مسجد نبویؐ شریف میں پاکستانی اساتذۂ کرام(2)

مسجد نبویؐ شریف میں پاکستانی اساتذۂ کرام(2)
مسجد نبویؐ شریف میں پاکستانی اساتذۂ کرام(2)

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

مسجد نبویؐ میں محترم قاری بشیر احمد صاحب مدظلہ کا اپنا ایک مقام ہے۔ امام مسجد نبویؐ کے استاد گرامی ہونے کا اعزاز، سعودی نیشنل، وہاں کے لوگوں میں بڑے مقبول، اعلیٰ قدوقامت اور شخصیت کے مالک، پاکستان میں بھی ان کے بڑے مداح موجود ہیں۔2009ء میں رمضان المبارک سے قبل مجھے اطلاع ملی کہ قاری صاحب محترم اسلام آباد تشریف لائے ہوئے ہیں اور بحریہ ٹاؤن کی کسی اعلیٰ شخصیت کے مہمان ہیں۔دو دن بعد لاہور جامعہ اشرفیہ سے فون آیا کہ جناب قاری صاحب جامعہ تشریف لا رہے ہیں،ملاقات کے لئے آ جائیں، لہٰذا وہاں چائے پر ملاقات ہوئی۔ رات لاہور میں قیام فرما کر اگلے روز واپس تشریف لے گئے۔آخری ملاقات 2014ء میں ہوئی۔
اب مکرم و محترم جناب قاری عبداللطیف صاحب کا تعارف اس وقت کرا رہا ہوں، جب وہ مسجد نبویؐ میں سالہا سال تک تدریس کرنے کے بعد اب جنت البقیع میں آرام فرما ہیں۔جب بھی قاری صاحب سے بابِ عمر پر ملاقات ہوتی،وہ اظہارِ خلوص میں بچھ جاتے تھے۔ بڑے زندہ دل، بڑے مہمان نواز اور بڑے بڑے لوگوں کے استاد۔مغرب ، عشاء ان کے پاس پڑھنے والے لوگ ہر شعبہ سے تعلق رکھتے تھے۔ان کے لئے مسجد نبویؐ میں استاد ہونے کے علاوہ جو بڑا اعزاز تھا، وہ یہ تھا کہ ان کے کفیل الشیخ بن باز تھے۔اتنی بڑی شخصیت کی کفالت میں ہونا گویا ایسا تھا کہ ان کے ہاتھ میں ایسی چابی تھی کہ لوگوں کے بڑے بڑے کام کرا لیا کرتے تھے۔1989ء میں مکہ معظمہ میں ڈائریکٹر جنرل حرمین شریفین الشیخ عبداللہ ابن سبیل سے بیت اللہ شریف میں مصافحہ کرنے کاشرف حاصل ہوا۔1999ء میں قاری صاحب محترم فرمانے لگے۔ آج ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل حرمین شریفین الشیخ عبداللہ بن صالح سے ملاقات کراتے ہیں۔مسجد نبویؐ کے نزدیک ہی ہم ان کے دفتر گئے، ان کے سیکرٹری نے اندر پیغام بھیجا۔ جب اندر گئے تو قاری صاحب محترم نے اس عظیم شخصیت سے تعارف کرایا۔انہوں نے معانقہ فرمایا۔ ماتھا چوما، اپنے پاس بٹھایا اور قہوہ سے تواضع فرمائی۔
مسجد نبویؐ میں بالائی منزل پر مکتب المخطوطات ہے۔اس مکتب میں جب سے قرآن حکیم کاغذ پر لکھا گیا۔ وہ قلمی نسخے اور دیگر نادر کتب اور خطوط یہاں جمع ہیں۔ قاری صاحب محترم نے مدیر مکتب کو پیغام بھیجا۔ انہوں نے اوپر بلا کر یہ نادر شعبہ دکھایا۔مَیں نے مدیر صاحب سے سوال کیا کہ قرآن مجید کا وہ نسخہ بھی دکھائیں، جس کی تلاوت فرماتے ہوئے حضرت عثمان غنی ؓ شہید ہوئے تھے۔ مدیر نے جواب دیا کہ اول تو وہ جلد ترکی کے ٹالپکاچی میوزیم میں ہے، لیکن چونکہ آج کل سعودی حکومت کی آزادی کی 100سالہ تقریبات جاری ہیں،یہ نسخہ ریاض کی ایک نمائش میں موجود ہے۔یہ جان کر مجھے بہت دکھ ہوا، کیونکہ ایک ہفتہ پہلے مَیں ریاض میں تھا۔ٹی وی پر تقریبات دیکھتا رہا، مگر مجھے کسی نے اس نمائش کا نہیں بتایا ،ورنہ مَیں یہ نمائش بھی دیکھتا اور اس تاریخی نسخے کی زیارت بھی ضرور کرتا۔جب مَیں نے مدیر سے اس افسوس کا اظہار کیا تو انہوں نے اپنی دراز سے ایک فوٹو کاپی یہ کہہ کر دی کہ یہ اسی قرآن مجید کے ایک صفحہ کی فوٹو کاپی ہے۔بڑی عقیدت سے یہ کاپی مَیں پاکستان لے کر آیا۔دوست احباب کے اتنے ہاتھوں میں یہ کاپی گھومتی رہتی کہ گم ہی ہوگئی۔
ایک دن جب قاری عبداللطیف صاحب محترم اپنے درس سے فارغ ہوئے تو بتایا کہ پہلے مسجد نبویؐ کے امام عبدالرحمن الحذیفی تھے جو اس لحاظ سے بہت سینئر تھے۔ انہوں نے پہلے مسجد قبا میں امامت کرائی۔پھر بیت اللہ شریف کے امام مقرر ہوئے اور آخر میں مسجد نبویؐ کے امام کے فرائض انجام دیئے۔یہ واحد شخصیت ہیں جو تینوں مساجد کے امام ہونے کا اعزاز رکھتے ہیں۔مجھے ان سے ملنے کی خواہش پیدا ہوئی۔قاری صاحب فرمانے لگے، آج کل کم ہی مسجد نبویؐ میں تشریف لاتے ہیں۔مَیں کسی دن بعد نماز عشاء ان کے گھر لے چلوں گا۔قاری صاحب محترم کے یہ سب تعلقات ان کے کفیل الشیخ بن باز کی وجہ سے تھے۔
ایک صبح ہم فجر کی نماز کے لئے مسجد نبوی پہنچنے میں کچھ لیٹ ہو گئے۔قاری صاحب محترم نے بہت تیز گاڑی چلائی اور الحمدللہ ہم جماعت میں شامل ہو گئے۔نماز سے فارغ ہوئے تو قاری صاحب کی نظر امام الخدیفی مدظلہ پر پڑی جو پہلی صف میں موجود تھے۔قاری صاحب میرا ہاتھ پکڑ کر تیزی سے آگے بڑھے، ان کی خدمت میں سلام عرض کیا ،پھر میرا تعارف کرایا۔الحمدللہ انہوں نے معانقہ فرمایا اور ماتھا چوما جو میرے لئے بڑی سعادت کی بات ہے۔ ایک صبح قاری صاحب محترم نے امیر وزارت مذہبی امور سے ان کے دفتر میں ملاقات کرائی۔بڑی گرم جوشی سے وہ مجھے ملے اور یہ جان کر کہ مجھے عربی نہیں آتی۔ انہوں نے اپنی الماری میں سے خلاصہ بخاری شریف ،جو وزارت مذہبی امور، حکومت سعودی عرب نے اردو میں چھاپا تھا،کا ایک نسخہ مجھیہدیہ فرمایا جس کے لئے میں ان کا ممنون ہوں۔
قاری عبداللطیف صاحب محترم بڑی باغ و بہار شخصیت کے مالک تھے۔بین الاقوامی محافل قرآن میں پاکستان ضرور تشریف لاتے تھے۔یہاں ہم دونوں کا ساتھ رہتا تھا۔ قاری صاحب سے بھی مَیں نے ریواز گارڈن کی مسجد بیت المکرم میں نماز جمعہ پڑھوائی۔فارغ ہوکر کئی دوست احباب کے ساتھ اکٹھے دوپہر کا کھانا کھایا۔ 31مارچ 2006ء۔۔۔1999ء کے مدینہ منورہ کے قیام کے دوران محترم نے اپنے ساتھ لے جا کر روضہء اطہر پر درود و سلام پڑھوایا۔پھر جنت البقیع لے گئے۔ قبور کی زیارت کرائی۔فاتحہ خوانی کرائی اور بتایا کہ میرے والد محترم بھی یہاں مدفون ہیں۔اللہ کریم سب کی قبروں کو نور سے بھر دے(آمین)
محترم قاری صاحب ملتان کے رہنے والے تھے۔ استاد اور قاری ہونے کے اعتبار سے اعلیٰ مقام رکھتے تھے۔ مسجد نبویؐ میں خود استاد تھے تو زوجہ محترمہ عورتوں کو مسجد نبویؐ میں پڑھاتی تھیں۔ اللہ اکبر! قاری صاحب مرحوم و مغفور 21اگست 2006ء جنت البقیع میں جا سوئے۔زوجہ تدریس کے کام میں مصروف ہیں۔الحمدللہ انہوں نے اپنے بچوں کو بھی قرآن مجید کی اعلیٰ تعلیم دی۔بڑا بیٹا اتنا خوش الحان ہے کہ لوگ امریکہ سے آنے نہیں دیتے۔دو بیٹے مسجد نبویؐ میں پڑھا بھی رہے ہیں اور خطاطی بھی سکھا رہے ہیں۔ ہر فرد سے مل کر طبیعت خوش ہو جاتی ہے۔ 1999ء کی مدینہ منورہ کی حاضری میں قاری صاحب محترم نے عربی کا ایک رسالہ دکھایا۔ جس میں الشیخ بن باز مرحوم ومغفور کے جنازے کی تصاویر تھیں۔قاری صاحب نے فرمایا کہ بیت اللہ شریف میں اس سے بڑا جنازہ نہیں پڑھا گیا۔
قاری عبداللطیف صاحبؒ نے انتقال سے قبل پاکستان کے آخری دورے کے بارے میں مدینہ منورہ سے فون کرکے بتایا کہ مَیں پاکستان میں بین الاقوامی محفل قرآن کے لئے دبئی سے ہوتا ہوا آ رہا ہوں۔ چند روز بعد دبئی سے فون آیا کہ کل صبح کی فلائٹ پرآ رہا ہوں ۔ہم ائرپورٹ وقت پر پہنچ گئے، جب باہر تشریف لائے تو ایک مصری قاری صاحب بھی ان کے ساتھ تھے۔ان سے تعارف کرایا کہ یہ بین الاقوامی شہرت یافتہ الحاج القاری عبدالباسط عبدالصمد کے فرزند ارجمند قاری یاسر عبدالباسط ہیں۔ مَیں نے انہیں گلے لگایا۔چوما اور یہ کہہ کر اپنی خوشی کا اظہار کیا کہ آج آپ کو ایئرپورٹ سے لیا ہے۔1962ء میں لاہور ائرپورٹ پر ہی آپ کے والد ماجد الحاج القاری عبدالباسط عبدالصمدؒ کو جو جماعت لینے آئی تھی، مَیں اس میں بھی شامل تھا۔ دونوں قراء حضرات کو یہ جان کر خوشی ہوئی۔محافلِ قرآت تو کئی جگہ ہوئیں، مگر مَیں شاہی مسجد کی محفل میں قراء حضرات کے ساتھ رہا، جب قاری یاسر عبدالباسط قرات کر رہے تھے تو مجھے ان کے والد گرامی بڑے یاد آئے کہ اس محفل میں بھی الحمدللہ میں بادشاہی مسجد میں موجود تھا۔ایسی محفل نہ دیکھی نہ سنی۔
محترم قاری عبداللطیف صاحب کی مدینہ منورہ واپسی کے کچھ عرصے بعد فون آیا کہ طبیعت کچھ ناساز ہے۔پھر مجھے رحلت کی خبر ملی، ان کی زوجہ محترمہ کو فون کرکے مَیں نے تعزیت کی۔انہوں نے بتایا کہ بعد نماز عصر مسجد نبوی شریف میں جنازہ ہے۔۔۔اناللہ و انا الیہ راجعون۔۔۔اب محترم قاری صاحب جنت البقیع میں آرام فرما ہیں۔اللہ کریم ان کی اور سب کی قبروں کو نور سے بھر دے(آمین ثم آمین)۔۔۔ دین کے شیدائی وہاں کی موت کی تمنا کرتے ہیں جو نصیبوں سے میسر آتی ہے۔ قاری محمد ابراہیم صاحب لاہور میں میرے پاس تشریف رکھتے تھے۔فرمانے لگے مَیں کراچی، زمبیا سے ہوتا ہوا مدینہ منورہ جاؤں گا۔زمبیا پہنچے تو ایکسیڈنٹ ہوا اور وفات پا گئے۔2-6-12کو وہاں ان کا جنازہ تھا۔مدینہ منورہ نہ پہنچ سکے۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔(ختم شد)

مزید :

کالم -