مہنگائی کم کرنے کے لئے اقدامات کئے جائیں
سٹیٹ بینک نے آئندہ دو ماہ کے لئے مانیٹری پالیسی کا اعلان کرتے ہوئے شرح سود 0.5فیصد کم کرنے کا اعلان کیا ہے، رواں سال میں یہ آخری مانیٹری پالیسی ہے، جو31دسمبر تک لاگو رہے گی، شرح سود کم ہونے سے حکومتی قرضوں میں اگرچہ کمی ہو گی، لیکن دوسری جانب بینک کھاتوں اور بچت سکیموں پر بھی منافع کم ہو جائے گا۔ مانیٹری پالیسی میں کہا گیا ہے کہ بجلی پر سبسڈی میں کٹوتی سے مہنگائی بڑھے گی، گیس سرچارج سے بھی مہنگائی بڑھ سکتی ہے۔ پالیسی میں کہا گیا ہے کہ عالمی ماحول کی وجہ سے ٹیکسٹائل کا شعبہ مشکلات کا شکار ہے، توانائی بحران سے صنعتی پیداوار متاثر ہوتی رہے گی، بجٹ خسارے میں کمی کے لئے کافی پیشرفت ہوئی، مالیاتی استحکام کے لئے اٹھائے گئے اقدامات درست سمت کی جانب گامزن ہیں، رواں سال زرعی پیداوار بہتر رہنے کی توقع ہے۔
سٹیٹ بینک کی مانیٹری پالیسی میں ملکی معیشت کی ملی جلی تصویر سامنے آئی ہے، صنعت کار کافی عرصے سے شرح سود میں کمی کا مطالبہ کر رہے تھے، لیکن اُن کا یہ مطالبہ اب جا کر پورا ہوا ہے۔ اگرچہ ان کی توقع کے مطابق شرح سود کم نہیں ہوئی، صنعتوں کے لئے اگر کم شرح سود پر قرضہ ملے گا تو پیداواری لاگت کم ہو گی اور صنعتی اشیاء سستی ہوں گی، تاہم سبسڈی کے کم ہونے کی وجہ سے مانیٹری پالیسی میں مہنگائی بڑھنے کا خدشہ ظاہر کیا گیا ہے، اِسی طرح گیس سرچارج سے بھی مہنگائی بڑھنے کا امکان ہے، مختلف وجوہ کی بنا پر ماضی میں مہنگائی کا گراف اوپر ہی اوپر جا رہا ہے تاہم گزشتہ چند ماہ سے تیل کی عالمی قیمتیں کم ہو رہی ہیں ،جن کی وجہ سے مہنگائی کو بڑھنے سے روکنے میں مدد مل سکتی ہے تاہم مانیٹری پالیسی میں زرعی پیداوار بڑھنے کی نوید سنائی گئی ہے،جو مہنگائی کم کرنے میں معاون ثابت ہو سکتی ہے۔ پاکستان بنیادی طور پر زرعی ملک ہے اور اس کی کئی صنعتیں ایسی ہیں، جن کا خام مال زرعی شعبے سے ہی حاصل ہوتا ہے، اس لئے زرعی پیداوار میں اضافے کا مثبت اثر ان صنعتوں پر بھی پڑے گا ، جو زرعی شعبے سے خام مال حاصل کرتی ہیں۔
توانائی کا بحران پاکستان کی صنعتوں کو منفی طور پر متاثر کر رہا ہے اور گھریلو صارفین کے لئے بھی مشکلات پیدا ہو رہی ہیں اس لئے بجلی کی پیداوار میں اضافے کی ضرورت ہے۔ حال ہی میں چین کی کمپنیوں کے ساتھ سرمایہ کاری کے جن معاہدوں پر دستخط ہوئے ہیں ان میں سرمایہ کاری کا رُخ انرجی سیکٹر کی طرف ہی ہے۔ توقع ہے کہ یہ منصوبے2017ء تک مکمل ہو جائیں گے، گویا تین سال کے بعد انرجی بحران کم ہو جائے گا۔ توقع کرنی چاہئے کہ یہ تین مشکل سال گزر جائیں تو بجلی کا بحران حل ہو جائے گا اور عوام کو ریلیف ملنا شروع ہو جائے گا۔ ملکی پیداوار میں اضافہ کے بغیر خوشحالی کا کوئی تصور نہیں، اس لئے زیادہ توجہ ملک کی صنعتی پیداوار بڑھانے پر مرکوز رکھنی چاہئے۔