نواں نو دن ،پرانا سو دن

یہ کہاوت سیانے بزرگوں سے سنتے آئے ہیں۔سینیٹر و پنجاب کے سابق گورنر سردار ذوالفقار کھوسہ نے طویل انتظار کے بعد آخر کار مہر سکوت توڑ دی ہے اور مسلم لیگ (ن) میں فارورڈ بلاک بنانے کا اعلان کر دیا ہے۔میری ان سے شناسائی اپنے ماموں پنجاب کے سابق آئی جی پولیس سردار محمد چودھری مرحوم کی وجہ سے ہے، جن کے ساتھ ان کا دیرینہ تعلق تھا۔اگرچہ فارورڈبلاک کے اعلان کو پذیرائی ملنے کا امکان شاید ایک فیصد بھی نہ ہو، مگر بھٹکتے ہوئے پرندوں کے لئے ایک گھونسلہ تو بن گیا ہے۔قیادت سے سب لوگ خوش نہیں ہوتے، جس طرح ہر باس سے اس کے ماتحت مطمئن نہیں ہوتے، مگر یہ کیفیت بھی نہیں ہونی چاہیے۔
کوئی کارواں سے ٹوٹا کوئی بدگماں حرم سے
کہ میر کارواں میں نہیں خوئے دلنوازی
قیادت میں کارکنوں اور رہنماؤں کے لئے خوئے دلنوازی ایک لازمی صفت ہونی چاہیے۔مسلم لیگ(ن) کی قیادت سے یہ شکوہ بہرحال لوگوں کو ہے کہ یہ دل سے بات نکالتے نہیں۔ یہ بات بھی اپنی جگہ ہے کہ سیاستدان کسی طرح مطمئن نہیں ہوتے اور جو کچھ میسر آتا ہے، اس پر احسان مند ہونے کی بجائے ’’ھل من مزید‘‘ کا تقاضا کرتے رہتے ہیں۔سرداسر ذوالفقار کھوسہ کو پنجاب کے اعلیٰ ترین عہدے پر فائز کیا گیا تھا، اگر ان کے حریف فاروق لغاری کو ان کی پارٹی نے صدر پاکستان بنایا تو مسلم لیگ(ن) نے بھی جواب میں کھوسہ سردار کو گورنر پنجاب کے منصب جلیلہ پر فائز کیا۔اس کے علاوہ متعدد بار ان کو صوبائی وزیر بھی بنایا گیا، انہیں ایوان بالا کا رکن بنا کر عزت بھی بخشی گئی۔وہ اس وقت بھی سینیٹر ہیں۔ان کے صاحبزادے دوست محمد کھوسہ کو جو دراصل پارٹی سے اختلاف کا ’’روٹ کاز‘‘ بنے دو ماہ کے لئے ہی سہی، وزیراعلیٰ پنجاب بھی بنایا۔اس کے بعد بلدیات جیسی اہم وزارت ان کے سپرد کی گئی۔
بلدیات کی وزارت بڑی زرخیز سمجھی جاتی ہے، مگر الیکشن نہ ہونے سے اس کی زرخیزی خشک پڑی ہے، تاہم دوست محمد کھوسہ پر کرپشن کے الزامات عائد ہوئے اور قیادت نے ان سے جواب طلب کر لیا۔ان کے دورِ اقتدار میں ان کے حواریوں پر لوٹ مار کے الزامات تواتر سے لگتے رہے۔اس کے بعد دوست محمد کھوسہ کی مبینہ سپنا نامی خاتون سے شادی اور ڈانس وغیرہ کی وڈیو فوٹیج ٹی وی سکرینوں کی زینت بنتی رہی اور سپنا خان کے گھر والوں نے اسے قتل کرانے کا الزام بھی لگایا۔ مقدمہ بھی درج ہوا، مگر وہ کیس اپنے انجام تک نہ پہنچا۔اس سارے معاملے سے کھوسہ خاندان کی قیادت سے ناراضگی پیدا ہو گئی۔سیف الدین کھوسہ پہلے ہی پیپلزپارٹی میں جا چکے تھے۔دریں اثناء پارٹی قیادت سے ایک اور اختلاف بھی تھا کہ بدلے ہوئے حالات میں فاروق لغاری کے صاحبزادے مسلم لیگ (ن) میں آنا چاہتے تھے، مگر کھوسہ خاندان نے شدید مزاحمت کی، جس کے باعث یہ معاملہ کافی دیر معلق رہا، مگر پارٹی قیادت نے دیگر اکابرین کے مشورے پر لغاری برادران کو قبول کر لیا،جس کے باعث کھوسہ سردار نے سُبکی محسوس کی۔
اختلافات اس وقت عروج پر پہنچ گئے، جب 2013ء کے انتخابات میں مسلم لیگ(ن) نیکھوسہ فیملی کو بالکل نظر انداز کر دیا اور قومی و صوبائی اسمبلی کا کوئی ٹکٹ ان کی جھولی میں نہ ڈالا، جس سے ناراض ہو کر کھوسہ سردار عملاً گوشہ نشین ہو گئے، مگر اب جبکہ مسلم لیگ کی قیادت کڑے حالات کے تھپیڑوں کی زد میں ہے تو انہوں نے اچانک پارٹی ڈسپلن توڑتے ہوئے علم بغاوت بلند کر دیا ہے، تاہم سردار ذوالفقار کھوسہ نے فارورڈ بلاک بنانے کی تردید کی ہے اور کہا ہے کہ دراصل ناراض ارکان خود ان کے پاس سرپرستی حاصل کرنے آ رہے ہیں۔ بات کسی حد تک سرپرستی کی بھی ٹھیک ہے، کیونکہ میاں صاحبان کی ملک سے جلاوطنی میں وہ سرپرستی کرتے بھی رہے ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ 2013ء میں ٹکٹیں فروخت ہونے کے ثبوت ان کے پاس ہیں اور جب پارٹی قیادت انہیں نوٹس جاری کرے گی تو وہ انکشافات کریں گے، یعنی عملاً کشتیاں جلا کر انہوں نے راہیں جدا کرلی ہیں۔کھوسہ سردار پرانے مسلم لیگی ہیں، انہیں بھی ایسے انتہائی اقدامات سے گریز کرنا چاہیے تھا۔آخر پارٹی نے آپ کو ہمیشہ بہت عزت دی ہے اور اب پارٹی کو مدد اور سہارے کی ضرورت ہے۔پارٹی کو بھی سوچنا چاہیے کہ اس کے لوگ اس سے کیوں ناراض ہو رہے ہیں؟
اس سے قبل غوث علی شاہ، ممتاز بھٹو، لیاقت جتوئی بھی کم و بیش انہی وجوہات کی بناء پر دور ہو گئے۔اب جاوید ہاشمی کا معاملہ ہے۔ یہ ٹھیک ہے کہ جن حالات میں وہ پارٹی چھوڑ کر گئے، ممکن ہے اس میں وہ پوری طرح حق بجانب نہ ہوں، مگر حالیہ بحران میں انہوں نے جو کردار ادا کیا، اس کا اعتراف اور تحسین نہ کرنا سیاسی فراست سے عاری کام ہے۔انہوں نے نظام کے ساتھ ساتھ مسلم لیگ (ن) کی بقاء کے لئے بھی کلیدی کردار ادا کیا ، ورنہ شاید صورت حال مختلف ہوتی، لیکن وہ شاکی ہیں کہ ان کے کردار کو کسی نے نہیں سراہا اور نہ ہی مسلم لیگ (ن) کی قیادت نے کسی دلنوازی کا مظاہرہ کیا۔اس وقت تو ضرورت زیادہ سے زیادہ ساتھی بنانے کی ہے اور مسلم لیگ(ن) کی قیادت پہلے ساتھیوں کو بھی دور کررہی ہے۔قومی اسمبلی کے حالیہ اجلاس میں تہمینہ دولتانہ کا طرز عمل بھی اپوزیشن رکن کا معلوم ہو رہا تھا۔آخر یہ سب کیا ہے؟ ایک طرف عوام خوش نہیں تو دوسری طرف عمران خان اینڈ کمپنی بحران پر بحران پیدا کررہی ہے۔پیپلزپارٹی کم ظرف دوست کا کردار ادا کرتے ہوئے مار آستین ثابت ہو رہی ہے۔گاڑی چل نہیں رہی، بلکہ ڈگمگا رہی ہے، ایسے حالات میں دوستوں کی خاطر انا کو خیرباد کہہ کر دل کے دروازے کھول دیں اور کھلے ہی رہنے دیں، کیونکہ یہ سچ ہے کہ نواں نوں دن پرانا سو دن ہوتا ہے۔