادیا ہے۔ عدالت نے قرار دیا ہے کہ سیاسی جماعتیں جمہوریت کی بنیادہیں اور پالیسی سے انحراف کرنا کینسر ہے۔ منحرف ارکان کا ووٹ کاسٹ اور شمار نہیں کیا جائے گا۔ عدالت نے منحرف ارکان کی نا اہلی کی مدت کے تعین کے حوالے سے سوال کو واپس صدرِ مملکت کو بھجوادیا ہے۔ سپریم کورٹ نے فیصلے میں کہا ہے کہ نا اہلی کی مدت کا تعین کرنے کیلئے بہترین فورم پارلیمان ہے اور اس حوالے سے قانون سازی کیلئے درست وقت یہی ہے۔