سراج الحق کی جماعت اسلامی

سراج الحق کی جماعت اسلامی
سراج الحق کی جماعت اسلامی

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

جماعت اسلامی ملک کی واحد دینی سیاسی جماعت ہے، جس کے اندر اوپر سے نیچے تک جمہوریت اور مشاورت کا سٹرکچر موجود ہے ۔ایسا جمہوری سٹرکچر کسی دوسری جماعت میں نہیں،ہر سطح پرامیر کا انتخاب ہوتا ہے۔ ضلعی،صوبائی اور مرکزی سطح پر مشاورت کے لئے شوریٰ فعال کردار ادا کرتی ہیں۔ اگرچہ جماعت کی پالیسیاں مرکزی شوریٰ بناتی ہے اور امیر ان کا پابند سمجھا جاتاہے، لیکن ہر امیر جماعت کواپنے مزاج کے مطابق چلاتا ہے، جماعت کی پالیسیوں اور اقدامات میں اس کی شخصیت،سوچ اور اپروچ کے واضح اثرات ہوتے ہیں ۔
مولانا سید ابوالاعلی مودودی ؒ کی جماعت ملک کے دستور کو اسلامی رنگ دینے میں کامیاب ہوئی۔ میاں طفیل محمد نے بانی جماعت کی روایات ہی کو آگے بڑھایا ۔قاضی حسین احمد نے جماعت میں غیر معمولی تحرک پیدا کیا، اسے کھلی فضاؤں میں لائے، مگرانہیں جماعت کے اندر خاص پذیرائی نہیں ملی، بلکہ ان کے عوامی اندازاور شخصی نعروں پر تنقید ہوتی رہی ۔انہوں نے نوجوانوں کو اکٹھا کیا،پاسبان بنائی، مگر اس کو بھی سند قبولیت نہ ملی۔ محمد علی درانی پاسبان کے صدر تھے، جو بعد میں پرویز مشرف دور کے وزیر اطلاعات رہے ۔قاضی حسین احمد نے،دور ہٹو سرمایہ دارو! پاکستان ہمارا ہے،کا نعرہ دیا ۔وہ ایک طرف پاکستانی سیاست میں مقام بنانے کی کوشش کر رہے تھے، دوسری طرف جماعت کے اندر سے دباؤ کا شکار تھے۔ مرکزی شوریٰ ان پر پابندیاں لگاتی، مگر وہ اس سے نکل جاتے تھے۔
یہ جماعت کے اندر جمہوریت کا اعجاز ہے کہ ایک مزدور کا بیٹا مرکزی امیر بن گیا ہے،جو سکول پڑھنے کے لئے سائیکل پرسات کلو میٹر دور جاتا تھا،غربت کا یہ عالم تھا کہ بستہ نہ ہونے کی وجہ سے سکول سے نکال دیا گیا۔ کالج میں ہاسٹل کے اخراجات مزدوری کرکے پورے کرتا تھا۔ ایک تقریب میں سراج الحق نے کہا کہ مَیں زمانہ طالب علمی میں پہلی بار اسلام آباد آیا تو مجھے رات گزارنے کے لئے کوئی جگہ نہیں ملی ، بازار بند ہوا تو ایک دکان کے باہر پڑے پھٹے پرسو گیا ۔سراج الحق سینئر صوبائی وزیر بن کر بھی عام مسافروں کے ساتھ بسوں میں سفر کرتے رہے۔ایک انٹرویو میں کہا کہ مَیں نے غربت میں آنکھ کھولی ہے، مجھے احساس ہے کہ غریب کے کیا مسائل ہوتے ہیں ۔انہوں نے یہ بھی کہا: ’’مَیں نہیں مانتا کہ لوگ جماعت اسلامی کو ووٹ نہیں دیتے،جب بھی ملک میں شفاف الیکشن ہو گا،جس میں سرمایہ استعمال نہیں ہو گا، عوام جماعت کو ووٹ دیں گے،ابھی تک ہمارا ووٹر فیوڈلز اور وڈیروں کے ہاتھوں یرغمال ہے،ہر ضلع میں سیاسی برہمن عوام کو تھانے کچہری کے ذریعے بلیک میل کرتے ہیں‘‘۔
سراج الحق دھرناسیاست کی محاذآرائی میں ایک مدبراور معتدل سیاست دان کے طور پرابھرے ہیں جو سیاست کے وقتی ہیجان سے بلند ہوکر قوم کے حقیقی ایشوز پر بات کررہا ہے ۔جب ساری پارٹیاں دو کیمپوں میں بٹ گئی تھیں اور ان میں کوئی ایسارابطہ کار نہیں تھا،جس پر دونوں کا اتفاق ہو،انہوں نے آگے بڑھ کر سیاسی درجہ حرارت کنٹرول کیا اور سب کومذاکرات کی میز پر لا بٹھایا۔ عمران خان کو غالباً ان کا اعتدال پسند نہیں آیا اور کہا کہ سراج الحق وکٹ کے دونوں طرف کھیلنا بند کریں۔ اس بیان پر جماعت برہم ہوئی تو عمران خان معذرت کرنے سراج الحق کے پاس چلے گئے۔
سراج الحق نے روایت سے ہٹ کرایک اور ایسا کام کیا، جس کی ملک کو اشد ضرورت ہے ۔ حرمت کے نام پرقتل وغارت پر مذہبی طبقے کی طرف سے کوئی آواز نہیں اٹھائی جاتی، جس کا نشانہ بالعمو م اقلیت سے تعلق رکھنے والے غریب لوگ بنتے ہیں۔سراج الحق نے کوٹ رادھا کشن جاکر قتل ہونے والے مسیحی جوڑے کے لواحقین سے تعزیت کی۔یہ واضح پیغام تھا کہ ہمارا دین ایک انسان کے قتل کو پوری انسانیت کا قتل قرار دیتا ہے،اس کا کسی ہجوم کی درندگی سے کوئی تعلق نہیں ۔اقلیتوں کے خلاف وحشیانہ کارروائیوں سے دین رحمت کا امیج خراب ہوتا ہے، مگر مذہبی جماعتیں ایسے واقعات پر ڈھیلے ڈھالے دبے دبے سے بیانات دے کر بری الذمہ ہوجاتی ہیں۔ جماعت کے مرکزی امیر کی طرح دوسری مذہبی جماعتیں محبت اور ہمدردی کارویہ اپنائیں، تو مذہبی دہشت گردی کا سلسلہ رک سکتا ہے اور لاؤڈ سپیکروں کے ذریعے آگ بھڑکانے کا سلسلہ بند ہوسکتا ہے۔
سراج الحق کے خیالات، بیانات اور انداز میں عوام کے لئے ایک کشش موجود ہے۔ وہ عام آدمی کے مسائل کی بات کرتے ہیں تو اس میں سچائی کی جھلک دکھائی دیتی ہے ۔ ان کا نعرہ: ’’اسلامی پاکستان ۔خوشحال پاکستان‘‘ کوئی نیا نعرہ نہیں ہے، بلکہ یہ جماعت کی ساری جدوجہدکا محور رہا،دلوں کو گرماتا اورولولوں کو سلگاتا رہا۔ مسئلہ مگر یہ رہا کہ اسلامی پاکستان کا تصور، خاکہ اور سٹرکچر شائد جماعت سے وابستہ نظریاتی کارکنوں کے ذہن میں تو پوری طرح واضح ہوگا ،مگر بد قسمتی سے عوام کے فہم تک نہیں پہنچ سکا۔1970ء کے الیکشن سے 2013ء تک جماعت کا یہی نعرہ رہا ہے۔ نتائج ہمارے سامنے ہیں۔اب یہ کون بتائے کہ لوگ ابھی اتنے اعلیٰ اخلاقی معیار پر نہیں کہ اپنے سیاسی اورگروہی مفادات کواسلامی نظام کی برکات سمیٹنے کے لئے قربان کردیں۔سماج کے پاور سٹرکچر اور لوگوں کے چھوٹے چھوٹے مفادات، عیارات اور گروہی وابستگیوں کو سمجھے اور تسلیم کئے بغیر کوئی پالیسی یا نعرہ ثمر آور نہیں ہوسکتا۔
متبادل قیادت کے پاس متبادل نظام اوراسے چلانے والی ٹیم ہونی چاہئے۔ اگر سراج الحق کی جماعت اسلامی خود کو متبادل قیادت کے طور پر پیش کررہی ہے تواس کے پاس متبادل نظام کا خاکہ اور سٹرکچر بھی ہونا چاہئے۔ ملک کے مسائل کیا ہیں،انہیں کیسے حل کریں گے، ترجیحات کیا ہوں گی، ان کی تفصیلات پر بحث ہونی چاہئے ۔بدقسمتی سے سیاسی جماعتوں کے اندر ایسے ادارے موجود نہیں جو حکومتی پالیسیوں پر تحقیق کریں اور متبادل پالیسیاں بنائیں،حکومت پر ٹھوس دلائل کے ساتھ تنقید کریں ۔ سیاسی رہنما روز مرہ مسائل پر سطحی اور سرسری سے بیانات دے کر میڈیا میں ’’اِن‘‘رہتے ہیں۔
جماعت کے پاس منظم اندازمیں انتھک محنت کرنے والے کارکن موجود ہیں، لیکن انہیں صرف سیاسی جلسوں اور جلوسوں کے لئے استعمال کیا گیا ۔سماجی تبدیلی کی کوئی مربوط مہم چلائی جاتی تو کارکنوں کی جدوجہد برگ و بار لاسکتی تھی۔ کرپشن ملک کا بہت بڑا مسئلہ، لیکن اس سے فیضاب ہونے والے اس کے خلاف کچھ نہیں بولیں گے،کچھ نہیں کریں گے۔کرپشن کے خلاف وہی آواز اٹھائے گا، جس کا اپنا دامن صاف ہو گا۔ جماعت اس کے خلاف زبردست تحریک چلا کر عوامی ابھار پیدا کر سکتی ہے، جو اسے سیاسی توانائی اور تازگی دے گی ۔قومی سطح پر سیمینار، کانفرنسیں اور مقامی سطح پر بدعنوان عناصر کے خلاف احتجاج سے اس نظام کو دھچکا لگایا جا سکتا ہے، جو بڑی خاموشی سے قوم کے وسائل نچوڑ رہا ہے۔جماعت ٹھوس پالیسیوں اور سماجی حقیقتوں کے مطابق قابل عمل حکمت عملی اپناکر قومی سیاست میں بھرپور کردار ادا کرسکتی ہے ۔ایسا لگتا ہے کہ درویش منش سراج الحق کی جماعت اسلامی قومی سیاسی دھارے کے کونے میں چپکے سے کھڑی جماعت نہیں ہو گی، بلکہ مروجہ سیاست اور موجود نظام کو چیلنج کرتی قوت بن کر ابھرے گی۔

مزید :

کالم -